حافظ آباد: 2 بچوں کے قتل کیس کے ملزم کی پولیس حراست سے فرار ہونے کی کوشش، دریا میں ڈوب کر ہلاک
پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں 2 بچوں کے قتل کیس کے ملزم نے پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش میں دریا میں چھلانگ لگا دی، جس کی لاش نہر سے ملی۔
واضح رہے کہ 30 مئی کو حافظ آباد ضلع کے گاوں کاسوکی میں لاپتا ہونے پر 2 بچوں کی لاشیں ایک گھر میں لوہے کے ڈبے سے برآمد ہوئی تھیں، جبکہ مرنے والے لڑکوں میں سے ایک کے انکل اور اس کے تین ساتھی ملزمان میں شامل تھے، جن میں سے دو کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
پولیس نے 4 نامزد اور 2 نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی تھی۔
حافظ آباد کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اعجاز احمد نے آج ڈان ڈیجیٹل کو بتایا کہ واقعے کے بعد مرنے والے ایک بچے کے انکل سی سی ڈی کی تحویل میں تھے، مزید کہا کہ مشتبہ شخص ڈوب گیا اور بعد میں اس کی لاش نہر سے برآمد ہوئی۔
اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) حافظ آباد کے کسوکی تھانے میں سب انسپکٹر علی کامران کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 224 کے تحت درج کی گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ دوران تفتیش ملزم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ اس نے بچوں کو لکڑی کے بلے سے تشدد کا نشانہ بنایا، اور اس نے بلے کو اپنے کمرے میں چھپا رکھا تھا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس مشتبہ شخص کے ساتھ بلے کو برآمد کرنے کے لیے جا رہی تھی، جب کریالہ گاؤں کے قریب ایک نہر کے قریب گاڑی ایک گڑھے کے قریب پہنچنے کے بعد سست ہو گئی، جہاں مشتبہ شخص نے اپنے دائیں ہاتھ سے ہتھکڑیاں ہٹا دیں، پولیس نے مشتبہ شخص کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ گاڑی سے چھلانگ لگا کر جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔
ایف آئی آر کے مطابق جب پولیس مشتبہ شخص کا تعاقب کر رہی تھی تو انہوں نے پانی کی آواز سنی، مزید کہا گیا کہ پولیس نے اسے بلایا، لیکن ملزم پانی میں آگے بڑھتا رہا اور غائب ہو گیا۔
واضح رہے کہ 30 مئی کو پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں لاپتا ہونے کے کئی روز بعد 7 سال کے 2 بچوں کی لاشیں ایک گھر سے برآمد ہوئی تھیں۔
غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سال 2024 میں چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے 3 ہزار 364 بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
کرل نمبرز 2024 کی رپورٹ ملک بھر کے 81 قومی اور علاقائی اخبارات سے جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کی گئی، اس سے پتا چلتا ہے کہ سال کے دوران روزانہ 9 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، جب ہ صنفی تقسیم کے تجزیے سے پتا چلا کہ کل رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے 1,791 (53 فیصد) متاثرین لڑکیاں اور 1,573 (47 فیصد) لڑکے تھے۔












لائیو ٹی وی