کلبھوشن کو قونصلر رسائی ملی، اپیل کا حق نہیں دیا گیا، وکیل وزارت دفاع کا سپریم کورٹ میں بیان
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے بدھ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے 2019 کے فیصلے کی روشنی میں فوجی عدالے سے سزائے موت کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں دیا گیا تھا، کیوں کہ عالمی عدالت نے اس معاملے میں صرف قونصلر رسائی کے معاملے کو حل کیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی جاسوس کا کیس پچھلے دلائل کے جواب الجواب میں آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا گیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتی جاسوس کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، لیکن یہ سہولت ان پاکستانی شہریوں کو نہیں دی جا رہی، جنہیں فوجی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے تشدد میں ملوث ہونے پر سزا سنائی تھی۔
وکیل نے 7 رکنی آئینی بینچ کو بتایا کہ دی ہیگ میں آئی سی جے کے سامنے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے جاسوسی کے ملزم غیر ملکی شہریوں کو قونصلر رسائی کی سہولت فراہم نہ کرنے پر قونصلر تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن 1963 کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی کی ہے۔
خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ اس کے نتیجے میں پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف (نظر ثانی اور دوبارہ غور) ایکٹ 2021 نافذ کیا، قانون نے ویانا کنونشن کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے غیر ملکی شہریوں سمیت فوجی عدالت کے احکام پر نظر ثانی کی اجازت دی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور شہدا فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے یاد دلایا کہ آئی سی جے کے قانون کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کی تھی، خاص طور پر 2017 کے سعید زمان خان کیس میں، جس میں ملزمان کو زیادہ حقوق فراہم کیے گئے تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے یاد دلایا کہ کس طرح پشاور ہائیکورٹ کے سعید زمان کے فیصلے نے ابتدائی طور پر وفاقی حکومت کو ناراض کیا تھا، لیکن بعد میں اسے آئی سی جے کے سامنے پاکستان کی عدالتوں کے حق میں دفاع کے طور پر پیش کیا گیا۔
جج نے یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ کیسے اس وقت کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کو ایک فون کال موصول ہوئی تھی، جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کا فیصلہ عالمی عدالت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016 میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا، اور بعد میں اس نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھ اپنے تعلقات، پاکستان میں جاسوسی اور دہشتگردی میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا، 2017 میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) نے انہیں سزائے موت سنائی تھی، جس کی تصدیق اس وقت کے آرمی چیف نے کی تھی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان 9 مئی کے واقعات کے مجرموں کو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق دینے کے سوال پر غور و خوض میں مصروف ہیں، جس کے لیے انہیں چند دن درکار ہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا قانون کے ذریعے غیر ملکی شہری کو دیا گیا حق آئین کے آرٹیکل 199 کے مساوی ہے، اور ان کا موازنہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل 199 (3) ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے، لیکن انہیں مسلح افواج کے کسی رکن یا جو فی الحال مسلح افواج سے متعلق کسی بھی قانون کے تابع تھا، کے بارے میں احکامات جاری کرنے سے روکتا ہے۔
وکیل نے وضاحت کی کہ قانون کے ذریعے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کرنے کے لیے ایک کھڑکی کھولی گئی، جب کہ یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ ایک منفرد دائرہ اختیار ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کیے بغیر ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے؟ اور کیا اس حوالے سے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں کوئی شق موجود ہے؟۔
وکیل نے وضاحت کی کہ پی اے اے کی دفعہ 157 کے تحت کورٹ آف انکوائری تشکیل دی گئی تھی، انکوائری کے نتائج کے بعد ملزمان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی، پی اے اے کے تحت آنے والے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وکیل نے دعویٰ کیا کہ فوجی عدالت نے 9 مئی کو ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے جو طریقہ کار اپنایا تھا، وہ منصفانہ ٹرائل کے معیار کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