• KHI: Partly Cloudy 19.3°C
  • LHR: Fog 11.8°C
  • ISB: Rain 13.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 19.3°C
  • LHR: Fog 11.8°C
  • ISB: Rain 13.1°C

گوجر خان: پولیس ہیڈ کانسٹیبل ہسپتال کے بیت الخلا میں خواتین کی ویڈیوز بنانے کے الزام میں گرفتار

شائع July 25, 2025
فائل فوٹو: اے ایف پی
فائل فوٹو: اے ایف پی

گوجر خان میں پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے بیت الخلا میں خواتین کی ویڈیو بنانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس سید دانیال نے کہا کہ پولیس کو ایک رہائشی کی جانب سے شکایت موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم، جو کہ پنجاب پولیس کے لاہور دفتر میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل ہے، مبینہ طور پر ہسپتال کے وارڈز کے بیت الخلا میں خواتین کی ویڈیوز بنا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے ملزم کو ہسپتال سے گرفتار کر کے اس کا موبائل فون بھی قبضے میں لے لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران پتا چلا کہ ملزم ایک حاضر سروس افسر ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم کے موبائل فون سے خواتین کی بیت الخلا استعمال کرتے ہوئے متعدد نازیبا ویڈیوز ملی ہیں، جنہیں فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

گوجر خان تھانہ کے ایس ایچ او نذیر احمد گھیبا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پولیس میرٹ پر تفتیش کرے گی اور کسی قسم کی رعایت یا نرمی نہیں برتی جائے گی۔

پولیس نے ملزم کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 354 (خاتون پر حملہ یا زبردستی اور اس کے کپڑے اتارنا)، 292 (فحش مواد کی فروخت وغیرہ)، اور 509 (خاتون کی عزت نفس کی توہین یا جنسی طور پر ہراساں کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سرمد کیانی نے کہا کہ ہسپتال کے بیت الخلا میں کوئی کیمرے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ ہسپتال میں صرف راہداریوں میں کیمرے لگے ہیں، بیت الخلا میں نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے فون سے کس قسم کی ویڈیوز ملی ہیں، یہ پولیس کی تحقیقات پر منحصر ہے۔’

اے ایس پی سید دانیال نے مزید بتایا کہ ملزم کے خلاف پہلے بھی زیادتی کا مقدمہ درج ہو چکا ہے، تاہم وہ کیس بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔

2020 میں درج کی گئی ایک ایف آئی آر کے مطابق، جو ڈان ڈاٹ کام نے دیکھی ہے، ملزم پر الزام تھا کہ اس نے ایک بیوہ کے ساتھ زیادتی کی تھی اور اس کے خلاف دفعہ 452 (زخمی کرنے، حملہ کرنے یا غلط طور پر روکنے کی تیاری کے بعد مکان میں گھسنا)، دفعہ 354 (خاتون کی عزت پامال کرنے کی نیت سے حملہ یا زبردستی) اور دفعہ 34 (متعدد افراد کی مشترکہ کارروائی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تاہم، بعد میں اس نے متاثرہ خاتون سے صلح کر لی تھی، جس کے بعد مقدمہ واپس لے لیا گیا اور اسے بحال کر دیا گیا تھا۔

دریں اثنا مقامی رہائشیوں نے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز سے سرکاری ہسپتالوں میں اس طرح کے واقعات کا سختی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ مارچ میں صوابی پولیس نے ایک ٹک ٹاکر کو گرفتار کیا تھا جو خواتین اور لڑکیوں کی خریداری کے دوران ویڈیوز اور تصاویر بنا کر اپنے اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کرتا تھا۔

اسی طرح دسمبر میں خانیوال میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، جہاں ایک ملزم نے مبینہ طور پر گارمنٹس کی دکان کے چینجنگ رومز میں خواتین صارفین کی موبائل فون سے ویڈیوز بنائیں، بعد ازاں اسے عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا تھا۔

گزشتہ جون میں لاہور کے جوہر ٹاؤن میں ایک نجی گرلز ہاسٹل کے مالکان اور عملے کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا جنہوں نے باتھ رومز میں خفیہ کیمرے لگا کر رہائشی لڑکیوں کی ویڈیوز بنائی تھیں، جس سے خدشہ تھا کہ یہ کلپس ’ڈارک ویب‘ یا سوشل میڈیا پر بیچے اور استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025