• KHI: Partly Cloudy 27.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.8°C
  • ISB: Rain 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 27.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.8°C
  • ISB: Rain 13.2°C

بحری شعبہ قومی معیشت میں 100 ارب ڈالر سے زائد کا حصہ ڈال سکتا ہے، ماہرین

شائع August 14, 2025
— فائل فوٹو: پاکستان نیوی، پریس ریلیز
— فائل فوٹو: پاکستان نیوی، پریس ریلیز

یومِ آزادی کے موقع پر ماہرین نے پاکستان کے بحری شعبے کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا ہے، ان کے مطابق یہ شعبہ قومی معیشت میں سالانہ 100 ارب ڈالر سے زائد کا حصہ ڈال سکتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ نیلی معیشت پائیدار ترقی کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ بدھ کو منعقدہ ایک مشترکہ اجلاس میں کیا گیا جس کا عنوان ’پاکستان کی بِلیو اکانومی کو اُجاگر کرنا: پائیدار ترقی کے لیے بحری صلاحیت کا حصول‘ تھا، یہ اجلاس سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) اور بلیو اکانومی سروسز کے زیرِ اہتمام ہوا۔

اجلاس میں پالیسی سازوں، بحری امور کے ماہرین، ماحولیاتی ماہرین اور سیکیورٹی پروفیشنلز نے شرکت کی، جنہوں نے پاکستان کے بحری شعبے کی ترقی کے لیے ایک جامع روڈمیپ پر تبادلہ خیال کیا، یہ شعبہ اپنی وسیع صلاحیت کے باوجود اب تک زیادہ تر غیر استعمال شدہ ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سُلہری نے نشاندہی کی کہ اگرچہ پاکستان نے 2020 کو ’بلیو اکانومی کا سال‘ قرار دیا تھا، لیکن کورونا وبا نے پیش رفت کو سست کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ بلیو اکانومی صرف بندرگاہوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں غیر استعمال شدہ بحری وسائل، کاربن سنکس اور مینگروو ایکو سسٹمز شامل ہیں، اس لیے ماحولیاتی پائیداری اور انفرااسٹرکچر کی ترقی کے درمیان توازن قائم کرنا ضروری ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو انجینئر احد نذیر نے وضاحت کی کہ اجلاس کا مقصد مختلف شعبوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہے تاکہ بحری صنعت کے لیے ایک اسٹریٹجک منصوبہ تیار کیا جا سکے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بحری وسائل طویل عرصے سے نظرانداز ہوتے رہے ہیں، حالانکہ ان میں بے پناہ ترقی کی گنجائش موجود ہے۔

سابق چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ اور بلیو اکانومی سروسز کے سی ای او نادر ممتاز نے کراچی کی اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کیا، جو پاکستان کا بحری اور فضائی مرکز ہے۔

انہوں نے بڑے شپنگ منصوبوں، کمرشل شپ یارڈز، سمندر سے تیل کی تلاش، فیری سروسز اور ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر میں ٹارگٹڈ سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔

نادر ممتاز نے انکشاف کیا کہ پاکستان کا فریٹ بیڑا ماضی کے 36 جہازوں سے کم ہو کر اب صرف 13 رہ گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی کو خطے کے تجارتی اور بحری مرکز کے طور پر دوبارہ فعال کرنے سے غذائی اور توانائی کے تحفظ میں اضافہ، سمندری خوراک کی برآمدات میں بہتری اور خاص طور پر ڈیجیٹل سی پیک کوریڈور جیسے منصوبوں کے ذریعے ڈیجیٹل تجارت میں وسعت آ سکتی ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز (نِما) کے صدر وائس ایڈمرل (ر) آر احمد سعید نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ دنیا کی 80 تا 90 فیصد تجارت سمندری راستوں سے ہوتی ہے، انہوں نے بندرگاہی نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے، ٹیرف ڈھانچے کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی کارکردگی کے معیار کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستان کی بندرگاہیں زیادہ مسابقتی بن سکیں اور انہیں عالمی سپلائی چین میں مؤثر طریقے سے شامل کیا جا سکے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025