• KHI: Fajr 5:45am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:25am Sunrise 6:52am
  • ISB: Fajr 5:33am Sunrise 7:02am
  • KHI: Fajr 5:45am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:25am Sunrise 6:52am
  • ISB: Fajr 5:33am Sunrise 7:02am

متنازع آئینی ترامیم: ’عدلیہ کا خوف حکومت کی سوچ اور الفاظ سے واضح ہے‘

شائع October 14, 2024

اگر کسی کو گمان ہے کہ قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے نوٹیفکیشن جاری ہوجانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت عدلیہ کو قابو میں کرنے کے لیے آئینی ترمیم لانے کے اپنے منصوبے سے پیچھے ہٹ جائے گی تو وہ غلط ہیں۔

اب میری طرح آپ کے ذہن میں بھی سوال آئے گا کہ ’ایسا کیوں؟‘ اس کا جواب بہت سادہ سا ہے۔ پاکستان میں چیزیں اتنی سادہ اور آسان نہیں ہوتیں جیسی کہ لگتی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت اور ان کے طاقتور سرپرستوں نے اب بھی اپنا ارادہ ترک نہیں کیا ہے حالانکہ گزشتہ ماہ حکومت کو دو تہائی اکثریت نہ ملنے پر تضحیک سامنا کرنا پڑا تھا۔

حکومت کے لیے آئینی ترمیم منظور کروانے کی ’ڈو اور ڈائی‘ ڈیڈلائن 25 اکتوبر تک ہے کہ جو قاضی عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس آخری دن ہوگا۔

اگلے دن 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھانا ہے۔ آئینی ترمیم کو منظور کروانے کی تمام تر جلد بازی اسی لیے ہے کہ جب عزت مآب منصور علی شاہ جنہیں اپنے نام کے ابتدائی انگریزی حرف کی وجہ سے ’اسمیش‘ (کچلنا) بھی کہا جاتا ہے، چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھیں تو موجودہ ہائبرڈ نظام کو کچلنے کے لیے ان کے پاس کوئی طاقت یا اختیارات نہ ہوں۔

جیسا کہ واضح ہے کہ حکومت کا یہ اقدام مفروضوں پر مبنی ہے جبکہ میرے خیال میں حکومت یہ خوف ضرورت سے زیادہ محسوس کررہی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ جو ایک باعزت جج ہیں جو اپنے عوامل سے واضح کرچکے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مقدمات کے فیصلے کرسکتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اندازہ کہ جسٹس منصور علی شاہ جوکہ حکومت مخالف سمجھے جاتے ہیں وہ دیگر ججز کو ’قابو‘ کرنے میں جدوجہد کریں گے، اس کے برعکس میری جن وکلا سے گفتگو ہوئی انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ کے ٹریک ریکارڈ کا حوالہ دیا۔

وہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ ایسے شخص نہیں جو کسی کے کہنے میں آکر آئین کے متصادم فیصلہ کریں یا قانون کے راستے سے ہٹ جائیں۔ ان کے مطابق اس کے برعکس ان کے حوالے سے جو بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں وہ سچائی سے بہت دور ہیں۔

عجیب یہ ہے کہ سیاسی تقسیم کے درمیان کچھ ٹی وی یا یوٹیوب شخصیات (جن کی جانبداری کو دیکھتے ہوئے میں انہیں صحافی کہنے سے ہچکچاتا ہوں) نے بھی اپنے میڈیا رپورٹس یا تبصروں میں نئے چیف جسٹس کے تشخص کو اسی طرح پیش کیا ہے۔

کچھ تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ فروری کے انتخابات کو یکسر کالعدم قرار دے دیا جائے گا جبکہ کچھ نے خبردار کیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تیز ترین کارروائیوں کے تناظر میں متعدد چیلنجز اور معاملات میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ آپ کے نقطہ نظر پر منحصر ہے کیونکہ یہ منفی یا مثبت دونوں طرح کی صورت حال ہے لیکن اس کے لیے ایک بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایگزیکٹو کو کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ میرا تو یہ تجربہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے دیے جانے والے کسی بھی حکومت مخالف فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہوتا کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسے توثیق نہ ملے۔

