پاک-سعودیہ شراکت داری: وہ معاہدہ جس کی گونج دنیا نے سنی!

شائع September 19, 2025

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا دونوں کے لیے ایک اہم اور گیم چینجنگ لمحے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پہلی نظر میں یہ ایک رسمی معاہدہ ہے جو وعدہ کرتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کا دفاع کریں گے۔ یہ نیٹو کے آرٹیکل 5 کے اجتماعی دفاع کے عزم سے مماثل ہے جو کہتا ہے کہ ایک شرکت دار پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

تاہم اگر غور کریں تو لگتا ہے کہ معاہدے کے دائرہ کار میں دانستہ طور پر ابہام کی گنجائش چھوڑی گئی ہے جس سے گمان ہوا کہ جیسے یہ صاف الفاظ میں کہے بغیر اسٹریٹجک پیغام بھیجنے کا ایک طریقہ ہے۔

واضح پیغام تو یہ ہے کہ سعودی عرب اب امریکا کو اپنی سلامتی کا واحد ضامن نہیں سمجھتا اور وہ اپنے دفاعی نظام کو ادارہ جاتی شکل دینے کی تیاری کررہا ہے۔

اس معاہدے کے حوالے سے جو کچھ عوام کو بتایا گیا وہ مختصر اور رسمی تھا۔ سرکاری بیان میں صرف ایک مختصر وضاحت دی گئی جس میں کہا گیا کہ معاہدے کا مقصد ’دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کو مضبوط بنانا ہے‘۔

نپے تُلے الفاظ میں سفارتی پردہ برقرار رکھا گیا لیکن اس کے پیچھے ہونے والی گفتگو زیادہ سنجیدہ تھی۔ چونکہ یہ معاہدہ مبہم ہے یا شاید جان بوجھ کر اسے یوں چھوڑا گیا ہے، اس کے بعد ہونے والی بحث بالخصوص مغربی ماہرین نے سب سے پہلے ایک بڑے امکان پر توجہ مرکوز کی ہے جو یہ ہے کہ کیا اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو جوہری تحفظ کی چھتری بھی فراہم کرے گا؟

ایک سینئر سعودی اہلکار سے مغربی میڈیا کی جانب سے یہی سوال پوچھا گیا کہ کیا یہ معاہدہ پاکستان کو اس طرح کی کوئی ضمانت فراہم کرنے کا پابند کرسکتا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا، ’یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جس میں تمام فوجی ذرائع شامل ہیں’۔

سعودی مبصرین نے ٹی وی پر اس نکتے پر زور دیا۔ سیاسی تجزیہ کار منیف الحربی نے کہا، ’دونوں ممالک ضرورت پڑنے پر اپنے پاس جو بھی فوجی ٹولز ہوں گے، استعمال کریں گے۔۔۔ کسی بھی امکان کو خارج نہیں کیا جارہا، حتیٰ کہ دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے طاقتور ہتھیار کے استعمال کا امکان بھی نہیں‘۔

یہ تبصرے مزید قیاس آرائیوں کو ہوا دیتے ہیں کہ معاہدے میں جوہری ہتھیاروں کے اشتراک کے بارے میں کوئی خفیہ شق شامل ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریاض کا اپنا میڈیا سسٹم اور عوامی دانشوروں کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد حاصل کرنا ہے۔

مغربی حلقوں میں قیاس آرائیوں کے باوجود جوہری استعمال پر پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ اسلام آباد کو صرف اپنے دفاع اور اپنے خلاف جارحیت کے جواب میں جوہری صلاحیت تیار کرنے کا پابند کیا گیا تھا اور اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ ہے، دوسری ریاستوں تک اپنی جوہری صلاحیتوں کی توسیع نہیں۔

مغربی دنیا کا ردعمل

اس کے باوجود واشنگٹن شاید اسے خطرے کی گھنٹی کے طور پر محسوس کرے گا لیکن وہ ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے احتیاط سے سوچے گا۔

اسٹیمسن سینٹر کے ایک اسکالر کرسٹوفر کلیری نے ڈان کو بتایا، ’امریکا، پاکستان یا سعودی عرب میں سے کسی کا دشمن نہیں ہے لیکن وہ ممکنہ طور پر جوہری اشتراک کے کسی بھی واضح انتظام کو تشویش کی نگاہ سے ضرور دیکھے گا‘۔

