Dawnnews Television Logo

کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اپنا وزیراعظم لا سکتے ہیں؟

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری، ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب معروف تجزیہ کاروں سے جانتے ہیں۔
شائع 10 فروری 2024 01:03pm

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر 24/7 نظر رکھنے والے موسمی سیاسی پنڈتوں کی تمام تر پیش گوئیوں کے برخلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اس وقت انتخابی نتائج (جو پولنگ ختم ہوئے 36 گھنٹوں سے زائد گزر جانے کے باوجود مکمل سامنے نہیں آئے) کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ سرِفہرست ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے وقت سے پہلے کی جانے والی اپنی وکٹری اسپیچ میں عندیہ دیا کہ وہ مخلوط حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے مورچے میں موجود آزاد امیدواروں کا جھکاؤ کس طرف ہے، یہ ابھی واضح نہیں۔

انتخابات میں کامیابی کے باوجود پی ٹی آئی اب بھی نقصان میں ہے اور جس کی وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کے لیے اہم ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لے لینا اور ان کے خلاف مقدمات کے باعث سینیئر قیادت کا جیل میں ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سب سے زیادہ قومی نشستیں جیتنے کے باوجود اپنی حکومت قائم نہیں کرپائیں گے کیونکہ پارٹی کو اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا کوٹا نہیں مل سکتا۔ تو اب ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ ہم نے اس سے متعلق چند سوالات اپنے پینل کے سامنے رکھے ہیں جس پر انہوں نے اپنا مؤقف پیش کیا۔

کیا قومی اسمبلی میں اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں؟

معروف صحافی وسعت اللہ خان کے مطابق، ’جنرل ضیاالحق کے دور میں آزاد امیدواروں کی تعداد پارلیمنٹ میں اس سے بھی کئی زیادہ تھی، اتنی زیادہ کہ پوری پارلیمنٹ ہی آزاد امیدواروں پر مشتمل تھی‘۔

انہوں نے وضاحت کی کہ 1985ء میں غیرجماعتی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جن میں کسی بھی جماعت کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی تو ایسے میں سب نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا۔ انہوں نے کہا، ’ظاہر ہے سب کو کسی نہ کسی جماعت کی حمایت حاصل تھی لیکن کاغذ پر وہ آزاد امیدوار تھے‘۔

ان میں سے آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد قومی اسمبلی گئی اور اپنے گروپ یا جماعت کو پاکستان مسلم لیگ کا نام دیا۔ وسعت اللہ خان نے یاد کرکے بتایا، ’آج ہم ان جماعتوں کو مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) یا پہلے چٹھہ لیگ کے نام سے جانتے تھے۔ یہ تمام جماعتیں 1985ء کی غیرجماعتی اسمبلی کی پیداوار ہیں‘۔

اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی آنے سے انکار کردیں تو ایسے میں کیا ہوگا؟

وسعت اللہ خان نے کہا کہ یہ پارٹی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ ’یہ کام وہ پہلے بھی کرچکے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک خراب تجربے کے بعد وہ ایسا اقدام ایک بار پھر اٹھائیں گے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ وہ ایک گروپ بنا کر اسے انصاف گروپ یا کوئی اور نام دے دیں۔

اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کا قومی اسمبلی میں سب سے بڑا بلاک ہو تو ایسے میں کیا پارٹی انہیں اپنے ممبران کہہ سکتی ہے؟

سینیئر صحافی ضرار کھوڑو ایسے امکانات کے حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں۔ انہوں نے حالیہ چند ماہ میں پی ٹی آئی اور اس کی سینیئر قیادت کو درپیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’اس سوال کے پیچھے بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ سب قواعد اور قانون کی کتاب کے مطابق چلے لیکن میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

’ہمیں اسے عمران خان کو یکے بعد دیگرے دی جانے والی سزاؤں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا جس میں سب سے مضحکہ خیز غیرشرعی نکاح کا مقدمہ تھا۔ ہم نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور حامیوں کو دی گئی ناقابلِ یقین حد تک متنازع اور غیر متناسب سزاؤں کو بھی دیکھنا ہوگا جیسے کہ پارٹی کا انتخابی نشان تک چھین لیا گیا تھا۔ جب ہم ان مخصوص سیاق و سباق پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات سے قطع نظر کہ وہ کن اصولوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے، مجھے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ پی ٹی آئی کو اچانک کوئی جادوئی ریلیف مل جائے گا‘۔

