نریندر مودی محصولات اور امیگریشن پر ٹرمپ کے غضب سے بچنے کیلئے سرگرم
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کریں گے، محصولات اور امیگریشن پر امریکی صدر کے غضب سے بچنے کی کوشش کریں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مودی ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس بھی کریں گے، یہ بھارتی رہنما کا نادر اقدام ہے، جو سوشل میڈیا کے اہم صارف ہیں، لیکن شاذ و نادر ہی صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے غیر ملکی رہنماؤں کی جانب سے اوول آفس کے دروازے تک پہنچنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ مودی کے ٹرمپ کے ساتھ پہلے دور حکومت میں اچھے تعلقات تھے۔
بھارتی وزیراعظم نے اپنے دورے سے قبل ٹیرف میں فوری رعایت کی پیش کش کی تھی، اور نئی دہلی نے مہنگی موٹر سائیکلوں پر محصولات میں کمی کی ہے، جس سے معروف امریکی مینوفیکچرر ہارلے ڈیوڈسن کو تقویت ملی ہے۔
بھارت نے گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے امیگریشن اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر 100 تارکین وطن کو لے جانے والی امریکی فوجی پرواز کو بھی قبول کیا تھا، اور نئی دہلی نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اپنے ’سخت کریک ڈاؤن‘ کا عہد کیا ہے۔
بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ’بہت قریبی تعلقات‘ رہے ہیں، حالاں کہ ان کے تعلقات اب تک طویل عرصے سے جاری دو طرفہ تجارتی معاہدے پر کوئی پیش رفت لانے میں ناکام رہے ہیں۔
نومبر میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی سب سے پہلے ’اچھے دوست‘ ٹرمپ کو مبارک باد دینے والوں میں شامل تھے۔
تقریباً 3 دہائیوں سے دونوں پارٹیوں کے امریکی صدور بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں، اور ابھرتے ہوئے چین کے مقابلے میں اسے فطری شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن ٹرمپ تجارت کے معاملے پر بھی بھارت کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں، جو ان کی نئی مدت کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا حصہ ہے، ماضی میں انہوں نے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کو ’سب سے زیادہ ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا‘ ملک قرار دیا تھا۔
سابق پراپرٹی ٹائیکون ٹرمپ نے اقتدار میں واپسی کے بعد سے دوستوں اور دشمنوں کے خلاف محصولات کو غیر معمولی طور پر ہتھیار بنایا ہے۔
جنوبی ایشیا کے بارے میں قومی سلامتی کونسل کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس نے کہا کہ مودی نے اس کے لیے تیاری کر لی ہے، اور وہ ٹرمپ کے غصے کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دریں اثنا بھارتی وزیر اعظم کی ہندو قوم پرست حکومت نے ٹرمپ کے فیصلے کو غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے حوالے سے اولین ترجیح دی ہے۔
اگرچہ امریکی عوام کی توجہ لاطینی امریکا سے آنے والوں پر مرکوز ہے، لیکن میکسیکو اور ایل سلواڈور کے بعد بھارت امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن شہریوں والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی طیارے میں سوار تارکین وطن کو پورے سفر کے دوران زنجیروں میں جکڑ کر واپس لے جانے کے بعد بھارتی کارکنوں نے ٹرمپ کا پتلا نذر آتش کیا تھا، جب کہ حزب اختلاف نے مودی پر کمزوری کا الزام عائد کیا تھا۔
تاہم مودی ایک چیز سے گریز کریں گے، وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ان کے ریکارڈ پر کوئی توجہ مرکوز کرنا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا امکان نہیں ہے، تاہم اس پر سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے نرم تنقید کی تھی۔
اسرائیل اور جاپان کے وزرائے اعظم اور اردن کے بادشاہ کے بعد مودی ٹرمپ سے ملنے والے چوتھے عالمی رہنما ہیں۔
مودی نے اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ کو بڑی محنت سے قائل کیا تھا، دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے، دونوں اقلیتوں پر اپنے ممالک کی اکثریتی برادریوں کے مفادات کو فروغ دینے کے وعدوں پر مہم چلاتے رہے ہیں، اور دونوں ہی ناقدین کا تعاقب کر رہے ہیں۔
فروری 2020 میں مودی نے ٹرمپ کو اپنی آبائی ریاست گجرات میں دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کے افتتاح کے لیے ایک لاکھ سے زائد افراد کے پرجوش ہجوم کے سامنے مدعو کیا تھا۔
ٹرمپ اس سال کے اواخر میں آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکا کے 4 فریقی گروپ کواڈ کے طے شدہ سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کر سکتے ہیں۔











لائیو ٹی وی