اگر کسی غیرمعمولی صورت حال میں ایسے کسی فیصلے کی توثیق ہوجاتی ہے تب یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔

واضح طور پر آئینی ترمیم جیسے اس طرح کے کسی بھی اقدام سے موجودہ حکمرانوں کی قانونی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی جبکہ یہ ملک کو ایک اور بحران میں دھکیل دے گا۔ لیکن یہ ریئل پولیٹک (جس میں نظریات کی سیاست پر عملی سیاست کو ترجیح دی جاتی ہے) ہے اور ابھی یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کے اس غیرمعمولی اقدام کے بعد کیا صورت حال پیدا ہوگی اور اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مظاہروں اور رکاوٹیں کھڑے کیے جانے کے باوجود بھی گزشتہ چند ماہ میں معیشت میں کچھ بہتری آئی ہے جہاں ہم نے دیکھا کہ مہنگائی جوکہ عوام کا اہم بنیادی مسئلہ ہے، اس کے اشاریوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسے ایک مثبت نظر سے دیکھا جارہا ہے حالانکہ عوام کو یوٹیلیٹی یا توانائی کے بلز کی مد میں بڑا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔

یہ ممکنہ طور پر دوسری وجہ ہے کہ اسٹیٹس کو کی قوتیں بشمول حکومت میں بیٹھے سیاست دان اور ان کے وردی پوش حمایتی نہیں چاہتے کہ معیشت کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچے۔ ان کا گمان ہے کہ اگر معیشت بہتر ہوگی تو ان کی قسمت یاوری ہوگی۔

وہ درحقیقت ایک ایسی عدلیہ چاہتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملائے اور انہیں اجازت دے کہ وہ جسے چاہیں قانونی سیاسی حقوق دینے سے انکار کریں اور جسے چاہیں اس کے معاشی حقوق سے محروم کردیں۔ یعنی عدلیہ ایسی ہو جو یا تو ان کے معاملات کو نظرانداز کردے یا موجودہ اسٹیٹس کو کو لاحق کسی بھی قانونی چیلنجز کو کمزور کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔

یہ بتاتا ہے کہ وہ ترمیم منظور کروانے کے لیے اتنے بےچین کیوں ہیں حالانکہ انہیں ڈر ہے کہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ ڈر ان کی سوچ اور الفاظ میں ظاہر ہوتا ہے۔ کم از کم اس مرحلے پر حکومت خود سے یہ سوال کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سپریم کورٹ کی قیادت میں تبدیلی کا کیا مطلب ہوگا؟

اگر مجوزہ ترمیم کی کچھ شقوں میں نرمی کرکے حکومت مولانا فضل الرحمٰن کی اراکین کی حمایت حاصل کرنے اور ترمیم منظور کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات نئی وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہوجائیں گے جوکہ مکمل طور پر حکومت کے ماتحت ہوگی۔

اگر ایسا ہوجاتا ہے تو کیا معلوم ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس کو ہی آئینی عدالت کا سربراہ تعینات کردیا جائے یا پھر آئینی عدالت کی سربراہی کے لیے کسی نئے جج کو منتخب کیا جائے۔ آئینی عدالت کے دیگر 4 اراکین کون ہوں گے، نام سامنے آنے پر شاید اس اقدام کے پیچھے کے اصل محرکات سامنے آئیں۔ ابھی کے لیے تو میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ کون اس کا رکن نہیں ہوگا!

16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ختم ہونے کے بعد 25 اکتوبر سے قبل قومی اسمبلی یا سینیٹ کا کوئی اجلاس بلایا جاتا ہے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے درکار تعداد حاصل کرلی ہے۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ اسی مقام پر کھڑے رہیں گے کہ جہاں وہ ابھی موجود ہیں یعنی وہ آنے والے دنوں اور ہفتوں کے حوالے سے بے یقینی کا شکار رہیں گے۔ وہ اسی پریشانی میں مبتلا رہیں گے کہ سپریم کورٹ کے اگلے سربراہ کے فیصلے حکومت پر اثرات انداز ہوں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 11 دسمبر 2024
کارٹون : 10 دسمبر 2024