آزادی کے بعد کئی بار ایسے مواقع آئے ہیں جب کہ اقتدار میں موجود سیاست دانوں کے ہاتھوں سرکاری اہل کاروں کی ذلّت کے واقعات سے ہندوستا ن میں تہلکہ مچ گیا لیکن کبھی بھی کسی واقعہ کا رد عمل اتنا ہنگامہ خیزنہیں ہوا تھا جیسا کہ 27 جولائی کوانڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز (آئی اے ایس) کی 28 سالہ ممبر درگا شکتی ناگپال کی بے ضابطہ معطّلی کے نتیجے میں ہوا۔ وہ ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے عہدے پرفائز تھیں، یو پی میں ایک جونیئر درجے کی افسر جس کا تعلق 2009 کے گروپ سے تھا۔

اس نے ریت سپلائی کرنے والے مافیا سے بڑی بہادری سے ٹکر لی تھی جس نے غیر قانونی طور پر دریائے جمنا کے کناروں سے ریت کے ٹرک بھر بھر کر اربوں روپے کمائے تھے۔ یہ کام انہوں نے آدھی رات اور صبح کے درمیان کیے تھے تا کہ دہلی کی تیزی سے ترقی کرتی تعمیراتی انڈسٹری کے ٹھیکوں کوریت کی سپلائی دی جا سکے۔ وہ ان چھاپوں کے موقعوں پر خود موجود ہوتی تھی اور ذاتی طور پر ان کی نگرانی کرتی تھی جبکہ پولیس اسکواڈ رات کے اندھیرے میں مجرموں کا پیچھا کر کے ان کو پکڑتے تھے۔

اس کی اپنے کام سے لگن کا ثبوت 66 ایف آئی آر، 104 گرفتاریاں اور 81 گاڑیوں کی ضبطگی ہے جو جرائم کو جڑ سے ختم کرنے کی اس کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اس کی معطّلی کے فوراً بعد حکمران سماج وادی پارٹی کے یو پی کے ایک سینئررہنما، نریندر بھٹی نے بڑ ہانکی کہ انہوں نے درگا ناگپال کو صرف 41 منٹ میں معطل کروا دیا تھا۔

جواں سال چیف منسٹر اکھیلیش یادو، جو اپنے باپ ملائم یادو کی شاگردی میں حکومت کے کاروبار چلاتے ہیں، جو پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے فرمایا کہ "وہ ایک خودسر بچے کی طرح ہے جس کی سرزنش ضروری تھی"۔

2014 کے لوک سبھا کے انتخابات میں مسلم ووٹوں کو نظر میں رکھ کر انہوں نے الزام لگایا کہ اس افسرنے ایک گاؤں میں ایک مسجد کی دیوار گرا دی تھی۔ اب وہ وقت جا چکا ہے کہ مسلمانوں کو ان باتوں سے بے وقوف بنایا جا سکے۔

جب سے یادو یوپی میں اقتدارمیں آئے ہیں یہاں فسادات کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے جس میں ہمیشہ کی طرح مسلمان ہی نشانہ بنتے ہیں۔ یوپی کے وقف بورڈ نے درگا ناگپال کو ان الزامات سے بری کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ دیوار کو نہیں گرایا بلکہ اپنے فرض کی انجام دہی کے دوران وقف کی زمین کو لینڈ مافیا سے بازیاب بھی کرایا۔

اپنے طور پر، اس افسر نے ایک باوقار خاموشی اختیار کیے رکھی، میڈیا سے بھی بات نہیں کی اور شو کاز نوٹس میں اپنے اوپر عائد الزامات کو رد کرنے کی حد تک محدود رکھا۔

بہرحال، ریاست کی آئی اے ایس آفیسرز ایسوسی ایشن اور سنٹرل آئی اے ایس آفیسرز ایسوسی ایشن نے مل کر اس کارروائی کے خلاف سخت احتجاج نوٹ کروایا اور دہلی میں 100 سے زیادہ سول افسروں نے یونین منسٹر، جو سول انتظامیہ کے انچارج ہیں، کے ساتھ ملاقات میں بھی یہی بات کی۔ ان سب کےعلاوہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا 2 اگست کا وہ مشہور خط جو وزیراعظم من موہن سنگھ کے نام تھا جس میں اس معاملے کو دیکھنے کو کہا گیا تھا کیونکہ اس افسرکا تعلق مرکز سے تھا۔

اس کیس میں دو بنیادی اہمیت کے مسائل ہیں۔ ایک کا تعلق قانون کی حاکمیت سے ہے اور دوسرا مسلہ جمہوریت میں سول سروسز کی حیثیت کا ہے۔ جب کوئی سول سرونٹ کسی قانون کے مطابق عمل کر کے اپنے اختیارات کا استعمال کرتا ہے تو کسی کو اس کو روکنے کا حق نہیں بنتا ہے اور نہ ہی اس کو سزا دینے کا کسی سیاست دان کو اختیار ہے۔ سوائے اس طریقے کہ جو قانون نے وضع کر دیا ہے۔

کوئی وزیراعلیٰ یا کوئی اور وزیر اس کے فیصلہ کو رد کرنے کا قانونی اختیار نہیں رکھتا ہے۔

