اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
آغا عبدالحسین اپنے وفد کے ہمراہ اتوار کے دن انتہائی ٹھنڈے موسم میں 24 فروری 1799ء کو حیدرآباد پہنچے تھے اور اس دن ماہ رمضان کا اُنیسواں روزہ تھا۔ چونکہ میر فتح علی خان سردی کے موسم میں پرندوں کے شکار کے لیے گئے ہوئے تھے اس لیے آغا کو اپنے ہم وطن سید محمد ابراہیم کے پاس رہنا پڑا۔ میر صاحب شکار سے یکم مارچ تک لوٹیں گے اور کمپنی سرکار کے اس وفد سے ملاقات کریں گے۔
گزشتہ قسط میں کچھ ساتھیوں نے سوال کیا تھا کہ ’تالپوروں کو کلہوڑوں سے حکومت 1782ء میں ملی تھی جبکہ کراچی واپس لینے کا خیال انہیں 10 برس کے بعد یعنی 1792ء میں کیوں آیا؟ اس سے پہلے کیوں نہیں؟‘ یہ یقیناً اہم سوال ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ جلدی جلدی میں ان 10 برسوں میں تالپوروں کو کراچی کی یاد نہ آنے کے اسباب پر ایک نظر ڈال سکیں۔
غلام شاہ کلہوڑو نے 1772ء کی سخت گرمیوں کے موسم میں وفات پائی۔ اس کے بعد ان کا بڑا بیٹا میاں محمد سرفراز خان تخت پر بیٹھا۔ اس کے دربار میں سب سے معزز شخص بلوچ قوم اور تالپور گھرانے سے تعلق رکھنے والا سردار میر بہرام خان تھا۔ میاں سرفراز کے اشارے پر میر بہرام اور اس کے بیٹے صوبدار خان کو قتل کردیا گیا۔ 5 برس کی حکومت کے بعد سرفراز کو معزول کیا گیا تو تخت پر اس کا بھائی میاں محمد خان اور کزن میاں صادق خان بیٹھے۔ مگر ایک برس بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ انہیں حوالات کے حوالے کردیا گیا۔
اس کے بعد غلام شاہ کلہوڑو کا بھائی میاں غلام نبی خان تخت پر بیٹھا۔ اس نے بھی بہرام خان کے بیٹے بجرخان کو قتل کرنے کا سوچا (جو باپ کے قتل کے وقت حج کرنے کے لیے مکہ میں تھا اس لیے بچ گیا تھا) لیکن میاں غلام نبی کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں اور وہ خود جنگ میں مارا گیا۔
اس واقعے سے حکومت کی باگ ڈور بجر خان کے ہاتھ میں آئی اور اس نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی کے بھائی میاں عبدالنبی کو تخت پر بٹھایا۔ محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ان شب و روز میں کلہوڑوں کی بدبختی اپنے عروج پر تھی۔ بدبختی کا یہ زمانہ ایسی صورت میں آتا ہے جب آپ کسی کا کیا ہوا احسان ایسے بھول جائیں جیسے ہم جسم سے بہے پسینے کو یاد نہیں رکھتے۔
تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ میاں عبدالنبی نے بھی میر بجر خان کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوپایا۔ اس لیے اس قبیح عمل کے لیے اُس نے جودھ پور کے راجا بائی سنگھ جو اس کا دوست تھا، مدد حاصل کی اور مہاراجا نے پیغام دینے کے بہانے دو قاتل بجر خان کے پاس بھیجے۔ وہ بجر خان کے پاس پہنچے، دعا سلام کی اور اس سے تنہائی میں بات کرنے کی گزارش کی۔ جیسے ہی تنہائی ملی، بجرخان کو چاقو مار کر قتل کردیا گیا۔ ایسے قتل کو ہم ’ٹھنڈا قتل‘ (cold blooded murder) کہتے ہیں یعنی یہ اتنا اچانک ہوتا ہے کہ سامنے والے کو سوچنے کے دو پل بھی میسر نہیں ہوتے۔ یہ کسی کو قتل کرنے کا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔
