• KHI: Partly Cloudy 23.7°C
  • LHR: Cloudy 15°C
  • ISB: Cloudy 15.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 23.7°C
  • LHR: Cloudy 15°C
  • ISB: Cloudy 15.8°C

موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں کیڑوں کی افزائش کو کس طرح متاثر کررہی ہے؟

شائع September 26, 2025

برطانیہ کے آل پارٹی پارلیمانی گروپ برائے بیز، پولینیٹرز اور انورٹیبریٹس کے ساتھ ایک حالیہ تصادم نے حیران کُن انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے ایک گروپ تشکیل دیا جو اس بات پر توجہ مرکوز کرے گا کہ حشرات موسمیاتی تبدیلی، فطرت، تجارت اور انسانی صحت کے لیے کتنے اہم ہیں۔

اس اقدام نے پاکستان کے لیے اپنی حشرات کی آبادی کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔ جیسا کہ ہمارا ملک بار بار سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی لہروں کا سامنا کررہا ہے، یہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح ہمارے ماحولیاتی نظام کے اہم ترین مگر غیرمعروف معماروں کو متاثر کر رہی ہے؟ یہ اثرات پاکستان کی غذائی تحفظ اور صحت عامہ پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟

پاکستان میں حشرات کی عالمی اور قومی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید خطرہ لاحق ہیں۔ ان کا اجتماعی کام زندگی کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ یہی کیڑے فصلوں کی پولی نیشن میں مدد کرتے ہیں جو ہماری خوراک کے اہم ذرائع ہیں جبکہ یہ نامیاتی مادے کو گلانے میں بھی معاون ہوتے ہیں جو ہماری مٹی کو افزودہ کرتے ہیں۔

یہ مخلوق اکثر فطرت اور ہماری خوراک کی فراہمی کو صحت مند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں ہمالیہ سے لے کر انڈس ڈیلٹا تک بہت سے مختلف قدرتی ماحول ہیں جو مختلف اقسام کے حشرات الارض کا مسکن ہیں۔

یہ جانور ماحول اور معیشت دونوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر پولن گرینز لے جانے والے کیڑے پھلوں، سبزیوں اور کپاس جیسی فصلوں کو اُگانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں جو پاکستانی زراعت میں اہم ہیں۔

حشرات، کاشتکاری میں مدد کے علاوہ خشک علاقوں میں غذائی اجزا کو ری سائیکل کرنے میں مدد کرتے ہیں جبکہ پہاڑی علاقوں کے الپائن فلورا کے نازک توازن کو برقرار رکھنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ آبی حشرات، پانی کے معیار کا اشارہ دیتے ہیں اور یہ دریاؤں و جھیلوں میں قدرتی فوڈ چین کا حصہ ہیں۔

ہمارے پاس زیادہ قابلِ اعتماد معلومات نہیں ہیں لیکن کچھ انواع جیسے کشمیر قیصر ہند تتلی کے بارے میں خیال پایا جاتا ہے کہ وہ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ ان اسپیشیز کو کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔

شہد کی مکھیاں پولن گرین لے جانے کا سب سے اہم ذریعہ ہوتی ہیں جوکہ بڑی فصلوں اور جنگلی پودوں کو اُگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے بغیر کھیتوں میں بہت کم خوراک پیدا ہوگی۔ پولی نیشن کے علاوہ لیڈی بگ جیسے کیڑے بھی دیگر کیڑوں کو کھا کر فصلوں کے تحفظ میں مدد کرتے ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کو زیادہ نقصان دہ کیمیکل استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بیٹلز اور کینچوڑے مردہ پودوں اور جانوروں کو توڑنے میں اہم ہوتے ہیں جس سے مٹی بہتر ہوتی ہے اور زمین کی زرخیزی ختم نہیں ہوتی۔

یہ کیڑے فوڈ چین کی بنیاد ہوتے ہیں، پرندوں، ایمفیبین اور میمالیہ (حیواناتِ شیر خوار) کے معاون ہوتے ہیں۔ کیڑوں کی آبادی میں کمی ایک بحران ہے۔