ان کا خیال ہے کہ جوہری اشتراک اور دیگر ممالک کا دفاع کرنا حقیقی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا کہ نظریہ میں آسان لگتا ہے۔ حتمی حقائق جو بھی ہوں، اس معاہدے نے سیاسی بات چیت کی سمت ہی بدل دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابہام بھی جارحیت کے امکان کو روکنے کی ایک شکل ہے۔

سعودی عرب نے بھی واضح طور پر معاہدے کے زیادہ عام یا معمول کے تعمیراتی حصوں کی وضاحت پیش کی ہے۔

جیسا کہ اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کے پریس اتاشی جمال الحربی نے عرب نیوز میں لکھا، ’نئے معاہدے کا مقصد متعدد سطحوں پر فوجی تعاون کو توسیع دینا ہے جن میں کلیدی عناصر میں آپریشنل تیاری اور باہمی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ فوجی مشقیں، اُبھرتے ہوئے خطرات خاص طور پر دہشت گردی اور سرحد پار سے ہونے والی شورشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ شامل ہیں۔

’اس کے علاوہ، اس میں دفاعی صنعت میں تعاون شامل ہے جس میں ٹیکنالوجی کی منتقلی اور فوجی سازوسامان کی مشترکہ پیداوار کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں کی پیداوار شامل ہیں جبکہ اس میں سعودی افواج کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی فوجیوں کی تاریخ پر ایک دوسرے کی تربیت اور مدد کرنے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس میں سائبر سیکیورٹی، ڈرونز اور خلائی دفاعی نظام جیسے نئے شعبوں میں بھی مل کر کام کرنا شامل ہے‘۔

واضح الفاظ میں یہ معاہدہ صرف بیان بازی سے کھڑی کی جانے والی ڈھال نہیں۔

اگر شراکت دار مشترکہ منصوبہ بندی، باہمی آپریشن معیارات کو توسیع، انٹیلی جنس کا اشتراک اور اپنی دفاعی صنعتوں کو منسلک کرتے ہیں تو نتیجتاً 1990ء میں امریکا کی جانب سے مشرقِ وسطٰی میں امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کے بعد سے یہ خلیجی سلامتی میں انتہائی اہم تبدیلی ہوگی۔

اگر وہ گردشی تعیناتیوں کے ساتھ ایک حقیقی، فعال ملٹری تشکیل دیتے ہیں، ہنگامی حالات کے لیے تیار منصوبہ بندی کرتے ہیں اور لاجسٹکس کا اشتراک کرتے ہیں تو یہ ایک مضبوط سیکیورٹی اتحاد ہوگا۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو یہ صرف ایک مہنگا شو ہوسکتا ہے جس میں حقیقی طاقت نہیں ہوگی۔

معاہدہ یا ٹریٹی؟

دستاویز کو ٹریٹی کے بجائے معاہدہ کہنے پر لوگوں میں اس بحث نے جنم لیا ہے کہ یہ معاہدہ قانونی طور پر کتنا مضبوط ہے۔

ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے صدر احمر بلال صوفی نے ڈان کو بتایا کہ ویانا کنونشن ایک سادہ تعریف فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 2 ٹریٹی کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ ’ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو ریاستوں کے درمیان تحریری شکل میں ہوتا ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو‘۔

اس اصول کے مطابق معاہدہ کیا کہلاتا ہے، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس معاہدے کا مطلب کیا ہے۔ اگر ممالک ان وعدوں کو تحریری شکل دیتے ہیں جو وہ برقرار رکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تو یہ قانونی طور پر ایک ٹریٹی ہے پھر چاہے دستاویز کا عنوان جو بھی ہو۔

اس کا مقصد کس کو روکنا ہے؟

اس معاہدے پر دستخط کا وقت ہی سب بتاتا ہے۔ یہ معاہدہ دوحہ میں ہائی پروفائل اسرائیلی حملے کے بعد ہوا اور خلیجی دارالحکومتوں میں ایک وسیع تر احساس کے درمیان ہوا کہ امریکا شاید سلامتی کا ویسا خودکار ضامن نہ ہو جیسا وہ پہلے تھا۔ ریاض کا عوامی مؤقف یہ ہے کہ معاہدہ کسی ایک ریاست کے خلاف نہیں لیکن نجی طور پر پیغام واضح ہے۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سعودی عرب بنیادی طور پر کس کو متنبہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے چاہے وہ ایران ہو، اسرائیل ہو یا کوئی اور، حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔ یہ خاص طور پر اس صورت میں ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی روایتی و ایٹمی صلاحتیں نہ صرف عملی طور پر طاقتور ہیں بلکہ ایک مضبوط پیغام بھی دیتی ہے۔

