پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی تشخیص کے لیے بلڈ ٹیسٹ تیار کرنے کی راہ ہموار
ایک طویل تحقیق کے بعد ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ جلد ہی دنیا میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی تشخیص کے لیے پہلا بلڈ ٹیسٹ کا طریقہ تیار کرلیا جائے گا۔
بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن کے لیے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے جو ایک عام عارضہ ہے۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے دوران ماں کے ذہن میں منفی خیالات آنا معمول ہوتا ہے، ایسے میں خود کو یا اپنے بچے کو نقصان پہنچانے کے خیالات تواتر سے آتے ہیں، اس مرض کا دوسرا سب سے بڑا اثر مریض پر غنودگی طاری ہونا اور منہ خشک ہوجانا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق تقریباً 4 میں سے ایک خاتون بچے کی پیدائش کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں مبتلا رہتی ہیں۔
اس بیماری کی تشخیص کے لیے بھی کوئی بھی مستند ٹیسٹ دستیاب نہیں ہے، تاہم ماہرین صحت علامات کی بنیاد پر خواتین میں اس کی تشخیص کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک خاتون بچے کو جنم دینے کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار بن جاتی ہے جب کہ اس بیماری کی معلومات نہ ہونے کے باعث محض 6 فیصد خواتین ہی اس کا علاج کروا پاتی ہیں۔
تاہم اب ماہرین کو امید ہے کہ چند سال میں ممکنہ طور پر پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی تشخیص کا پہلا بلڈ ٹیسٹ دستیاب ہوگا۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے 2020 حاملہ خواتین پر تحقیق کی اور ان کے متعدد ٹیسٹس کرکے ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کیا۔
جن ہزاروں خواتین پر تحقیق کی گئی، ان میں ایسی خواتین بھی شامل تھیں جو کہ ڈپریشن کا شکار بھی رہی ہیں جب کہ بعض خواتین ایسی تھیں جو کبھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوئی تھیں۔
ماہرین نے تحقیق کے مراحل کے دوران خواتین کے بلڈ ٹیسٹ کرکے ان میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کو بھی دیکھا اور پھر ان میں علامات کو نوٹ کیا اور بچے کی پیدائش کے بعد ان میں دوسری علامات کو بھی جانچا۔
ماہرین نے پایا کہ حمل کے آخری ایام کے دوران خواتین میں ہارمونل تبدیلیاں ہوتی ہیں اور پروٹین زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس سے خواتین بچے کی پیدائش کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار بن جاتی ہیں۔
ماہرین نے پایا کہ ان خواتین کے پوسٹ پارٹم کے شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو پہلے ہی ڈپریشن کا شکار رہی ہوں جب کہ بعض خواتین میں ڈپریشن کی ہسٹری نہ ہونے کے باوجود ان کے ہارمونز میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے وہ پوسٹ پارٹم کا شکار بن جاتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق تحقیق کے نتائج 80 فیصد درست ثابت ہوئے، جن خواتین میں ہارمونز کی تبدیلیوں کو نوٹ کیا گیا تھا، وہ خواتین پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار ہوئیں، اس لیے اب مذکورہ تحقیق کے تناظر میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے لیے بلڈ ٹیسٹ کا طریقہ کار تیار کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین نے امید ظاہر کی کہ ان کی تحقیق کی روشنی میں آنے والے وقت میں بلڈ ٹیسٹ کے طریقہ کار تیار کرنے والے ماہرین پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا بلڈ ٹیسٹ بھی تیار کریں گے۔