امریکی ٹیرف سے ٹیکسٹائل صنعت میں تشویش، علاقائی حریفوں کا مقابلہ کرنا مشکل
پاکستانی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل صنعت نے امریکا کی جانب سے برآمدات پر 19 فیصد نئے ٹیرف کے نفاذ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، ماہرین کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی برآمدی مسابقت متاثر ہو سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق پاکستان کی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل صنعت نے امریکا کی جانب سے پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد نئے ٹیرف کے نفاذ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیا ٹیکس برآمدات میں ممکنہ اضافے کی تمام امیدوں کو زائل کر سکتا ہے۔
یہ اضافی ٹیرف پہلے سے موجود ڈیوٹیوں کے علاوہ لگایا گیا ہے، جسے متوقع حد سے کہیں زیادہ قرار دیا جا رہا ہے، اس سے ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں پاکستان کی بازار میں حصہ داری اور تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس میں اضافے اور مقامی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عالمی منڈی میں مسابقت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ امریکا میں پاکستان کے بڑے حریف ویتنام اور بنگلہ دیش کم پیداواری لاگت کی وجہ سے اس ٹیرف سے متاثر نہیں ہوں گے، جب کہ پاکستانی صنعت پہلے ہی 10 سے 20 فیصد زیادہ لاگت پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کے دھاگے اور کپڑے پر نئے ٹیکسز کی تجاویز سے برآمدی مصنوعات کی لاگت مزید بڑھے گی، حالاں کہ درآمدی یارن اعلیٰ معیار فراہم کرتا ہے، جو عالمی مسابقت میں ضروری ہے۔
2 اپریل کو امریکا نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ریسیپروکل ٹیرف عائد کیا تھا، جسے بعد میں 90 دن کے لیے مؤخر کر کے 10 فیصد عبوری ٹیرف پر کر دیا گیا، یکم اگست سے نیا 19 فیصد ٹیرف نافذ کیا گیا ہے۔
حکومت نے اس فیصلے کو کامیابی قرار دیا، لیکن پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) حسن شفقات نے مایوسی کا اظہار کیا کہ ہم 10 سے 15 فیصد ٹیرف کی امید کر رہے تھے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے 2 ارب 90 کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے امریکا سے 1 ارب ڈالر کی کپاس، 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کے تیل سے متعلق مصنوعات اور سویا بین سمیت دیگر اشیا درآمد کرنے کی پیشکش کی تھی۔
حسن شفقات نے مزید کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کو 19 تا 20 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے، جب کہ بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لاگو ہے، لیکن بھارت کی معیشت مستحکم ہونے کی وجہ سے وہاں کی حکومت اپنے برآمدکنندگان کو سبسڈی، ریبیٹ اور بغیر سود قرضوں سے مدد دیتی ہے، اس لیے فرق کم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت پر ٹیرف برقرار رہا تو امریکا کے کچھ خریدار ممکنہ طور پر پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے خطوط میں خاص طور پر ذکر ہے کہ اگر کوئی مصنوعات دوسرے ملک سے ٹرانس شپ ہو کر آئی ہو تو اس پر اضافی ڈیوٹی لگے گی، جو پاکستان، ویتنام، انڈونیشیا جیسے ممالک کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
ادھر چین اور بھارت ممکنہ طور پر اپنی مصنوعات کو یورپ اور برطانیہ کی منڈیوں کی طرف موڑ سکتے ہیں، جس سے پاکستان کے لیے ان متبادل مارکیٹس میں مسابقت مزید سخت ہو جائے گی۔
پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خرم مختار نے امریکی ٹیرف میں کمی کو خوش آئند قرار دیا، لیکن زور دیا کہ حکومت کو فوری طور پر ٹیکس اصلاحات، توانائی نرخوں میں کمی، ریفنڈ نظام کی بہتری اور قرض تک آسان رسائی جیسے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ یہ صنعت عالمی منڈی میں قدم جما سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی صارفین کو بھی اس نئے ٹیرف کا اثر محسوس ہوگا، جس سے ممکن ہے کہ مجموعی طلب میں کمی آئے، لیکن پاکستان کے برآمدکنندگان کے پاس مزید غفلت کی گنجائش نہیں، اور اسی لیے اصلاحات اب پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکی ہیں۔












لائیو ٹی وی