یہ پیغام دو طریقوں سے کام کرتا ہے۔ اسلام آباد کے لیے یہ معاہدہ پاکستان کے محض علاقائی کھلاڑی سے زیادہ ہونے کے دعوے کی توثیق کرتا ہے۔ ریاض کے لیے یہ پاکستان، چین اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا کے قریب رہنے کی ایک زبردست حکمت عملی کی حمایت کرتا ہے۔

منیف الحربی کے بقول، ’سعودی عرب ایک اسٹریٹجک پارٹنر کی جگہ دوسرے کو نہیں دیتا، وہ بس اپنی شراکت کو بڑھاتا ہے، پھر وہ شراکت مغرب کے ساتھ ہو، چین کے ساتھ یا روس کے ساتھ۔۔۔ پاکستان کے ساتھ معاہدہ اس طرز پر پورا اترتا ہے‘۔

مسئلہ بھارت

یہ نئی صف بندی ریاض کو نئی دہلی کے ساتھ ایک عجیب پوزیشن میں ڈال سکتی ہے۔ بھارت نے سعودی عرب کو توانائی، تجارت اور سفارتی تعاون کے اعتبار سے پروان چڑھانے میں مستقل طور پر کام کیا ہے اور وہ اپنے اہم توانائی فراہم کنندہ اور اپنے اسٹریٹجک حریف کے درمیان بڑھتے سلامتی کے تعاون پر خوش نہیں ہوگا۔

معاہدے پر نئی دہلی کا عوامی مؤقف یہ ہے کہ بھارت ’مضمرات کا مطالعہ کرے گا‘۔ اس سے نئی دہلی اس مخمصے میں پھنس گیا ہے کہ بدلتے ہوئے دفاعی توازن کو نظر انداز کیے بغیر تجارتی تعلقات کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے جس کے لیے اب دفاعی تجزیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے جیسا کہ سعودی سفارتخانے کے میڈیا اتاشی نے کہا، ’یہ معاہدہ بھارت کو اس معاملے میں زیادہ محتاط کر دے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے‘۔

ایک اسلامی نیٹو؟

یہ وہ چیز ہے جس پر طویل عرصے سے نظریہ تشکیل دیا گیا ہے۔ ماضی کی سعودی کوششیں جیسے کہ 2015ء کے اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن، آپریشنل سے زیادہ علامتی ثابت ہوئیں۔

لیکن یہ نیا معاہدہ بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ مشترکہ دفاع کے وعدوں کو حقیقی، عملی اقدامات سے جوڑتا ہے۔

بریگیڈیئر فیصل الحمد نے مشورہ دیا کہ ’ابھی یہ دو طرفہ ہے لیکن یہ نہ بھولیں کہ سعودی عرب کا خلیج تعاون کونسل کے ساتھ پہلے سے ہی ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہے۔ پاکستان کو شامل کرنے سے 7 ممالک بنتے ہیں۔ ہم جلد ہی اس میں وسعت دیکھ سکتے ہیں۔ کم از کم یہ ایک اسلامی اسٹریٹجک اتحاد کی جانب اب تک کا سب سے مضبوط قدم ہے‘۔

منیف الحربی نے مزید آگے بڑھتے ہوئے دلیل دی کہ ’یہ معاہدہ علاقائی سلامتی کو از سرِ نو تشکیل دیتا ہے۔ یہ صرف ریاض اور اسلام آباد تک محدود نہیں ہوسکتا۔ دیگر ممالک اس سعودی-پاکستانی شراکت داری میں شامل ہو سکتے ہیں‘۔

آیا مصر، ترکیہ یا دیگر ممالک اس شراکت داری میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، یہ سیاست پر منحصر ہے کہ وہ کتنا اہم دکھنا چاہتے ہیں اور آیا وہ لچکدار سیکیورٹی پلان چاہتے ہیں یا سنجیدہ و مضبوط معاہدے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

باقر سجاد سید
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025