• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Cloudy 12.7°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Cloudy 12.7°C

خلیجی ممالک کا کفالہ سسٹم اور حکومتی غفلت کے شکار پاکستانی تارکینِ وطن

شائع June 5, 2025
تارکینِ وطن ورکرز ریاض کے پاس تعمیرانی مقام پر—تصویر: اے پی
تارکینِ وطن ورکرز ریاض کے پاس تعمیرانی مقام پر—تصویر: اے پی

23 سال کی عمر میں احمد فراز بہتر مستقبل کی امید لے کر کراچی سے سعودی عرب چلے گئے۔ ایجنٹ نے انہیں سعودی عرب میں اچھی تنخواہ، مراعات اور چھٹیوں کے ساتھ ایک اچھے ہوٹل میں نوکری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے بھی ہر سال بیرونِ ملک جانے والے ہزاروں نوجوان پاکستانیوں کی طرح ایجنٹ کی فیس ادا کرنے کے لیے خاندانی اثاثے (زیورات) فروخت کیے اور امید لے کر ہوائی جہاز میں سوار ہوئے۔

لیکن پرواز کے ریاض پہنچنے پر احمد فراز کے تمام خواب ٹوٹ گئے۔

’میں تین ماہ تک بے روزگار تھا‘، انہوں نے ڈان کو بتایا جبکہ ان کی آواز میں تلخ تجربے کی جھلک محسوس ہوئی۔ احمد فراز نے بتایا، ’ایجنٹ نے سب جھوٹ بولا۔ کوئی نوکری تھی نہ ہی کوئی کمپنی میرا انتظار نہیں کررہی تھی۔ جب نوکری نہیں تھی تو کفیل (اسپانسر) نے مجھ سے زیادہ رقم کا مطالبہ شروع کردیا۔ بہت سے ورکرز ڈی پورٹ ہونے یا جیل جانے سے بچنے کے لیے فرار ہوگئے‘۔

احمد فراز کی کہانی تارکین وطن کے مصائب کے ایک وسیع منظرنامے میں محض ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ خلیجی ممالک میں موجود درجنوں پاکستانی ورکرز کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے ان کے ساتھ ہونے والے استحصال کا ایک پریشان کُن امر سامنے آتا ہے۔ دھوکے باز ایجنٹ معمول کے مطابق ورکرز کو جھوٹے وعدوں کے ذریعے لالچ دیتے ہیں، ان سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اور پھر انہیں کفالہ (کفالت) کے مشکل نظام سے خود نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔

کفالہ سسٹم کا جھانسا

ان مصائب کی اصل وجہ کفالہ سسٹم ہے۔ یہ کفالت کا فریم ورک 1950ء کی دہائی میں خلیجی ریاستوں میں عارضی مہاجر مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ یہ نظام قانونی طور پر ورکرز کی رہائشی حیثیت کو ان کے آجر سے منسلک کرتا ہے جس میں ملازمت میں تبدیلی سے لے کر ایگزٹ ویزا تک ہر چیز کے لیے اسپانسرز کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ جبکہ تمام خلیج تعاون کونسل کے ممالک اس نظام کے کچھ ورژن استعمال کرتے ہیں لیکن سعودی عرب اور قطر اس پر سخت عمل درآمد کرتے ہیں۔

کفالہ سسٹم تارکینِ وطن ملازمین کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے—تصویر: رائٹرز
کفالہ سسٹم تارکینِ وطن ملازمین کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے—تصویر: رائٹرز

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے کفالہ کی ’جبری مشقت اور بدسلوکی کی آماجگاہ‘ کے طور پر مذمت کی ہے۔ عملی طور پر یہ طاقت کے عدم توازن کو اتنا شدید بناتا ہے کہ ورکرز ملک بدری کے خوف کے پیش نظر اکثر اجرت کی ادائیگی نہ ہونے، کام کے زائد گھنٹے اور حتیٰ کہ جسمانی بدسلوکی کو بھی برداشت کرتے ہیں۔

شمس العالم کی کہانی اس نظام کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ وہ اب 64 برس کے ہیں اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں دو دہائیوں تک کام کرنے کے بعد اپنے آبائی شہر ایبٹ آباد واپس آچکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے ایجنٹ نے رات کے چوکیدار کی نوکری کے عوض ماہانہ 850 درہم (تقریباً 230 ڈالرز) دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ ڈان کو بتاتے ہیں، ’درحقیقت مجھے اس سے نصف رقم ملی۔ ناخواندہ ہونے کی وجہ سے میں سمجھ نہیں پایا کہ مجھے معاہدے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ کفیل جانتا تھا اور اس نے اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘۔

جدوجہد کے درمیان کامیابی کی داستان

تاہم تمام تجربات منفی نہیں ہوتے۔ 25 سالہ شاہ زمان ماجد ریاض میں ویزا کنسلٹنسی فرم سے وابستہ ہیں اور وہ کامیابی کی کہانی سناتے ہیں۔ وہ بذریعہ ای میل ڈان کو بتاتے ہیں، ’مناسب دستاویزات رکھنے والے ہنرمند ورکرز کے لیے خلیجی ممالک میں وہ مواقع موجود ہیں جو پاکستان میں ناقابل تصور ہیں۔ میں پاکستان میں جو کما سکتا تھا، اب اس سے تین گنا زیادہ کماتا ہوں‘۔

حتیٰ کہ شاہ زمان ماجد جیسے کامیاب تارکین وطن بھی نظام کی خامیوں کے معترف ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’سب سے بڑا چیلنج تب آتا ہے جب آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ بہتر نوکری تلاش کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنے موجودہ آجر سے رہائی کے لیے بھیک مانگیں۔ بہت سے لوگ آپ کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھنے کے بجائے آپ کو پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں‘۔

سعودی شہر مدینہ میں تعمیراتی مقام پر پاکستانی تعمیراتی ورکر—تصویر: نیواڈا یونیورسٹی
سعودی شہر مدینہ میں تعمیراتی مقام پر پاکستانی تعمیراتی ورکر—تصویر: نیواڈا یونیورسٹی

تارکینِ وطن معیشت کا اہم حصہ

تارکینِ وطن ورکرز ملک کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق صرف مئی 2025ء میں ترسیلات زر 4.1 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں جوکہ پاکستان کے ماہانہ درآمدی بل کا تقریباً نصف پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ تارکین وطن ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے سب سے بڑے ذریعے کی نمائندگی کرتے ہیں جو مسلسل برآمدات اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملا کر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 2024ء میں 4 لاکھ 50 ہزار پاکستانیوں نے سعودی عرب کا رخ کیا جبکہ 64 ہزار 130 افراد نے متحدہ عرب امارات کا انتخاب کیا۔ یہ متاثر کن اعداد ہیں جو کہانی کا صرف حصہ بیان کرتے ہیں۔ وزارت برائے اوورسیز پاکستانیوں کے اعداد و شمار سے سامنے آتا ہے کہ تقریباً 32 لاکھ شہری یعنی آبادی کا تقریباً 13 فیصد گزشتہ 5 سالوں میں ملک چھوڑ چکے ہیں جن کی اکثریت خلیجی ریاستوں میں منتقل ہورہی ہے۔

اقتصادی ماہر ڈاکٹر عائشہ خان جو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں ہجرت کے رجحانات کا مطالعہ کرتی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’ان میں سے ہر ایک کارکن گھر کے اوسطاً 5 افراد کی کفالت کرتا ہے۔ ان کی بھیجی ہوئی رقم گھریلو غربت کو کم کرتی ہے۔ وہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور چھوٹے کاروباروں کو فنڈز دیتے ہیں جو دیگر لوگوں کی ملازمت کا سبب بنتے ہیں‘۔

لیکن یہ ترسیلاتِ زر ملک میں بھاری ذاتی قیمت کے عوض آتی ہے۔ بہت سے تارکین وطن ورکرز کئی سال اپنے خاندانوں سے دور گزارتے ہیں، سخت اور بعض اوقات غیرمحفوظ ماحول میں کام کرتے ہیں اور نفسیاتی ٹراماز کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر بھی وہ کام کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ملک میں ملازمت کے بہتر مواقع میسر نہیں۔

ورکرز اصلاحات پر ناقص عمل درآمد

مارچ 2021ء میں سعودی عرب نے اہم مزدور اصلاحات کا اعلان کیا جس کے تحت نظریاتی طور پر ورکرز کو ایک سال کے بعد کفیل کی رضامندی کے بغیر ملازمتیں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی۔ دیگر خلیجی ریاستوں نے بھی بدسلوکی کے ہائی پروفائل کیسز کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے جواب میں، بالخصوص قطر ورلڈ کپ 2022ء کے دوران اسی طرح کے اقدامات کیے۔