پاکستان میں حالیہ سیلابوں کی طرح، سیلاب بڑے پیمانے پر حشرات کی اموات کا باعث بنتے ہیں کیونکہ بڑے پیمانے پر سیلاب اور طغیانی، زمینی حشرات اور ان کے بِلوں کی ایک بڑی تعداد کو پانی میں غرق یا بہا دیتی ہے۔

یہ واقعات ان کی رہائش کے لیے موزوں مقامات کی بربادی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ یہ آبی ریلے اُن پودوں اور مٹی کو تباہ کر دیتا ہے جس پر یہ کیڑے کھانے کے لیے انحصار کرتے ہیں جبکہ یہی ان کی آماجگاہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پانی بھی اکثر آلودہ ہوتا ہے جوکہ ان کے لیے زہر آلود ثابت ہوسکتا ہے۔

سب سے اہم اور متعلقہ خدشہ فینولوجیکل عدم مطابقت ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے حشرات اور ان کے کھانے کے وقت کے دوران ہم آہنگی ختم ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ درجہ حرارت تبدیل ہوتا ہے، خدشات بڑھ جاتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں اپنی پسند کے پھولوں کے کھلنے سے پہلے ہی ہائبرنیشن سے بیدار ہوسکتی ہیں یا جب تک وہ پھول کھل نہیں جاتے جن سے وہ غذا حاصل کرتی ہیں تب تک تتلیوں کی لائف سائیکل متاثر ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں صحرائے تھر سے قراقرم کے پہاڑوں تک، وقت اور کیڑوں کے لائف سائیکل میں عدم مطابقت کے مسائل ماحولیاتی نظام کے کام کرنے کے طریقے کو سنجیدگی سے متاثر کر سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی وجہ سے کچھ کیڑوں کے انواع شمالی علاقوں کی جانب ہجرت کررہے ہیں۔ گرم درجہ حرارت اور بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلیوں سے بیماری پھیلانے والے کیڑے جیسے مچھر، ٹھنڈے و اونچے مقامات پر مسکن بنا رہے ہیں حالانکہ یہ ماحول پہلے ان کے لیے سازگار نہیں تھا۔

اسلام آباد اور پشاور جیسے شہروں میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ان شہروں میں ڈینگی جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے کیونکہ مچھر شمالی علاقوں میں پھیل رہے ہیں جبکہ مقامی حشرات کی انواع کو بدلتے حالات سے موافق ہونے میں مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان میں بہت سے مختلف ماحولیاتی نظام ہیں جو مختلف قسم کے حشرات کا گھر ہیں جبکہ یہ ماحول اور معاشی لچک دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مقامی شہد کی مکھیوں کی اقسام بڑی فصلوں جیسے کپاس، پھلوں اور تیل کے بیجوں کی پولی نیشن کرکے کاشتکاری میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ ان فصلوں میں سے کچھ اہم برآمدات ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو مکھیوں کی ان پولی نیشن خدمات کی معاشی اہمیت کو قومی سطح پر سراہا نہیں جاتا۔

کاشتکاری کے علاوہ شمالی پاکستان میں کیڑوں کی بہت سی خصوصی انواع، حیاتیاتی تنوع کے لیے اہم ہیں اور ماحولیاتی سیاحت کو راغب کر سکتی ہیں۔ سمندر یا دریاؤں کے نظام میں بسیرا کرنے والے حشرات پانی کا معیار جانچنے کے کلیدی اشاریے ہوتے ہیں جبکہ لیڈی بگ جیسے فائدہ مند کیڑے، پودوں کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے نقصان دہ کیمیکلز کے قدرتی متبادل ہوتے ہیں۔

عالمی سطح پر کیڑوں کی تجارت میں اضافہ ہورہا ہے جوکہ پاکستان کے لیے مواقع اور خطرات دونوں پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کیڑوں کو کنٹرول کرنے کے اپنے قدرتی طریقے تخلیق کرسکتا ہے اور برآمد کرسکتا ہے جبکہ وہ پولی نیشن کی صنعت کو بھی وسعت دے سکتا ہے۔ کیڑوں کی افزائش اور فروخت دنیا میں ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔

