Dawnnews Television Logo

کیا مریم ’نواز کی بیٹی‘ سے ’قوم کی بیٹی‘ بن سکتی ہیں؟

مریم نواز نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے اس میں سے زیادہ تر ان کے والد کے حق کی لڑائی ہے، لیکن پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہی وہ اب صرف اپنے باپ کی بیٹی نہیں رہ سکتیں۔
شائع 27 فروری 2024 05:15pm

’میں ثابت کروں گی کہ میں اپنے والد کی طاقت ہوں، ان کی کمزوری نہیں‘، یہ بیان جولائی 2017ء میں مریم نواز نے اس وقت دیا تھا جب وہ شریف خاندان کے غیرملکی کاروباری معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کروا کر وفاقی جوڈیشل اکیڈمی (ایف جے اے) سے باہر آئی تھیں۔

اس موقع پر وہ پُرسکون نظر آئیں جبکہ ان کے الفاظ سے زیادہ طاقت ان کی گہری بولتی نظروں میں تھی۔ گزشتہ کئی ماہ سے مریم نواز اور ان کا خاندان کرپشن کے الزامات کی لپیٹ میں تھے جس کے نتیجے میں انہیں مختصر عرصہ جیل میں بھی گزارنا پڑا جبکہ ان کے والد اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف ایک اور خودساختہ جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ لیکن اس تمام معاملے کو اپنے اختتام پر تو پہنچنا تھا۔

اس دن جب وفاقی دارالحکومت میں مریم نواز کی مختصر تقریر ختم ہوئی تو وہ پاکستان کے بدلتے سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئیں اور پوری دنیا اس منظر کی شاہد بنی۔

سیاسی عروج کا سفر

ملک کے سیاسی میدان میں شاید یہ مریم نواز کا پہلا قدم تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران انہوں نے پارٹی کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ انتخابات کے دوران اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا ونگ کی سربراہی بھی کی۔ 2014 میں مریم نواز کو وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن بنادیا گیا لیکن ایک سال بعد ان کی تقرری کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا جس کی وجہ سے وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئیں۔ بعدازاں انہیں پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا حالانکہ اس وقت وہ صوبے یا مرکز میں کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں تھیں۔

  مریم نواز نے اپنے جلسوں میں ان لوگوں کے خلاف آواز اٹھائی جنہوں نے ان کے والد کے ساتھ غلط کیا—تصویر: ایکس
مریم نواز نے اپنے جلسوں میں ان لوگوں کے خلاف آواز اٹھائی جنہوں نے ان کے والد کے ساتھ غلط کیا—تصویر: ایکس

2016ء میں جب وزیراعظم نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تب وزیراعظم ہاؤس یا وزارتِ اطلاعات کوئی بھی اس وقت کی سب سے بڑی خبر اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایسے میں مریم نواز سامنے آئیں اور میڈیا کی نظروں کا مرکز بن گئیں۔ وہ اپنے ٹوئٹر (ایکس) اکاؤنٹ کے ذریعے عوام تک والد کی صحت کے حوالے سے باقاعدگی سے اپ ڈیٹس فراہم کرتی رہیں۔ سرجری کے فیصلے سے لےکر سرجری کے بعد وزیراعظم کی پہلی تصویر ٹوئٹ کرنے تک، مریم نواز کی ٹوئٹر فیڈ نے اس حوالے سے ہر منٹ کی تفصیلات فراہم کیں کہ وزیراعظم انتہائی نگہداشت یونٹ میں کتنا وقت گزاریں گے اور ساتھ ہی ان کی گھر واپسی کے منصوبوں سے بھی آگاہ کیا۔

اس وقت بھی حکومتی پیغام رسانی پر مریم نواز کے کنٹرول پر کچھ آوازیں اٹھیں لیکن یہ معاملہ بہت بعد میں اس وقت سامنے آیا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیراطلاعات پرویز رشید کے ساتھ ان کی فون پر ہونے والی بات چیت کی آڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ بعض ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہیں دینے کی ہدایات جاری کر رہی تھیں۔ مریم نواز نے بعد میں اعتراف کیا کہ آڈیو کلپ درست تھا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اپنا دفاع کیا کہ وہ پارٹی اشتہارات کا حوالہ دے رہی تھیں۔