وکیل عبدالمعیز جعفری اس حوالے سے قدرے پُرجوش تھے جس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیا کہ اگرچہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے ان کا انتخابی نشان چھین لیا ہے لیکن جماعت کو ڈی لسٹ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بات پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سلمان اکرم راجا کی درخواست پر اپنے جائزے کی بنیاد پر کہی۔ سلمان اکرم راجا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کے طور پر الیکشن لڑیں گے۔ عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ قانونی طور پر پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت کے طور پر اب بھی موجود ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں سلمان اکرم راجا نے جواز پیش کیا کہ اگرچہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا ہے لیکن ایک جماعت کے طور پر ان کی حیثیت اور فعالیت متاثر نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی ختم نہیں ہوئی ہے۔

کیا آزاد امیدواروں کو شامل کرکے مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے کا امکان موجود ہے؟

ضرار کھوڑو کے مطابق، ’بہت سے لوگ ان کے ساتھ اتحاد کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ اب اس بارے میں، میں ایک واضح بات تو نہیں کرسکتا کہ تمام آزاد امیدوار ایسا کریں گے اور میں یہاں فرض کرتا ہوں کہ ہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بارے میں ہی بات کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم مختلف علاقوں میں صورتحال مختلف ہوگی۔ ’خیبرپختونخوا میں میرے خیال میں وہ آزاد امیدوار جو پی ٹی آئی کو چھوڑیں گے، عوام کی طرف سے انہیں بہت سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم نے دیکھا کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے کلین سویپ کیا ہے۔

’جنوبی پنجاب میں تاہم صورتحال مختلف ہوسکتی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) چند آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملا سکتی ہے۔ بعض اس حساب کی بنیاد پر جماعت میں شامل ہونے کا انتخاب کرسکتے ہیں کہ انہیں کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ شاید ردِعمل عارضی ہو اور اگر عارضی نہ بھی ہو تو کم از کم وہ ان کے لیے قابلِ برداشت ہوگا‘۔

کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اپنا وزیراعظم لا سکتے ہیں؟

نامور صحافی شاہ زیب جیلانی کے مطابق جب امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے تو ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے صرف 3 دن کا وقت ہوتا ہے کہ کیا وہ آزاد حیثیت سے کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا چاہتے ہیں یا ایک گروپ کی صورت میں سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

شاہ زیب جیلانی کے نزدیک اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار قومی اسمبلی میں ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے سے رجسٹرڈ کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔ ’اس حوالے سے جس جماعت کا نام سامنے آرہا ہے وہ مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) ہے جوکہ پہلے سے ہی ایک رجسٹرڈ جماعت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم پہلے بھی بلدیاتی انتخابات میں اتحاد کرچکی ہیں۔ اگر آزاد امیدوار جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں تو انہیں مخصوص نشستیں بھی ملیں گی جس سے ان کی نشستوں میں اضافہ ہوگا جبکہ اس کے بعد وہ قائدِ ایوان کے انتخاب میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

شاہ زیب جیلانی نے مزید کہا کہ انہیں پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کے لیے متعدد پیش کش کی جاسکتی ہیں، ’لیکن اگر وہ ایک گروپ میں، ایک پارٹی میں رہتے ہیں تو وہ ایک بڑا بلاک ہوں گے اور پارلیمنٹ میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہوگا‘۔

کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں میں سے قائد حزب اختلاف کا انتخاب ہوسکتا ہے؟

اس حوالے سے بھی شاہ زیب جیلانی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔ ’اگر وہ ایک بلاک کی شکل میں پہلے سے موجود جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو ظاہر ہے اکثریتی نشستیں ملنے پر وہ قائد ایوان کا بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پائے تو ہاں ان کے لیے دوسرا بہترین انتخاب ایوان میں اپنا قائد حزب اختلاف لانا ہوگا‘۔


اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیے۔