ملا برادر - افغانستان میں امن کی کنجی؟
ایک زمانے میں خطرناک جنگجو اور طالبان رہنما ملا محمد عمر کے دوست سمجھے جانے والے عبدالغنی برادر موجودہ صورتحال میں افغانستان میں امن و امان کی کنجی مانے جا رہے ہیں۔ طالبان کے سابقہ نمبر دو، جنہیں 2010 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا، کے بارے میں پاکستان اور افغانستان میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ساتھیوں کو ہتھیار ڈال کر امن مذاکرات میں شامل ہونے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان نے رواں ہفتے اعلان کیا تھا کہ ملا برادر کو اسی ماہ رہا کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے تیاری کرنے کے لیے کسی دوسرے ملک، جن میں سعودی عرب یا ترکی کا نام لیا جا رہا ہے، بھیجا جا سکتا ہے۔
افغان حکام کے مطابق، برادر کو پرمغز اور معتدل مزاج تصور کیا جاتا تھا جنہوں نے ایک موقع پر امن کی بحالی کے کابل سے رابطہ بھی کیا تھا۔
تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں ان کی حراست کے دوران بڑھتی ہوئی شورش پر ان کے اثرات میں کمی آئی ہے جبکہ اس حوالے سے بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ملا عمر اپنے سابقہ نائب کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہوں گے بھی یا نہیں۔
سابق نائب صدر، احمد ضیاء مسعود کے کا کہنا ہے "وہ ثالثی کا کردار نہیں ادا کر پائیں گے کیونکہ جیل میں گزارے گئے وقت کے دوران ان کے اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔ جب تک، ملا عمر کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے ایک جامع منصوبہ موجود نہ ہو، اکیلا شخص کچھ نہیں کر سکتا"۔
برادر کو افغانستان میں ایک سمجھدار اور منکسر المزاج مذاکرات کار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو کابل حکومت اور طالبان قیادت کونسل، کوئٹہ شوریٰ کے درمیان مصالحت کروانے کو تیار ہے۔
طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ایک، برادر نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اور ان کا تعلق بھی افغان صدر حمد کرزئی کی طرح طاقتور پوپلزئی قبیلے سے ہے۔
یہ وہ عنصر ہے جس سے خود کرزئی کی امن کاوشوں کو افغانستان کی سب سے بڑے نسلی گروہ، پشتونوں کی حمایت مل سکتی ہے۔
چالیس سال سے زائد عمر والے برادر مجاہدین جنگجوؤں کی اس پرانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو نوجوان نسل کے مقابلے میں اپنے نظریات میں اعتدال رکھتے ہیں۔
برادر کی ملا عمر سے دوستی خاصی پرانی ہے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں روس کے خلاف شانہ بشانہ جنگ لڑی تھی۔ ایک دہائی سے زیادہ جاری رہنے والی جنگ کے دوران، اطلاعات کے مطابق، ملا عمر نے اپنی ایک آنکھ کھو دی تھی۔
یہ ملا عمر ہی تھے جنہوں نے ان کو برادر کا مشہور زمانہ نام دیا جو بھائی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
تجزیہ کروں کا کہنا ہے کہ دونوں نے بعد میں جڑواں بہنوں کے ساتھ شادیاں کر لی تھیں۔
افغانستان کے چند سیاست دانوں کے مطابق آج بھی ملا برادر کا ان کے سابقہ ساتھیوں میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سینئر ممبر، شاہزادہ شاہد کا کہنا ہے "وہ آج بھی جنوب میں آباد پشتونوں کے لیے ایک اہم شخصیت ہیں جو کہ امن کے حوالے ہماری کوششوں میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ کئی طالبان کمانڈروں نے ان کی سربراہی میں لڑائی لڑی ہے اور اس لیے امید ہے کہ وہ کئی جنگجوؤں کو لڑائی روکنے پر آمادہ کر سکتے ہیں"۔
دوست یا دشمن؟ افغانستان پر 2001 میں امریکا کی زیر قیادت افواج کے قبضے کے بعد، برادر ایک ایسے کمانڈر کے روپ میں ابھرے جو روزمرہ ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کے دفاع اور مختلف دیگر حملوں کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار سمجھا جاتے تھے۔
بعد میں انہوں نے خفیہ طور پر کرزئی کے مرحوم بھائی سے بھی دو ملاقاتیں کیں تاکہ امن کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔
انہیں بلآخر، سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ اہلکاروں نے ایک مشترکہ آپریشن کے دوران گرفتار کیا تھا۔
افغان حکام کا اس وقت خیال تھا کہ پاکستان نے ملا برادر کو اس لیے حراست میں لیا ہے کہ وہ اسلام آباد کو شامل کیے بغیر کوئی خفیہ امن معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔
پاکستانی حکام انہیں ایک حفاظتی مرکز سے دوسرے حفاظتی مرکز منتقل کرتے رہے ہیں اور اس بارے میں بھی خدشات ہیں کہ اتنے عرصے کی غیر حاضری اور پاکستانی حراست کے بعد، آیا ملا عمر ان سے بات چیت کرنے کو تیار ہوں گے بھی یا نہیں؟
پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر، رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے"طالبان کی پالیسی بہت واضح ہے، جو بھی گرفتار ہو جائے اسے فوری طور پر تحریک سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان نے حراست میں لے کر انہیں بالکل غیر فعال کر دیا اور ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔"
اس کے باوجود اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ برادر کی شمولیت سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی جو کہ امریکہ کی پشت پناہی میں قطر میں کھلنے والے طالبان دفتر کی جون میں بندش کے بعد تعطل کا شکار ہو گئی تھیں۔
اسلام آباد میں ایک سفارتکار کا کہنا تھا "ملا برادر کی رہائی کا مطلب ہے کہ سنجیدہ بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے اور مجھے توقع ہے کہ بات چیت کے آغاز اور ایجنڈے کے حوالے سے کسی مفاہمت پر پہنچا جا چکا ہے"۔
پاکستان اور افغانستان میں ذرائع کا کہنا ہے کہ برادر کو اپنے مشن کی تیاری کے لیے سعودی عرب یا ترکی بھیجا جا سکتا ہے جہاں طالبان کے نئے دفتر کے قیام کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ ایک اہلکار کا کہنا تھا "ہم ابھی بھی اس حوالے سے جزئیات طے کر رہے ہیں تاہم اس بات پر سب آمادہ ہیں کہ سب سے بہتر یہی ہو گا کہ برادر کو کسی غیر جانبدار تیسرے ملک بھیج دیا جائے۔ اس حوالے سے ترکی، سعودی عرب یا دوحہ ممکنہ ممالک ہو سکتے ہیں تاہم سعودی عرب کا امکان زیادہ ہے کیونکہ اب طالبان وہاں اپنا سیاسی دفتر قائم کرنا چاہتے ہیں"۔












لائیو ٹی وی