لکھاری، دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری، دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

بھارتی اسٹینڈ اپ کامیڈین کُنال کامرا نے بھارتی سیاست کی بگڑتی صورتحال بالخصوص گزشتہ ایک دہائی میں آنے والی تبدیلی کے حوالے سے انتہائی قابلِ ذکر نقطہ اٹھایا۔ یہی بیان کُنال نے کچھ سال پہلے دیا تھا جو لوگوں کے نزدیک ان لطیفوں میں سے ایک تھا جو وہ سناتے رہتے تھے۔ ’ہم مکیش امبانی کو وزیراعظم منتخب کیوں نہیں کرلیتے؟‘ یہ وہ انوکھا سوال تھا جو انہوں نے اپنے حاضرین کے سامنے رکھا۔

دوسرے الفاظ میں ووٹرز کو ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کے لیے اپنا ووٹ ضائع کیوں کرنا چاہیے جنہیں مکیش امبانی یا کوئی اور ٹائیکون پارلیمنٹ میں منتخب ہونے کے لیے فنڈنگ کرتا ہو جبکہ اس کے مقابلے میں مڈل مین (سیاستدان) کو ہٹا کر براہ راست ان ٹائیکونز کو منتخب کرنے سے خرچہ کم ہوگا۔ ایسے انتخابات میں سیاستدانوں کی فنڈنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی کو خوش کرنے کے لیے رقم دینے کی ضرورت ہوگی۔ ’کس کی ہمت ہوگی کہ مکیش امبانی کے پاس کرنسی نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس لے جائے؟ یہ ایک غیر ضروری کوشش ہوگی‘، اس تبصرے پر بے ساختہ سب نے قہقہہ لگایا اور سب کے ذہنوں میں اسٹاک بروکر ہرشد مہتا کی تصویر آئی جنہوں نے مبینہ طور پر سابق وزیراعظم نرسمہا راؤ کو پیسوں سے بھرا بیگ پیش کیا تھا۔

کُنال کی منفرد سوچ اس وقت ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہوگئی جب گزشتہ ہفتے مکیش امبانی اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنی ہونے والی بہو کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ حاضرین نے اننت امبانی کی جذباتی تقریر کو دلچسپی سے سنا جبکہ اس موقع پر مکیش امبانی کو اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اشرافیہ کی اس دعوت میں نامور امریکی تاجر اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی جن میں ایوانکا ٹرمپ نمایاں ہیں۔ ہلیری کلنٹن کی شرکت کی بھی اطلاعات تھیں کیونکہ وہ امبانی خاندان کی گزشتہ شادیوں میں شرکت کرچکی ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی ’نازک مزاج‘ بیٹی کے ساتھ ایک ہی فریم میں نظر آنا ان کے ساتھ شاید زیادتی ہوگی۔

اس کے علاوہ ہلیری کلنٹن جنہوں نے 2020ء میں برنی سینڈرز کو صدارتی دوڑ سے ہٹا کر جو بائیڈن کو صدر بنانے میں مدد کی تھی، نومبر میں ہونے والے انتخابات سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ یہاں کہنے کا مقصد یہ حقیقت ہے کہ جو بھی امریکی صدر بنے گا، مکیش امبانی فائدے میں رہیں گے۔ اننت امبانی کی شادی سے پہلے کی تقریبات میں گوتم اڈانی کی موجودگی کی اطلاعات نے کاروباری دنیا میں طاقت کے کھیل کی بھرپور منظر کشی کی۔

2013ء میں گوتم اڈانی سمیت دیگر تاجروں کے ایک گروپ نے نریندر مودی کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا، ان کی پشت پناہی کی اور فنڈنگ بھی کی تھی۔ دوسرے الفاظ میں وہ کانگریس کی زیرِقیادت اتحاد کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے حوالے سے ہوشیار تھے بالخصوص ایسا اتحاد جس کی قیادت گاندھی خاندان کے کسی فرد کے کرنے کا امکان موجود ہو۔

کیا یہ ان کاروباروں کے وارثین ہیں جنہیں مہاتما گاندھی نے ’نئے ہندوستان کے امین‘ کے طور پر دیکھا تھا؟ گاندھی نے بہت سے گُجراتی ٹائیکونز کو اپنے قریب رکھا تھا۔ بدلے میں انہوں نے گاندھی کی قیادت میں کانگریس اور بھارت کی آزادی میں ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ گاندھی کے قریبی کاروباری حضرات نے جواہرلال نہرو کی سربراہی میں قائم ہونے والے نگران سیٹ اپ میں عبوری وزیرخزانہ کے طور پر لیاقت علی خان کی کارکردگی کو اتنا سوشلست سمجھا کہ انہیں ایسا مستقبل قبول نہیں تھا جس میں تقسیمِ ہند نہ ہو۔

اس کے علاوہ جواہرلال نہرو شکوک پیدا کیے بغیر مختلف انداز میں ان کاروباری ٹائیکونز سے رابطہ کرتے تھے۔ نہرو کے دورِ حکومت میں میڈیا نے آزادانہ طور پر بھارت کے کارپوریٹ کلسٹر کے بڑے ناموں کے حوالے سے انکشافات کیے اور انہیں نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر ایک بنگالی صحافی دیبا جیوتی برمن نے جی ڈی برلا پر تحقیق کرکے ایک کتاب شائع کی۔ ’مسٹری آف برلا ہاؤس‘ نامی اس کتاب میں مہاتما گاندھی کے قریبی دوست جی ڈی برلا کی جانب سے بڑے پیمانے پر مارکیٹ قیمت سے کم اور زیادہ قیمت پر لین دین کے ذریعے ٹیکس چوری کی تفصیلات درج ہیں۔

اس طرح کے انکشافات کرنے والی کتابیں شاذ و نادر ہی بھارت کے قارئین کے سامنے آتی ہیں۔ ایک مغربی صحافی کی دھیرو بھائی امبانی کی تحقیق شدہ سوانح عمری پراسرار طور پر بھارت میں فروخت سے روک دی گئی تھی جبکہ اس میں درج مشکوک تفصیلات شیئر کرنے کے لیے کتاب کی فوٹو کاپی کا استعمال کیا گیا تھا۔

اسی طرح یہ کہانی بھی سننے میں آئی کہ جی ڈی برلا نے اس کتاب کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی تمام کتابیں خرید لی تھیں۔ آخر کار انہوں نے دیبا جیوتی برمن کی اس کتاب کے کاپی رائٹ خرید لیے۔ اس کتاب کو اب تک فراموش کردیا گیا ہوتا لیکن اس کی ایک کاپی دہلی کی نہرو میموریل لائبریری تک پہنچ گئی تھی۔ دیبا جیوتی برمن نے پریس بنایا جہاں انہوں نے دائیں بازو کے نظریات پر زور دیا۔ نہرو کے گجراتی داماد نے بھی خفیہ کاروبار میں بحیثیت کانگریس ممبر پارلیمنٹ اپنے کردار کے حوالے سے انکشافات کیے۔

اندرا گاندھی ایک قدم آگے بڑھ گئیں اور نجی بینکس کو نیشنالائز کردیا اور راجیو گاندھی نے ٹائیکونز کو متنبہ کیا کہ وہ کانگریس کے رہنماؤں کی پشت پناہی سے باز رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز جو کانگریس مخالف ٹائیکونز کی ملکیت ہیں وہ راہول گاندھی کو طعنہ دینے یا انہیں گالیاں دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

گزشتہ اتوار پٹنہ میں اپوزیشن کی بڑی ریلی کو دہلی میں حکمران اسٹیبلشمنٹ کو ہوشیار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جو اس نے کیا بھی، حالانکہ متوقع طور پر ٹی وی چینلز نے اس بڑے اجتماع کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ راہول گاندھی کی بطور مرکزی اسپیکر موجودگی پر زیادہ تشویش محسوس کی گئی ہوگی۔ راہول گاندھی ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نے ایوان سے نکالے گئے اپوزیشن رہنما مہوا موئترا کے ہمراہ وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی کاروباری ٹائیکونز کا نام لیا تھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر لوک سبھا میں راہول گاندھی نے نریندر مودی کی بزنس ٹائیکون گوتم اڈانی کے پرائیویٹ جیٹ میں سفر کرنے کی تصویر بھی چلائی تھی۔ یقیناً کاروباروں کو حاصل ہونے والے مبینہ فوائد، نریندر مودی کے اس یا کسی اور موقع پر ٹائیکون کے جیٹ میں سفر کرنے سے بڑا معاملہ ہے۔

تاہم کُنال کامرا کے خیالات کو قریب سے دیکھنے سے اَن کہی سچائی سامنے آتی ہے۔ ایک طرح سے مودی حکومت ایک بڑے مشتہر کاروباری ادارے سے مماثلت رکھتی ہے۔ کوئی پریس کانفرنسز نہیں ہوتیں اور بورڈ میٹنگ کی طرح، کابینہ کے کسی بھی اجلاس سے کچھ اشارے نہیں ملتے کہ اجلاس میں کیا بات ہوئی۔

ایک شرط پر پارلیمنٹ میں ٹائیکونز کے انتخاب پر غور کرتے ہیں کہ وہ سالانہ کم از کم دو پریس کانفرنسز ضرور کریں گے۔ شہری نہ صرف حکمرانی کے اقتصادی فریم ورک پر ان کے خیالات جاننا چاہتے ہیں جس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ پیشہ ورانہ انداز میں معاشی معاملات لے کر چلیں گے۔ لیکن بھارت کی سیاسی حقیقت کی پیچیدہ نوعیت کے پیشِ نظر، بھارت کی اکثریتی ریاست میں مستقل تبدیلی کے حوالے سے کاروباری اداروں کے خیالات سے واقف ہونا بھی اچھا رہے گا۔

اڈانی، امبانی اور دیگر فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی تشدد کے معمول کے واقعات کو کیسے دیکھتے ہیں جیسے کیا وہ قوم پرستی کی سیاست کو مزید ہوا دیں گے؟ صرف اس بنیادی تشویش کو تسلیم کرنا خواہ یہ کسی مذموم منافع کے مقصد سے ہی کیوں نہ ہو، کُنال کامرا کی فینٹیسی ایک ’نئے بھارت‘ کے تصور کے مقابلے میں کم بناوٹی لگے گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں