سوشل میڈیا پر ہولو کاسٹ کی اے آئی تصاویر کون شیئر کر رہا ہے، مقصد کیا ہے؟
آرٹیفشیل انٹیلی جنس (اے آئی) سے تیار کردہ کئی تصاویر، جو مبینہ طور پر تاریخی واقعات یا نازی دور کے آوشوٹز کی منظر کشی کرتی ہیں، حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، آخر ان کا مقصد کیا ہے؟
جرمن خبر رساں ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ بہت سے صارفین ان جعلی تصاویر کو پہچان لیتے ہیں، تاہم ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسی تصاویر بعض ناظرین کو دھوکا دیتی ہیں، متاثرین کی دل آزاری کرتی ہیں اور ہولوکاسٹ کی تاریخی یادداشت کو مسخ کرتی ہیں۔
اے آئی کے محققین، مورخین اور یادگاری ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ تاریخی واقعات کی یہ مصنوعی تخلیقات ہماری اجتماعی یادداشت کو بگاڑتی ہیں۔
یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز (یو این ایس ڈبلیو) کے اے آئی انسٹی ٹیوٹ کے چیف سائنٹسٹ ٹوبی والش نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ پھر ان چیزوں پر بھی یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں جو واقعی سچ ہیں، آپ صرف ان جعلی چیزوں کو نہیں دیکھتے جن پر یقین نہیں کرتے، بلکہ ان حقیقی چیزوں کو بھی دیکھتے ہیں اور ان پر بھی یقین نہیں کرتے۔
ڈی ڈبلیو کی اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ اے آئی سے تیار کردہ تصاویر اور ویڈیوز ہمارے ماضی کی سمجھ پر کیا اثر ڈالتی ہیں؟ اس قسم کا جعلی مواد کون شیئر کر رہا ہے اور کس مقصد کے لیے؟ اور کیا ہم ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں جعلی بیانیوں کو اصل تاریخی اور مستند حقائق سے فرق کرنا ممکن نہیں رہے گا؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے آئی سے تیار کی گئی ہولوکاسٹ کی تصاویر تسلسل سے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کے بعد بہت سے لوگ ہولوکاسٹ کی اصل تصاویر کو بھی جعلی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور یوں یہودیوں سے ہمدردی کا عنصر کم ہوتا ہے۔












لائیو ٹی وی