اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے سے تعاون مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے، ایران
ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نےکہا ہے کہ تہرن، اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ مکمل طور پر تعاون ختم نہیں کر سکتا، تاہم انسپکٹرز کی واپسی کا فیصلہ ملک کے سیکیورٹی حکام کے اختیار میں ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کا یہ بیان اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے 2 ماہ بعد سامنے آیا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ فیصلے کی وجہ آئی اے ای اے نے اسرائیلی اور امریکا کی جانب سے جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت نہ کرنا ہے، حکام کے فیصلے اور پارلیمان کی جانب سے منظور کیے گئے نئے قانون کے تحت اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے انسپکٹرز کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔
عباس عراقچی نے کہا کہ ہم ادارے کے ساتھ مکمل طور پر تعاون ختم نہیں کر سکتے، انہوں نے وضاحت کی کہ ایران کے بوشہر ایٹمی بجلی گھر میں آنے والے ہفتوں میں نئے فیول راڈز نصب کیے جانے ہیں، جس کے لیےآئی اے ای اے کے انسپکٹرز کی موجودگی ضروری ہوگی۔
انہوں نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت، انسپکٹرز کی واپسی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے فیصلے کے ذریعے ممکن ہوگی۔
واضح رہے کہ جون کے وسط میں اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی مقامات پر حملے کیے تھے، جس میں رہائشی علاقے بھی متاثر ہوئے تھے، امریکا نے بھی فردو، اصفہان اور نطنز کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے تھے۔
جنگ کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان ایک نئے جوہری معاہدے پر بات چیت تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔
ایران نے بعد میں کہا تھا کہ ادارے کے ساتھ تعاون ایک نئی شکل اختیار کرے گا اور رواں ماہ کے آغاز میں ادارے کے ڈپٹی ہیڈ نے تہران کا دورہ کیا تھا تاکہ مذاکرات کیے جا سکیں۔
اس موقع پر ایران کے نائب وزیرِ خارجہ کاظم غریب آبادی نے کہا تھا کہ ایران اور ادارے نے مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
گزشتہ ہفتوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران یورینیم افزودگی اور آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون پر کسی معاہدے پر راضی نہ ہوا تو وہ 2015 کے معاہدے کے تحت ختم کی گئی اقوامِ متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کر سکتے ہیں۔











لائیو ٹی وی