اس قتل پر تالپوروں کا شدید ردعمل سامنے آیا اور میاں کا تخت و تاج چند لمحات میں اس سے چھن گیا اور میاں عبدالنبی کو جلاوطن ہونا پڑا۔ اتفاق رائے سے تخت پر میر صوبیدار کے بیٹے اور میر بہرام کے پوتے میر فتح علی خان کو بٹھایا گیا۔
جب 1782ء میں کلہوڑا اور میروں کی آپس میں جنگ ہوئی (اس جنگ کو ’ہالانی واری جنگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ مقام موجودہ ضلع نوشہروفیروز میں ہے) جس میں کلہوڑوں کی 82 سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا اور تالپوروں نے اپنی حکومت قائم کی۔ چونکہ سندھ اس وقت افغانستان کے ماتحت تھا تو جب تک وہاں سے حکومت کرنے کی سند حاصل نہیں ہوتی تھی تب تک یہاں حکومت کرنا ممکن نہیں تھا۔ میاں عبدالنبی کلہوڑو میدانِ جنگ میں شکست کھانے کے بعد بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ حکومت تالپوروں کو ملے اس لیے وہ افغان بادشاہ تیمور شاہ سے اپنے سفیروں کے ذریعے رابطے میں تھا۔
بہر کیف ایک لمبی خط و کتابت اور کابل سرکار میں سندھ کے وکلا کی حاضریوں کے بعد حکومت کرنے کا پروانہ میر فتح علی خان کو ملا۔ مگر 6 برس کے عرصے میں میر صاحبان کی آپس میں نہیں بنی اور آپس میں اختلافات کی دراڑیں پڑنے لگیں جس کی وجہ سے سندھ کو تین حصوں میں بانٹ دیا گیا لیکن مرکز حیدرآباد ہی رہا۔
1788ء میں میرصاحبان نے سالانہ خراج دینے میں کچھ کاہلی برتی تو کابل سرکار نے میاں عبدالنبی کی پیٹھ تھپتھپائی اور احمد خان نورزئی کی کمان میں سندھ پر لشکر کشی کی۔ جون کے سخت گرم موسم میں جنگ ہوئی جس میں افغان لشکر ہارا اور تالپوروں کی جیت ہوئی۔
اس کے بعد بھی بہت سارے جھمیلے تھے جن سے تالپوروں کی نئی حکومت کو نمٹنا پڑا مگر سب سے بڑا جھمیلا میاں عبدالنبی تھا۔ میاں تمام کوشش کرتا رہا کہ کسی بھی حالت میں تالپور سکون سے حکومت نہ کر سکیں۔ ہالانی جنگ کے بعد حکومت تو تالپوروں کی قائم ہوئی مگر حیدرآباد کے قلعے میں چونکہ ابھی تک کلہوڑا حاکموں کے خاندان رہ رہے تھے اس لیے کلہوڑا خاندانوں کی حفاظت کے لیے میاں عبدالنبی نے اپنے آدمیوں میاں غلام حیدر خان، شالمین شیدی اور دیگر خاص آدمی مقرر کر رکھے تھے۔ میر فتح علی خان نے اپنے خاص آدمی حاجی احمد خان دایو کو حیدرآباد کا قلعہ حاصل کرنے کے لیے لشکر دے کر بھیجا کہ وہ قلعے کو فتح کر کے اپنے قبضے میں لے۔
چونکہ قلعہ بہت مضبوط تھا اور ایک پہاڑی پر تھا تو اس پر قبضہ کرنا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ کئی ماہ تک گھیراؤ کیے رکھا مگر کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ پھر وقت نے چال بدلی تو قلعے کے اندر اور باہر کے کسی آدمی کے گٹھ جوڑ سے قلعے پر قبضہ کرنے کی ترکیب نکال لی گئی۔ کہتے ہیں کہ قلعے کی مرکزی مشرقی دیوار کے نزدیک بارود رکھنے کے لیے کوٹھی تھی۔ میاں عبدالنبی کے ایک آدمی غلام حیدر نے بارود کو آگ دکھائی، ایک زوردار دھماکے کے ساتھ دیوار کا ایک حصہ زمین بوس ہوا اور اس طرح تالپوروں نے حیدرآباد قلعے پر قبضہ کر لیا۔