سیاسی میدان میں سرگرم

تمام حوالوں سے مریم نواز کا پہلا حقیقی انتخابی سیاست کا امتحان ستمبر 2017ء میں ہوا جب انہوں نے این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے لیے انتخابی مہم چلائی۔ پناما کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد یہ نشست خالی ہوئی تھی۔ مریم نواز نے اپنی بیمار والدہ کلثوم نواز کے لیے انتخابی مہم چلائی جو یہ نشست جیتنے میں کامیاب بھی ہوئیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے جیت کے مارجن میں کافی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ سیاسی پنڈتوں نے اس بات پر بحث کی کہ کیا یہ دراصل مسلم لیگ (ن) کی جیت تھی لیکن یہ وہ حلقہ تھا جس پر مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان تقریباً تین دہائیوں سے واضح اثرورسوخ رکھتے تھے۔ صحافی زاہد حسین نے اس حوالے سے لکھا، ’یہ ناقابل فہم تھا کہ یہاں انہیں شکست دی جاسکتی تھی‘۔

تاہم مریم نواز کے لیے وہی لمحہ تھا جب انہوں نے اپنی چال چلی اور خود کو نواز شریف کے سیاسی ایمپائر کا وارث قرار دیا۔ زاہد حسین نے لکھا کہ ’قدامت پسند سماجی اقدار والی ایک ایسی جماعت کہ جس میں پارٹی اور کابینہ کے سینیئر عہدوں پر بہت کم خواتین فائز ہیں، ان کا چارج سنبھالنا ایک مثبت تبدیلی ہے۔ لیکن پارٹی کے سربراہ کی صاحبزادی ہونے سے یقینی طور پر خاندانی سیاست کے کلچر میں ایک بہت بڑا فرق پڑتا ہے‘۔

یہ سفر اُس سے کئی گنا زیادہ مشکل تھا جس کا انہوں نے تصور کیا تھا اور مریم نواز بھی اس کا اعتراف کریں گی۔ وائس آف امریکا کی ارم عباسی کو انٹرویو دیتے ہوئے مریم نواز نے بتایا کہ کس طرح وہ خواتین جو لائم لائٹ یا عوام کی نظروں میں تھیں، بالخصوص اہم کردار نبھانے والی خواتین کو اپنے مرد ہم منصب کے مقابلے میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر کسی عورت نے اپنے آئیڈیل، اصول، نظریہ، عقیدہ، اقدار بنائے ہیں اور وہ اپنے لیے ایک مقام بنانا چاہتی ہے تو اسے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کی صفوں سے آنے والی مزاحمت کے باوجود، پاکستانی عوام انہیں جس طرح قبول کررہے ہیں اس پر انہیں ’خوشگوار حیرت‘ ہوئی۔

چاہے ’لوگوں‘ نے انہیں قبول کیا یا نہیں لیکن ایک بات جو سب پر واضح تھی وہ یہ تھی کہ ان کا عروج ایک بہت بڑی قیمت پر آیا تھا۔ ذاتی اور جماعتی دونوں سطح پر بہت سے لوگ اس بات پر ناخوش تھے کہ مریم نواز کتنی تیزی سے جماعت میں آگے بڑھ رہی تھیں بالخصوص ایک ایسی جماعت میں کہ جس میں کافی حد تک مردوں کو غلبہ حاصل تھا جبکہ کم ہی خواتین پارٹی کی قیادت کا حصہ تھیں۔

تنقید کا سامنا کرنا پڑا

جیسے جیسے وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی گئیں ویسے انہیں اپنی عمر اور کپڑوں کے حوالے سے غیرمناسب تبصروں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سب سے زیادہ ردعمل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے سامنے آیا جنہوں نے ان کے مہنگے لگژری کپڑوں اور دیگر پہناووں پر تبصرے کیے جبکہ اس پر بھی بات کی کہ وہ اپنی عمر کے مطابق نظر نہیں آتیں۔ حتیٰ کہ اپنے بیٹے جنید صفدر کی شادی پر ان کی تیاری کو بھی سوشل میڈیا صارفین نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ کچھ نے تو یہ تک کہا کہ انہوں نے اپنے عمر کے حساب سے زیادہ تیار ہوکر اپنی بہو کے دن کو ’برباد کیا‘۔

  مریم نواز کو اپنے پہناوے کی وجہ سے خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا
مریم نواز کو اپنے پہناوے کی وجہ سے خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا

لیکن صرف ان کے سیاسی مخالفین ہی ان کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے۔ نواز شریف کی اقتدار سے برطرفی کے بعد مریم نواز اپنی جماعت کا وہ چہرہ بن گئیں جوکہ اسٹیبلشمنٹ مخالف تھا اور انہوں نے اپنے والد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا حساب رکھا۔ حتیٰ کہ اس سے قبل بھی شبہ ظاہر کیا گیا کہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے اعلیٰ فوجی افسران کے ساتھ حکومتی تصادم کے بارے میں اسٹوری بھی انہوں نے ہی لیک کی تھی۔ اس دشمنی کو جماعت کی کچھ سینیئر قیادت نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان میں سے ایک سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تھے جنہوں نے کہا کہ مریم نواز کو ’خود کو ثابت کرنے‘ کی ضرورت ہے۔ یوں بلآخر شہباز شریف گروپ اور مریم نواز گروپ کے درمیان اختلافات سب کے سامنے آگئے۔

حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی کے مخالف نہیں تھے، وہ بھی اس حوالے سے زیادہ خوش نہیں تھے کہ جس طرح ان کے والد نے مریم نواز کو پارٹی کی باگ ڈور سونپی تھی۔ اس طرح رسہ کشی کا آغاز ہوا لیکن جہاں تک خاندانی سیاست کا معاملہ ہے، یہاں اہلیت یا میرٹ پر خون غالب ہوتا ہے۔

جلد ہی پارٹی میں دراڑیں پڑتی نظر آئیں جن میں سب سے نمایاں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تھے، جنہوں نے کہا وہ مریم نواز کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے عہدے پر ترقی کے اعلان کے ’ایک گھنٹے کے اندر اندر پارٹی عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے‘۔ اس کے بعد دوسرا بڑا نام مفتاح اسمٰعیل تھے جنہیں ٹوئٹر پر مریم نواز کی جانب سے ہدایات ملتی تھیں اور وہ پہلے بھی دونوں دھڑوں کے درمیان لڑائی کا شکار ہوچکے تھے۔ انہیں برطرف کرکے اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ کا عہدہ سونپ دیا گیا۔

شاید اس سب میں سب سے بڑا نقصان مریم نواز کے کزن حمزہ شہباز کا ہوا جو اب تک شریف برادران کے جان نشین سمجھے جارہے تھے۔ اچانک مسلم لیگ (ن) کو دلکش نظر آنے والی مریم نواز کی صورت میں ایک اور آپشن مل گیا جو اپنے دشمن پی ٹی آئی کا مقابلہ کرے۔ ایسا کرنے سے مسلم لیگ (ن) کو امید تھی کہ نیا چہرہ ان کی شبیہہ کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا جسے عمران خان کی مسلسل سیاسی چالوں نے نقصان پہنچایا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ جلد ہی لندن کے بدنامِ زمانہ فلیٹس سمیت متعدد آف شور اثاثوں کی مبینہ ملکیت کے معاملے نے مریم نواز کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔

اب آگے کیا ہوگا؟

اندرونی چپقلش اور تنقید کے باوجود مریم نواز نے پارٹی کی نائب صدر (جو اب ان کا عہدہ ہے) کے طور پر کم جبکہ اپنے والد کی روایتی سیاست کا دفاع زیادہ کیا۔ ایسا کرنے سے وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بن گئیں جوکہ ریلیوں میں اپنے کارکنان کے سامنے ان ججوں اور جرنیلوں کا نام لیتی رہیں جنہوں نے ان کے والد کے ساتھ غلط کیا۔

  مریم نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف چہرہ بن کر سامنے آئیں—تصویر: فائل فوٹو
مریم نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف چہرہ بن کر سامنے آئیں—تصویر: فائل فوٹو

مریم نواز نے برسوں لگا کر احتیاط سے اپنی سیاسی شخصیت کو بنایا ہے جبکہ انہوں نے مریم اورنگزیب جیسے شعلہ بیان رہنماؤں کو اپنے ساتھ رکھا ہے جو جلد ہی جماعت کے اہم عہدوں پر فائز ہوں گے۔

مریم نواز نے اب تک جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اس میں سے زیادہ تر ان کے والد کے حق کی لڑائی ہے لیکن پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہی وہ اب صرف اپنے باپ کی بیٹی نہیں رہ سکتیں۔ بلکہ وہ سب سے زیادہ آبادی والے اور دیگر حوالوں سے ملک کے سب سے طاقتور صوبے کے انتظامی امور کی ذمہ دار ہیں۔

گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا ’میں اپوزیشن کو بتانا چاہتی ہوں (جو اس وقت موجود نہیں تھی) کہ اگر آپ کو اپنے حلقے میں کسی مسئلے کا سامنا ہے تو میں آپ کو بھی اسی طرح دستیاب ہوں گی جیسے مسلم لیگ (ن) کے رکنِ صوبائی اسمبلی کے لیے ہوں گی۔ کیونکہ میں اب مسلم لیگ (ن) کی وزیراعلیٰ نہیں بلکہ 12 کروڑ عوام کی نمائندہ ہوں‘۔

خاندانی استحقاق کی علامت کے طور پر دیکھے جانے سے لے کر اپنے طور پر ایک لیڈر بننے تک کا مریم نواز کا سفر ایک ایسی سچائی کی بازگشت ہے جو سیاست سے بالاتر ہے اور وہ یہ ہے کہ حقیقی طاقت صرف میراث حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنی سیاسی شناخت بنانا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