پروکٹر اینڈ گیمبل کا پاکستان میں کاروبار سمیٹنے، تھرڈ پارٹی ڈسٹری بیوٹر پر انحصار کا اعلان
امریکی ملٹی نیشنل کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل ( پی اینڈ جی) نے پاکستان میں اپنی پیداواری اور کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک میں صارفین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے ’تھرڈ پارٹی ڈسٹری بیوٹرز‘ پر انحصار کرے گی، یہ فیصلہ گروپ کے عالمی تنظیمِ نو پروگرام کا حصہ ہے۔
پراکٹر اینڈ گیمبل نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی پیداوار اور تجارتی سرگرمیاں ختم کر دے گی اور ملک میں صارفین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے تیسرے فریق کے ڈسٹری بیوٹرز پر انحصار کرے گی۔
کمپنی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم کاروبار کو معمول کے مطابق اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوجاتا، جس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں‘۔
مزید کہا گیا ہے کہ ’اس فیصلے کی روشنی میں پی این جی پاکستان اور علاقائی معاون ٹیمیں فوری طور پر منتقلی کی منصوبہ بندی شروع کریں گی، جس میں سب سے پہلے توجہ پی اینڈ جی کے ملازمین پر دی جائے گی‘۔
بیان کے مطابق، وہ ملازمین جن کی ملازمتیں اس فیصلے سے متاثر ہوں گی، انہیں یا تو پی اینڈ جی کی بیرونِ ملک سرگرمیوں میں مواقع فراہم کیے جائیں گے یا پھر علیحدگی کے پیکجز دیے جائیں گے، جو مقامی قوانین، کمپنی کی پالیسیوں اور پی اینڈ جی کی اقدار و اصولوں کے مطابق ہوں گے۔
پاکستان میں پراکٹر اینڈ گیمبل کے تحت کئی معروف برانڈز دستیاب ہیں، جن میں پیمپرز، ایریل، آلویز، سیف گارڈ، ہیڈ اینڈ شولڈرز، پینٹین، اولے اور وِکس شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، جیلٹ شیور پاکستان نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ اپنی پیرنٹ کمپنی پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) کی جانب سے اپنی عالمی تنظیمِ نو کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان میں کاروبار بند کرنے کے فیصلے کے بعد ممکنہ طور پر اسٹاک مارکیٹ سے اپنے انخلا (ڈی لسٹنگ) کا جائزہ لے گی۔
کمپنی نے اسٹاک ایکسچینج میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا کہ جیلٹ پاکستان جلد ہی بورڈ اجلاس بلائے گی تاکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے ممکنہ انخلاس سمیت کاروبار کی بندش کے لیے درکار اقدامات کا جائزہ لے۔
اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس پاکستان (آئی سی اے پی) کے سابق صدر اسد علی شاہ نے پی اینڈ جی کے انخلا کو ’سرمایہ کاری کے ماحول کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی‘ قرار دیا۔
انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’پروکٹر اینڈ گیمبل کا پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ ایک گہری حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ یہاں صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار کرنا بتدریج ناقابلِ عمل ہوتا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب بڑی عالمی کمپنیاں سامان سمیٹنے لگیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ ہماری پالیسی کی غیر یقینی صورتحال، کرنسی کے خطرات اور ریگولیٹری بدنظمی نے مارکیٹ کی کشش کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہ صرف ایک کمپنی کا معاملہ نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی اس تاثر کی عکاسی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے بجائے اسے سزا دیتا ہے‘۔













لائیو ٹی وی