جو کلہوڑا خاندان کے افراد قلعے کے اندر موجود تھے، ان میں سے میاں عبدالنبی کے اہل و عیال کو حاجی پور جبکہ میاں غلام شاہ کے خاندان کو عزت و احترام سے بہاولپور بھیج دیا گیا اور شالمین شیدی کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ غلام حیدر (جس نے بارود کو آگ دکھائی تھی)، اسے بھی پھانسی دی گئی لیکن اس بات میں ابہام ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح کلہوڑوں کے زمانے میں کابل کے دربار میں گدومل سندھ حکومت کا وکیل مقرر تھا، کابل میں عبدالنبی کی باتوں میں آ کر گدومل اور قیصر خان نظامانی نے میر فتح خان کی جگہ پر کسی دوسرے کو تخت پر بٹھانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ الفاظ جب منہ سے ادا ہو جائیں پھر وہ آپ کے بس میں نہیں رہتے اور ہواؤں پر سفر کرتے ہیں۔ یونہی اُڑتی اُڑتی بات کابل سے سندھ پہنچی۔ گدومل کو کابل سے سندھ بلا کر پھانسی دے دی گئی اور قیصر خان نظامانی کو پھانسی دینے والی بات شک و شبہات کی دھند میں کہیں روپوش ہوجاتی ہے۔
1788ء میں نوروزئی والی جنگ جیت کر میر فتح علی نئی خدا آباد آیا۔ 1790ء میں خدا آباد سے حیدرآباد کے قلعے میں آ کر رہنے لگا۔ ان کے ساتھ ان کے تین بھائی بھی تھے جن کا ذکر ہم پہلی چویاری کے طور پر کرچکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میر فتح علی خان نے اپنے اپنے خاندانوں کے لیے قلعے کے اندر 1792ء میں الگ الگ محل بنائے اور ہر کوئی اپنے خاندان کے ساتھ اپنے محل میں رہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ میاں عبدالنبی کی بقیہ کہانی کو بھی یہیں بیان کردیں تو بہتر رہے گا۔
تیمور کے انتقال کے بعد میاں کی بکھر اور لیہ والی جاگیریں ضبط ہوئیں تو اس دوران لڑائی میں میاں کے بیٹے محمد عارف خان کو گولی لگی اور وہ انتقال کرگئے۔ منفی اعمال کے بوئے ہوئے بیج درخت بن کر مکافاتِ عمل کا کڑوا میوہ دینے لگے تھے۔ میاں نے اپنے جوان بیٹے کو لیہ میں سپرد خاک کیا اور اپنے پورے خاندان کے ساتھ جودھ پور چلا گیا۔ میاں جودھ پور گیا تو ایک حوالے سے تالپوروں نے سکون کا سانس لیا اور میر فتح علی خان نے کراچی کے لیے سوچنا شروع کیا مگر میاں عبدالنبی کی تھوڑی سی کہانی اور ہے کیونکہ مکافات عمل کا انتقام ابھی باقی تھا۔
میاں 1799ء میں جودھ پور سے دوستوں سے ناراض ہوکر خاندان سمیت واپس بہاولپور آیا۔ خواجہ لطافت علی ناظر جو میاں کا خاندانی ’کمدار‘ (وفادار ملازم) تھا، اس کی کوششوں سے میاں کو راجن پور ضلع میں ڈیرہ غازی خان کا علاقہ ملا۔ ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ہوگا کہ میاں کے گھر کو آگ لگ گئی اور آگ بھی ایسی لگی کہ سارا کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ آخری دن میاں نے تکلیف اور کسمپرسی کی حالت میں گزارے اور آخر 1805ء میں میر غلام علی کے زمانے میں راجن پور میں آنکھیں مُوند لیں۔
تیمور شاہ نے 18 مئی 1793ء میں یہ جہانِ فانی چھوڑا لیکن اس سے دو برس قبل یعنی 1791ء میں سندھ پر پھر اپنی فوجیں بھیجیں۔ سزا کے طور پر ان کی سخت شرائط پر تالپور راضی ہوگئے اور عہدنامہ ہوا کہ ’میر صاحبان چاہے کتنے بھی حصوں میں بٹے ہوں، کابل حکومت کو خراج کی رقم وقت پر ادا کریں گے۔ سزا کے طور پر اس وقت فوراً 60 لاکھ روپے ادا کریں اور آئندہ کے لیے مقررہ وقت پر بالکل ایسے خراج ادا کیا جائے گا جیسے کلہوڑا حاکم احمد شاہ ابدالی کو وقت پر ادا کرتے تھے‘۔ پیسے یعنی 60 لاکھ روپے ادا کردیے گئے۔ ان پیسوں کے بدلے میں جو ملا، وہ تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں۔
