اینٹ کا جواب پھول

درندوں سے مذاکرات
بیسویں صدی میں عدم تشدد کے نظریے کو پھیلانے والوں میں مہاتما گاندھی اور امریکی پادری مارٹن لوتھر کنگ کے نام نمایاں ہیں۔ اہنسا اور ستیاگرہ جیسے نظریات کے مبلغ مہاتما گاندھی کو پاکستانی نصابی کتب میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔
ان نظریات کو مارٹن لوتھر کنگ نے اپنایا اور امریکہ میں افریقی النسل افراد کے حقوق کی تحریک میں استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج گاندھی کا نام امریکہ میں عقیدت سے لیا جاتا ہے اور مختلف شہروں میں گاندھی جی کے مجسمے موجود ہیں۔
عدم تشدد کے نظریے کے مطابق آپ اپنے دشمن کے ہر وار کو خاموشی سے برداشت کرو لیکن اپنی جدوجہد جاری رکھو اور جوابی حملے کا خیال دل سے نکال دو۔
امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں مارٹن لوتھر کی قبر اور انکے نام پر ادارہ برائے فروغ عدم تشدد قائم ہے۔ گزشتہ سال ہمیں اٹلانٹا جانے کا اتفاق ہوا تو اس ادارے کے ایک پروفیسر کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔
ایک پاکستانی دوست نے تحریک طالبان سے مذاکرات کا سوال اٹھایا اور اس معاملے میں عدم تشدد اپنانے پر بحث چھڑ گئی۔ اس بحث کا کچھ نتیجہ نہیں نکلا اور اس کے بعد ہم یہ سوال بہت سے صاحبان علم سے کر چکے ہیں کہ؛
"کیا ایک ایسے گروہ کے ساتھ عدم تشدد کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے جو آپ کے نظام، آپ کے مذہبی عقائد اور آپکے تمدن کو جائز تسلیم نہیں کرتا اور آپ کی جان کے درپے ہے؟"
ہمیں اب تک جو جواب موصول ہوئے اور ہماری ناقص عقل کے مطابق اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ مذاکرات یا امن پسندی اس وقت تک کامیاب ہوتے ہیں جب دونوں فریق امن چاہتے ہوں یا جب سارے فریق اپنے موقف پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر ایک فریق تشدد پر تلا رہے اور دوسرا فریق مسلسل مذاکرات کی بات کرے تو یوں بات نہیں بنتی۔
نئی حکومت کے مذاکرات والے فیصلے کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی اور پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل سمیت اسی (80) سے زائد نہتے پاکستانی طالبان کی بربریت کا شکار بن چکے ہیں۔
کیا ہم ان درندوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں؟
فدائیوں کے کارخانے
ہم کئی برس سے کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے نفاذ کے نام پر بچیوں کے سکول جلانے والے، مخالفین کو سرعام کوڑے مارنے، ذبح کرنے اور پھانسیاں دینے والے طالبان کی مخالفت کرنے والے دور دور تک نہیں ملتے۔
جنوبی پنجاب اور وزیرستان میں فدائیوں کے باقاعدہ کارخانے موجود ہیں جو دھڑا دھڑ ’مال‘ تیار کر رہے ہیں اور ہماری انگلیاں اٹھتی ہیں تو مغرب کی طرف، یہودیوں کی طرف، اسرائیل کی جانب، ہندوستان کی طرف۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق کسی کو نہیں ہوتی۔
یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ شانتی نگر، گوجرہ اور جوزف کالونی کے بعد پشاور بھی ہمارے بھائیوں کا قبرستان بن گیا۔ اور اس الم ناک واقعے کی مذمت کرنا تو ایک طرف، ایک بڑے ٹی وی چینل نے سونے پر سہاگہ یہ لگایا کہ؛
’شہر کی صفائی کرنے والوں کا دہشت گردوں نے صفایا کر دیا۔'
اس سے کچھ روز قبل پنجاب کے ایک اعلی پولیس افسر نے عیسائی افراد پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔ پشاور واقعے کے بعد سیاستدانوں نے طالبان کے علاوہ دنیا کی ہر شے کو مورد الزام ٹھہرایا۔
کیا دھماکہ اے این پی نے کیا تھا؟
عمران خان نے حملہ آوروں کو غیر انسانی قرار دیا، سعد رفیق نے اسے پاکستان کے خلاف عالمی سازش قرار دیا، منور حسن نے اسے مذاکرات میں تاخیر کا رد عمل قرار دیا، تحریک انصاف کی پریس کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی پر تنقید ہوتی رہی، کسی مائی کے لال میں اتنی جرأت نہیں کہ طالبان ظالمان (جو بزعم خود اس کاروائی کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں) کا نام تک لیا جائے۔
جنداللہ نامی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اسے ڈرون حملوں کا رد عمل قرار دیا۔ ان جاہلوں کو کون سمجھائے کہ ڈرون پشاور کے چرچ سے نہیں اڑائے جاتے اور ڈرون کا عمومی نشانہ وحشی طالبان ہوتے ہیں۔ کیا پشاور میں ہلاک ہونے والی عورتیں یا بچے ڈرون اڑاتے تھے؟
یاد رہے کہ کینیا میں شاپنگ پلازہ پر حملے اور غیر مسلموں کے قتل میں ملوث گروہ کے سربراہ نے بھی ایک پاکستانی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔
خدا جانے ہمیں یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ یہ جنگ نظریات کی جنگ ہے۔ ایک طرف اپنے آپ کو خدا کا منتخب کردہ سمجھنے والے وحشی موجود ہیں اور دوسری طرف اس ملک کے نہتے عوام۔ اس مسئلے کا کوئی پرامن حل نہیں۔ ناسور کا علاج صرف ایک ہی طرح ہو سکتا ہے، 'آپریشن'۔
اینٹ کا جواب پھول؟
یہ مسئلہ عدم تشدد سے نہیں بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے حل ہوگا۔
اس موقعے پر کچھ اشعار ہمارے ذہن میں مسلسل گردش کرتے ہیں، شاعر کا نام معلوم نہیں لیکن یہ اشعار ہماری موجودہ صورت حال کا خوب احاطہ کرتے ہیں؛
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے، وہ شامل ہے ظلم میں قاتل کو جو نہ ٹوکے، وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سربکف اٹھے ہیں حق فتح یاب ہو کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پہ ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی ظالم کی کوئی ذات ہے نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
و ہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے پھوٹے گی صبح امن، لہو رنگ ہی سہی
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (4) بند ہیں