• KHI: Sunny 17.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 10.3°C
  • KHI: Sunny 17.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 10.3°C

درآمد کنندگان کو ڈالر تک رسائی میں مشکلات، قدر سرکاری شرح سے متجاوز

شائع June 5, 2025
ظفر پراچہ نے کہا کہ حج سیزن کے باعث کچھ طلب کا دباؤ ہے
—فائل فوٹو: ڈان
ظفر پراچہ نے کہا کہ حج سیزن کے باعث کچھ طلب کا دباؤ ہے —فائل فوٹو: ڈان

رواں مالی سال ڈالر کی آمد میں اضافے کے باوجود درآمد کنندگان کو غیر ملکی کرنسی تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے، اور ڈالر کی قدر سرکاری شرح سے تجاوز کر گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بینکاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف 20 سے 30 فیصد درآمد کنندگان کو درآمدی ادائیگیوں کے لیے ڈالر خریدنے کی اجازت مل رہی ہے، حالاں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کا کہنا ہے کہ درآمدات پر کوئی باضابطہ پابندیاں نہیں ہیں۔

مئی کے لیے جاری کردہ سرکاری تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، درآمدات میں ماہ بہ ماہ بنیاد پر 8 فیصد کمی آئی ہے، جب کہ تجارتی خسارہ 23 فیصد کم ہوا ہے۔

انٹربینک مارکیٹ کے کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے کہا کہ بینکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ درآمدات کے لیے ڈالر کا بندوبست کریں، جو ایک مشکل حل ہے، کچھ بینکوں کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔

انٹربینک ریٹ سے 2 سے 3 روپے زائد میں ڈالر کی خریداری

عاطف احمد نے وضاحت کی کہ کچھ بینک (جنہیں غیر رسمی طور پر ایکسپورٹ بینک کہا جاتا ہے) برآمدی آمدنی کا زیادہ تر حصہ وصول کرتے ہیں، اور وہی چند ادارے ہیں جو ڈالر کا بندوبست کر پاتے ہیں، تاہم، ڈالر کی قلت برقرار ہے، جس کی وجہ سے ڈالر کی مؤثر قیمت سرکاری شرح سے بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ درآمد کنندگان انٹربینک ریٹ سے 2 سے 3 روپے زائد ادا کر رہے ہیں، کچھ لوگ 285 روپے کے عوض ڈالر خرید رہے ہیں، جب کہ بدھ کو اسٹیٹ بینک کا سرکاری ریٹ تقریباً 282 روپے تھا۔

ظفر پراچہ نے اوپن مارکیٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی گھبراہٹ کے خدشات کو مسترد کر دیا، اور کہا کہ حج سیزن کے باعث کچھ طلب کا دباؤ ہے، اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنا آسان نہیں، کیوں کہ خریداروں کو دستاویزات جمع کرانا پڑتی ہیں، اور تفتیشی اداروں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، ایک خریدار آسانی سے 500 ڈالر تک حاصل کر سکتا ہے، لیکن اگر وہ ایک ہزار ڈالر سے زیادہ خریدے تو ایف آئی اے کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔

ٹریس مارک کے سی ای او فیصل مامسا نے کہا کہ روپے کی قدر پچھلے ہفتے مستحکم رہی کیوں کہ بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا، اگرچہ مارکیٹ میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی افواہیں ہیں، لیکن اس کی کوئی بنیادی وجہ نظر نہیں آتی، یہاں تک کہ اوپن مارکیٹ کی شرحیں بھی مستحکم ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روپیہ آہستہ آہستہ ڈالر کے مقابلے میں گرتا جا رہا ہے، ڈالر خود بین الاقوامی سطح پر کمزور ہوا ہے، ڈالر انڈیکس پر تقریباً 9 فیصد کمی آئی ہے، جو اسے دنیا کی مختلف کرنسیوں کے خلاف جانچتا ہے۔

کچھ کرنسی ڈیلرز کا خیال ہے کہ روپے کی بتدریج گراوٹ ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی ہے، تاکہ بیرونی ادائیگیوں کو سنبھالا جا سکے، اگر روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی جائے تو برآمد کنندگان اپنی آمدنی کو بہتر شرح کے انتظار میں روک سکتے ہیں۔

ایک سینئر بینکر نے کہا کہ برآمد کنندگان اب بھی اپنی آمدنی معمول کے مطابق فروخت کر رہے ہیں، لیکن اگر شرح میں فرق مزید بڑھ گیا تو وہ اپنا لین دین مؤخر کر سکتے ہیں۔

بینکر نے مزید کہا کہ زیادہ رقوم کی ترسیلات زر، زرِ مبادلہ کی شرح کو مستحکم کرنے میں مدد دے رہی ہیں، جو معیشت کے لیے استحکام کا باعث بن رہی ہے، پاکستان کو مالی سال 2025 میں 38 ارب ڈالر کی ترسیلات متوقع ہیں، جب کہ مالی سال 2026 کا ہدف 39 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025