حیدرآباد قلعہ پر کلہوڑوں سے قبضہ چھڑانا، کابل میں قیصر نظامانی اور گدومل کی تالپوروں کے خلاف سازش کو کچلنا، تیمور شاہ کو بڑی رقم کا خراج دینا اور میا عبدالنبی سے جان چھڑانا یہ وہ اہم اسباب تھے جن کی وجہ سے تالپور کراچی کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ مگر جب پریشانیوں کا سورج ڈوبا اور سکون کا سورج اًگا تو کراچی کو قلات سے آزاد کرانے کا وقت آیا۔
’اس عہدنامے کے بعد تیمور شاہ نے ایلچیوں کے ذریعے میر فتح علی خان کے لیے خلعت فاخرہ (یہ کم از کم تین پارچوں پر مشتمل ہوتا تھا یعنی دستار، جامہ اور کمربند)، جڑاؤ تلوار، مرصع مُقیشی تاج، تازی گھوڑے اور دیگر تحائف بھیجے اور ساتھ ہی ’شاہ ویردی خان‘ کا خطاب بھی دیا۔ میر فتح علی خان نے بادشاہ کی نوازشوں کو تسلیم کرنے کے لیے فوری طور پر دیوان جسپترا کو قیمتی سوغاتوں کے ساتھ کابل بھیجا‘۔ پیسوں کے عوض ملنے والے ان اعزازات کی خوشی میں تین دن تک حیدرآباد میں چراغاں کیا گیا اور بادشاہ ہاتھی پر سوار تھا اور جسم پر خلعت فاخرہ غرور کے ساتھ دیپکوں اور مشعل کی روشنی میں چمکتی تھیں۔
اب 1799ء میں واپس چلتے ہیں جہاں میر فتح علی خان پرندوں کے شکار سے لوٹ آئے ہیں۔ آج پہلی مارچ ہے تو کل یعنی 2 مارچ بروز ہفتہ تالپور حکومت نے اس وفد سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ دوسرے دن یہ وفد سندھ کے حاکموں سے ملا لیکن وہاں کیا ہوا؟ اس کے متعلق ہمیں آغا عبدالحسین کے اس تفصیلی خط سے پتا چلتا ہے جو اس نے بمبئی کے گورنر کو تحریر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، ’اس موقع پر بمبئی کے گورنر کی طرف سے بھیجے گئے تحائف پیش کیے گئے جن میں شیشے اور چینی کے بنے برتن بھی شامل تھے۔ یہ تحائف عہدوں کے مطابق درباری امرا اور نوابوں کو ایک سلیقے اور ترتیب سے پیش کیے گئے۔
انگریزوں کے وکیل نے یہ محسوس کیا کہ ان تحائف کے تالپور حاکموں کے دلوں پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد طویل دعا سلام کے بعد تالپور حاکموں کو ایک درخواست پیش کی گئی جس میں یہاں آنے کا مقصد واضع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد حاکموں نے اپنے وزیر سید محمد ابراہیم شاہ اصفہانی سے صلاح و مشورہ کیا۔ اس نے بھی گوری سرکار کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی صلاح دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کلہوڑا دور حکومت میں کمپنی کو بیوپاری کوٹھی کی اجازت ملی تھی۔
اس طویل نشست کے آخر میں تالپور حاکموں نے آغا عبدالحسین کو یقین دلایا کہ انگریزوں کی نئی بیوپاری کوٹھی کے لیے بہت ساری رعایتیں دی جائیں گی۔ آغا نے جوناتھن ڈنکن کو یہ بھی خبر دی کہ سندھ حکومت نے ہمیں کسٹم معاف کرنے کا پروانہ بھی دیا ہے۔ اس رعایت کا یہ مطلب ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری بیوپاری کوٹھیاں سندھ کے بیوپار کو وسعت دینے میں اہم ثابت ہوں گی اور ساتھ ہی آغا نے بمبئی سرکار کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ سندھ کے دربار میں جلد سے جلد کوئی ریزیڈنٹ بھیجا جائے تاکہ وہ سمجھ لیں کہ ہمارا مقصد بیوپار کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بمبئی کی جانب جو سندھ کے اُمرا کی خریداری کے لیے آغا محمد بیگ ایرانی آ رہا ہے، اُس کا شاندار استقبال کیا جائے اور سندھ کے لیے جو بھی ریزیڈنٹ مقرر کرکے بھیجا جائے، اس کے ساتھ یہ بیوپاری سامان بھی ضرور بھیجا جائے جیسے مصری، کالی مرچیں، کم اور زیادہ قیمت والا چینی کا سامان، لوہے اور انگریزی فولاد کا سامان، سُوتی انگریزی کپڑا جو نارنجی، سرخ، سرمئی، ہلکا پھیکا، اخروٹ کے رنگ جیسا اور گہرے پیلے رنگوں میں ہو، بھیجا جائے۔ اور میر صاحب ہزہائینس نے بندوق کے چیمبر اور واچ کے لیے خصوصی گزارش کی ہے اور وزیر آغا ابراہیم شاہ نے بھی صندل کی لکڑی کی کرسی کی خواہش ظاہر کی ہے’۔
بمبئی کے گورنر کو آغا کے خط کے ساتھ وہ پروانہ بھی بھیجا گیا جس پر تاریخ 6 مارچ 1799ء تحریر تھی اور ساتھ ہی میر فتح علی خان کی مہر بھی لگی ہوئی تھی۔ یہ پروانہ ننگر ٹھٹہ کی اس کوٹھی کو اسی جگہ پر دوبارہ کھولنے کے لیے تھا جہاں کسی زمانہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین تجارت کرتے تھے۔ سال 1758ء سے 1775ء تک کمپنی کا تجارتی سامان کمپنی کے بنے ہوئے اسٹور رومز میں رکھا ہوتا تھا۔ اُن دنوں کوٹھی کو کھلے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ملک کے سیاسی حالات میں بہت بگاڑ آگیا تو ایسے میں کوٹھی کو بند کرنا پڑ گیا اور سامان ٹھٹہ میں ہی پڑا رہا۔ پروانے میں ننگر ٹھٹہ شہر سے باہر 4 بیگھہ (ایک بیگھہ 4 کنال کے برابر) زمین باغ لگانے کے لیے دی گئی تھی۔
آغا کے اس 17 مارچ والے خط میں بمبئی سرکار کو کمپنی بہادر کا جھنڈا بھیجنے کی بھی گزارش کی گئی تھی کہ اس جھنڈے کو کمپنی کی کوٹھی پر لگایا جا سکے۔ جب تک ٹھٹہ کی پرانی کوٹھی کی تعمیر وغیرہ ہوئی تب تک آغا ہی اس پورے کام کی دیکھ بھال میں لگا رہا۔ آخر 1799ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا آگبوٹ جہاز ڈریک سارا مطلوبہ سامان لے آیا اور بیوپاری کوٹھی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اگست 1799ء میں تالپور حکومت کی جانب سے بیوپار کے لیے کمپنی کو مکمل پروانہ جاری ہوا اور وہ ساری رعایتیں دی گئیں جو انہیں کلہوڑا دور حکومت میں حاصل تھیں۔
مئی 1799 میں جب ’ناتھن کرو‘ کراچی کے ساحل پر اُترا تو اسے کوئی پروٹوکول نہیں دیا گیا کیونکہ کراچی کے بیوپاری خاص طور پر دریانو مل سخت مخالف تھا کہ کمپنی کی تجارتی کوٹھی کراچی میں کھلے۔
مدد علی لکھتے ہیں کہ ’کراچی کے ہندو بیوپاریوں کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ناتھن کرو سندھ کے حکمران میر غلام علی تالپور سے مدد لینا چاہتا تھا۔ میر ان شرائط پر راضی ہوا کہ وہ اس کے لیے ایک سرجن، بڑی تعداد میں توپ کے گولے اور ان کی فوج کی ٹریننگ کے انتظامات کمپنی کی طرف سے کرکے دے گا۔ ناتھن کرو نے ان شرائط کو پورا کرنے کا وعدہ کیا اور ’کرو‘ کی یہ کوششیں کامیاب گئیں‘۔