اگر حشرات کی تجارت کو منظم نہیں کیا جاتا تو یہ حیاتیاتی تحفظ کے لیے خطرہ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کہ ورورا مائٹس کے عالمی پھیلاؤ نے دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

پاکستان پہلے ہی ممالیہ جانوروں اور رینگنے والے جانوروں کی غیر قانونی تجارت سے نمٹنے میں جدوجہد کررہا ہے لیکن اسے کیڑوں کی تجارت کے حوالے سے اپنے مخصوص قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ یہ منفرد طریقوں سے ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تحفظ کو متاثر کرتا ہے۔

پاکستان میں مختلف سرکاری محکمے خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کی حفاظت کی وزارتیں، غیر فقاری جانوروں کی حفاظت کی ذمہ دار ہیں۔ کچھ اہم قوانین میں پاکستان پلانٹ قرنطینہ ایکٹ (1976ء) اور پاکستان ٹریڈ کنٹرول آف وائلڈ فاؤنا اینڈ فلورا ایکٹ (2012ء) شامل ہیں جو بین الاقوامی قوانین (CITES) کی پیروی کرتا ہے۔ لیکن ان قوانین کے باوجود حشرات کی حفاظت کے طریقہ کار میں اب بھی بڑا خلا موجود ہیں۔

اگرچہ اینٹولوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کچھ یونیورسٹیز نے کیڑوں پر تحقیق کی ہے، پاکستان کے پاس اب بھی ان کی آبادی کا پتا لگانے کے لیے ایک بھی قومی ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے خاص طور پر اس لیے کیونکہ یہ چھوٹی مخلوقات کاشتکاری اور خوراک کی حفاظت کے لیے بہت اہم ہیں۔

پاکستان کو حشرات الارض اور دیگر کے تحفظ کے لیے چار اہم شعبہ جات میں فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک گیر سروے اور کیڑوں کی تحقیق کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ موسمیاتی تبدیلی ان پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ محفوظ قدرتی علاقوں کو مضبوط بنانا ہوگا اور ریلوے پٹریوں و سڑکوں کے ساتھ والی زمین کو سبز راستوں میں تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ یہ ان کے مسکن ہوا کرتے تھے۔

حشرات پر قابو پانے کے طریقوں کے ذریعے کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کم کرکے اور پولی نیشن کرنے والے دوستانہ کیڑوں کی حوصلہ افزائی کرکے کاشتکاری کو مزید ماحول دوست بنانا ہوگا اور ایک قومی ایکشن پلان بنانا ہے جس میں ملک کی آب و ہوا کی حکمت عملیوں میں اس طرح کے جانوروں کو بھی شامل کیا جائے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری موسمیاتی اہداف اور موافقت کے منصوبوں میں شہد کی مکھیوں اور دیگر پولن گرینز لے جانے والے کیڑوں میں مضبوط سرمایہ کاری کو شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔

حشرات کا یہ بحران ہمارے خوراک کے تحفظ کے نظام، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی موافقت کے لیے خطرہ ہے۔ 2022ء اور 2025ء کے سیلابوں نے آفات سے نمٹنے میں ہماری کمزوری کو آشکار کیا ہے جبکہ یہ بھی بتایا ہے کہ ہمارے ماحولیاتی نظام کی بحالی میں حشرات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی میں شدت آتی جائے گی، کیڑوں کی غذا کا نظام متاثر ہوگا اور وہ ہجرت کرجائیں گے یا معدوم ہوجائیں گے۔ میں بچوں کے لیے ایک صحت مند بچپن کا تصور اس وقت تک نہیں کرسکتا کہ جب تک وہ تتلیوں کا پیچھا کرنے یا جگنوؤں کو پکڑنے جیسے تجربات سے نہ گزریں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
علی توقیر شیخ

لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025