تاہم ہیومن رائٹس واچ کی محقق حبا زیادین بتاتی ہیں کہ ان اصلاحات میں خامیاں ہیں۔ وہ ڈان کو بتاتی ہیں، ’آجر اب بھی ویزا کی تجدید اور رہائش کے ضامن ہیں۔ بہت سے ورکرز نے بتایا کہ جب وہ پہنچتے ہیں تو انہیں ’رضاکارانہ‘ طور پر استعفیٰ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات نئی تدابیر کو غیرمؤثر بنادیتے ہیں‘۔

ورکرز قرض لے کر رقم ادا کرتے ہیں جبکہ ان سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے جاتے—تصویر: ایکس
ورکرز قرض لے کر رقم ادا کرتے ہیں جبکہ ان سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے جاتے—تصویر: ایکس

اپنا ملک چھوڑنے سے پہلے مالی طور پر استحصال شروع ہوجاتا ہے۔ ریکروٹمنٹ فیس پر پابندی کے ضوابط کے باوجود پاکستانی ورکرز ایجنٹس کو معمول کے مطابق 3 لاکھ روپے سے 5 لاکھ روپے (ایک ہزار 500 سے ایک ہزار 800 ڈالرز کے درمیان) ادا کرتے ہیں جو اکثر قرض لے کر رقم ادا کرتے ہیں۔ متعلقہ ملک پہنچنے پر انہیں وہ نہیں ملتا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہوتا ہے جہاں تنخواہیں نصف ہوجاتی ہیں یا بیان کردہ تفصیلات سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔

شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی

شاید سب سے زیادہ افسوس ناک پاکستانی حکومت کی اپنے سمندر پار شہریوں کے تحفظ میں ناکامی ہے۔ متعدد افراد نے قونصلر خدمات کو نہایت غیر سنجیدہ اور بعض اوقات تو تحقیر آمیز قرار دیا۔

1996ء سے ریاض میں مقیم پاکستانی شہری عامر بشارت اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’قونصل خانے میں ہمارے ساتھ کسی مجرم کی طرح سلوک کیا جاتا ہے جیسے ہم اپنے حقوق کے بجائے مدد مانگ رہے ہوں‘۔ عامر بشارت کے مطابق، حکام ورکز کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ ’آپ نے یہاں آنے کا انتخاب کیا، اب آپ اس سے نمٹیں‘۔

سمندر پار پاکستانیوں کی معاشی اہمیت کے باوجود ان کے ساتھ ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں غیر قانونی بھرتیوں کے طریقوں کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن ان کا نفاذ کمزور ہے۔ پروٹیکٹوریٹ آف امیگرنٹس کے دفاتر جن کا مقصد ہجرت کے عمل کی نگرانی کرنا ہے، میں اکثر ملازمین اور فنڈز کا فقدان ہوتا ہے۔

جب ورکرز سے دریافت کیا گیا کہ وہ ایسے حالات کیوں برداشت کرتے ہیں تو زیادہ تر تارکین وطن ایک ہی جواب دیتے ہیں، ’ہمارے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن ہے؟‘

احمد فراز کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد اب ریاض کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کررہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’میرے والد ایک دکان کے مالک تھے جن کا اب انتقال ہوچکا ہے۔ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کا دارومدار میری تنخواہ پر ہے۔ میرے لیے پاکستان واپس جانا کوئی آپشن ہی نہیں ہے‘۔

تلخ تجربات کے باوجود شمس العالم معترف ہیں کہ ’اگر مجھے موقع ملتا تو میں اگلے روز ہی یو اے ای چلا جاتا۔ پاکستان میں اگر میں خوش قسمت رہا تو پھر بھی میں 25 ہزار کما سکتا ہوں۔ یو ای اے میں، میں اپنے ساتھ ناانصافیوں کے باوجود بچت کرسکتا ہوں‘۔

یہ افسوس ناک حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان اپنے لوگوں کو روزگار کے اچھے مواقع فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ جب تک ملک حقیقی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں کرتا اور تارکین وطن ورکرز کو مناسب طریقے سے تحفظ فراہم نہیں کرتا تب تک اس کے شہریوں کے ساتھ بدسلوکی ہوتی رہے گی جبکہ لوگوں کی مایوسی اور حکومت کی جانب سے ان کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال مزید بدتر ہوتی جائے گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

منیب علی داؤدپوتو

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025