اس حوالے سے احمد حسین صدیقی تحریر کرتے ہیں کہ ’ کراچی میں انگلش فیکٹری قائم کرنے کے لیے کرو کو 26 اگست 1799ء کو وہ پروانہ ملا جس کی رو سے اسے کراچی قلعے سے باہر چار ایکڑ زمین دینے کی منظوری دی گئی جس میں ایک باغ لگایا جا سکے اور تجارتی کوٹھی کی عمارت تعمیر ہوسکے۔ کیپٹن کارلس جس نے 1837ء میں کراچی بندر کا نقشہ بنایا تھا، اس نے اس کوٹھی کے کھنڈرات لیاری ندی کے بائیں کنارے پر گاندھی گارڈن سے دور دکھائے ہیں’۔
اسی طرح 24 ستمبر 1799ء کو اسی جگہ پر کمپنی کا جھنڈا لہرانے کی تقریب ہوئی اور تعمیرات شروع ہو گئیں اور ناتھن کرو زیادہ ہدایات لینے کے لیے بمبئی چلا گیا اور فروری یا مارچ تک واپس لوٹ آیا۔
کمپنی سرکار کے تیز اور شاطر دماغ سے فریب کا نکلا ہوا تیر اپنے نشانے پر لگ چکا تھا۔ سر تھامس رو جو کچھ برس تک ہندوستان میں رہا اور اسے ہندوستان میں بیوپار کی اجازت دی گئی اور سورت میں کمپنی کی پہلی تجارتی کوٹھی کی عمارت بنی۔ یہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا بیج تھا جو جہانگیر نے 1617ء میں یہ اجازت دے کر سورت میں بویا تھا کہ جب زمین زرخیز ہو تو بیج اُگ ہی پڑتا ہے اور شاندار درخت کے ساتھ اس پر ثمر بھی لگتا ہے۔ کمپنی کے اس بوئے ہوئے بیج سے اُگے ہوئے درخت کی جڑیں جو پھوٹیں تو دور دور تک گئیں اور جہاں جہاں تک گئیں وہاں کے رہنے والوں کی گردن میں ایسی لپٹیں کہ لوگ مالک سے غلام اور حاکم بادشاہ سے فقیر ہوگئے اور اب یہ سندھ تک آ پہنچی ہیں۔
کمپنی سرکار کی نظریں اب سندھ پر ہیں کہ یورپ اور روس میں جو سیاسی حالات کی آندھیاں چلنے لگی ہیں، وہ کمپنی سرکار کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی میں بیٹھے سرمایہ دار لوگوں کی نظریں ہر پل کُھلی رہتی تھیں، اُلو کی طرح جو ہر وقت جاگتا بھی رہتا ہے اور سوتا بھی رہتا ہے۔ شمال میں پامیر کے پہاڑی سلسلے میں بہتے آمو دریا کو اگر روس کو پار کر لینے سے روکنے اور نپولین کے مصر پر حملہ کرنے کے بعد اتفاقیہ طور پر اس کا اگر اپنی بیوی جوزفین سے جھگڑا ہو جائے تو اومان، ایران اور انڈیا دور تو نہیں تھے۔
تو ایسی صورت حال میں کمپنی سرکار بفرزون بنانے کے لیے انتہائی سنجیدہ تھی اور اس لیے یہ بھی ضروری تھا کہ سندھ سے اس کے تعلقات اچھے ہوں۔ ایک دفعہ تعلقات بن جانے کے بعد کمپنی سرکار پر عرب اور اونٹ والی کہانی ایسی جچتی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ جچتا ہے۔ چلیے ابتدا تو ہو چکی ہے۔ کمپنی سرکار کی عیاریوں سے بھری چالوں کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے جلد ملتے ہیں۔
حوالہ جات
- Memoirs of Seth Naomul Hotchand, CS.L, Of Karachi. 1804-1878. Rao Bahadur Alumal Tikamdas Bhojwani. 1915.
- British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
- ’تاریخ تالپور‘۔ مرزا عباس علی بیگ۔ میر مراد تالپور پبلیکیشن۔ حیدرآباد
- ’کمپنی کی حکومت‘۔ باری علیگ۔ لاہور بک سٹی، لاہور
- ’تاریخ کے مُسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور