پاکستان کی اقوام متحدہ کو مؤثر بنانے کیلئے انتونیو گوتریس کی تجویز کردہ اصلاحات کی حمایت
پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے اقوام متحدہ کو زیادہ مؤثر، ہم آہنگ اور بااثر بنانے کے لیے تجویز کردہ اصلاحات کی بھرپور حمایت کی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ، جو ’یو این 80‘ اقدام کا حصہ ہے، اقوام متحدہ کی 2025 میں 80ویں سالگرہ کے موقع پر ادارے کے کام کے طریقہ کار کو جدید بنانے کا ہدف رکھتا ہے۔
جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے خبردار کیا کہ اختیارات کی تکرار، ٹکڑوں میں تقسیم اور پرانے مینڈیٹ وسائل کو حد سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں اور ادارے کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک زیادہ مؤثر نتائج کی توقع نہیں کر سکتے جب تک ہمارے پاس انہیں فراہم کرنے کے ذرائع نہ ہوں، اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو اس قدر پھیلا دیں تو خطرہ ہے کہ ہم نتائج کے بجائے صرف عمل پر توجہ مرکوز کر بیٹھیں گے۔
پاکستان نے بھی ان اصلاحات کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے تجویز کردہ منصوبوں کی بھی حمایت کی ہے، جو ادارے کی 80ویں سالگرہ سے پہلے پیش کیے گئے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کو زیادہ مؤثر، فوری ردِعمل دینے والا، اور جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مینڈیٹ کی قدر کا تعین اس کی عمر کے بجائے نفاذ سے ہونا چاہیے، انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ضرورت پر زور دیا کہ دہرے کام اور باہم متعلقہ ذمہ داریوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔
1945 سے اب تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، اور اقتصادی و سماجی کونسل کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ (ہدایات) کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
40 ہزار سے زائد فعال مینڈیٹ 400 بین الحکومتی ادارے چلا رہے ہیں، جن کے لیے سالانہ 27 ہزار سے زیادہ اجلاس ہوتے ہیں اور روزانہ تقریباً 2 ہزار 300 صفحات پر مشتمل دستاویزات تیار کی جاتی ہیں، جن پر سالانہ 3 کروڑ 60 لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ مینڈیٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اور امن مشن سمیت دنیا کے 190 سے زائد ممالک میں کام کی رہنمائی کرتے ہیں، لیکن ان میں سے بہت سے پرانے، ایک جیسے، یا ضرورت سے زیادہ پیچیدہ ہو چکے ہیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ ہم آہنگی کی کمی ہے، اقوام متحدہ کے کئی ادارے ایک ہی مینڈیٹ کا حوالہ دے کر مختلف منصوبے اور بجٹ پیش کرتے ہیں، جس سے دہراؤ اور اثر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ مؤثر جائزے کم ہی ہوتے ہیں، اکثر مینڈیٹ ہر سال معمولی تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ منظور کر دیے جاتے ہیں۔
گوتریس نے عملے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عمل درآمد کو بہتر بنانے کے لیے، ہمیں ان افراد کو بھی بااختیار بنانا ہوگا جو اسے انجام دیتے ہیں۔












لائیو ٹی وی