ایک سابق کیبنٹ سیکرٹری نریش چندرا نے خیال ظاہر کیا کہ "لاء اینڈ آرڈر کے معاملات میں زمینی حقائق وزیراعلیٰ یا سیاست دانوں کے ذریعہ نہیں طے ہوتے ہیں بلکہ یہ کام اس علاقے کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا سب ڈویژنل مجسٹریٹ کا ہے"۔

"لہٰذا جوقانونی فیصلہ ایس ڈی ایم ناگپال نے دیا تھا اور جو احکامات انہوں نے مجسٹریٹ کے طور پر جاری کئے تھے اور جس پر وزیراعلیٰ  نے سوالات اٹھائے حالانکہ ان کا ذکر بھی کرمنل پروسیجر کوڈ کے تحت کہیں نہیں کیا گیا ہے اور یہ ان کے دائرہء اختیارات سے باہر ہے اور یہ کسی بھی وزیراعلیٰ کی اختیارات سے تجاوز کی بدترین مثال ہے"۔

ہر ایک ڈسٹرکٹ دو یا تین ڈویژنوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کا سربراہ ایک ایس ڈی ایم ہوتا ہے۔ جس کو اس علاقے میں قانون کے نفاذ کا اختیار ہوتا ہے اور جو صرف ڈسٹرکٹ کلکٹر کی ماتحتی میں آتا ہے، تمام امتناعی احکامات کا اختیار ایس ڈی ایم کے پاس ہوتا ہے جو اسے کرمنل پروسیجر کوڈ کے تحت جاری کرتا ہے تا کہ شورشیں اور شورش کرنے والے اپنی حد سے باہر نہ نکلیں۔ اگر کوئی وزیراعلیٰ اپنی من مانی کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے اور ایس ڈی ایم کے قانونی احکامات میں دخل اندازی کرتا ہے تو وہ نہ صرف تمام سول سروس کے ادارے کے نظام کو بگاڑنے کا ذمہ دار ہوتا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کی بیخ کنی کا بھی موجب ہوتا ہے۔

اقتدار میں موجود سیاست دان معطلی اور ٹرانسفر کے ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں۔ خصوصاً یوپی میں جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، سپرنٹنڈنٹ پولیس اور صوبائی سکریٹیریٹ کے لیول پرلاتعداد ٹرانسفرز عمل میں لائے جاتے ہیں۔ لیکن سول سروسز نے اس بحران کو حل کرنے کے لئے آج تک اداروں کے اصلاح کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔

ناگپال کیس کی روشنی میں ایک اعلیٰ سول عہدیدار شائلاجا چندرا جو مرکزی حکومت میں سکریٹری اوردہلی کی چیف سکریٹری کے عہدے پر رہ چکی ہیں، نے لکھا، "ایک ایسی سول سروسز اتھارٹی کا قیام اب ضروری ہو گیا ہے جو آئی اے ایس افسروں کے ٹرانسفرز اور تعیناتی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہو اور بلا کسی دباؤ کے کام کرے جو ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کمیشن کے مشورے کے مطابق اور مرکزی حکومت سے منظور شدہ ہو۔ بہت عرصے سے اس میں نرمی دکھائی جا رہی ہے۔ "

"دوسرے یہ کہ، جو بھی کسی سول عہدیدارکے فرائض کی ادائگی میں رخنہ اندازی کا ذمہ دار ہو اسے انڈین پینل کوڈ کے تحت گرفتار کیا جائے اور اگر پولیس یہ کام نہیں کرتی ہے تو متاثرہ عوام بحیثیت مجموعی عدالت میں شکایت درج کرا سکتے ہیں"۔

بی۔ کے۔ نہرو، پنجاب کیڈر کے ایک آئی سی ایس افسر نے تقسیم سے پہلے ان اصلاحات پر زور دیا تھا تا کہ "انتظامی مشینری صوبہ کے اعلیٰ عہدیدار کی خواہشات کی غلام نہ بن جائے اور برخلاف اس کے جس طرح آج رواج ہے ان کے من مانے احکامات ہی کی تعمیل کروائے۔ اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ سول سروسز کو وہ آزادی حاصل ہو، جو کنونشن کے تحت ان کا استحقاق ہے، اور جو تمام مغربی پارلیمانی جمہوریتوں میں رائج ہے"۔

"پروموشن، معطلی اور ٹرانسفر کے اختیارات جو آجکل سول افسروں کو وزیروں کی خواہشوں کے مطابق عمل کروانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، سیاسی عہدیداروں کے پاس نہ ہوں، بلکہ اعلیٰ سول عہدیداروں کا ایک گروپ ہو اور صرف اسی کو ان فیصلوں کا اختیار ہو اور کیونکہ ہم کسی کنونشن وغیرہ کو تو مانتے نہیں ہیں اس کو ایک قانون کی صورت دینی ہوگی"۔

یہ نکتہ بیش قیمت ہے اور شدّت سے قانون سازی کا متقاضی ہے اور اس کے متن کا فیصلہ سول سروسز کی خواتین (ریٹائرڈ اور موجودہ) کی مکمل مشاورت سے ہونا چاہئے۔


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں