’ہندو قوم پرستوں اور طالبان کے قدامت پسند نظریات میں کافی مماثلت ہے‘

شائع October 14, 2025

افغانستان کے طالبان حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے گزشتہ ہفتے بھارت کے معاہدے کو اکثر لوگ دشمن کے دشمن کو دوست بنانے کے اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جوکہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا واضح حوالہ ہے۔

اگرچہ بھارت نے ابھی تک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن افغان وزیر خارجہ کا نئی دہلی میں پُرتپاک استقبال کیا گیا جبکہ دونوں ممالک نے عوامی سطح پر دلیرانہ بیانات بھی دیے جن پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا۔ اس کے بعد افغان سرحد پر فوجی کارروائی بھی دیکھنے میں آئی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس اشتعال انگیزی کا تعلق نئی دہلی سے تھا۔

تاہم یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ہندو حقوق کے لیے اہم، ہندو قوم پرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی 100 سالہ تقریبات ہیں۔ مارکسسٹز نے طالبان اور آر ایس ایس کی ذہنیت کے ملاپ کے حوالے سے ایک اصطلاح کہی تھی جوکہ اب استعمال نہیں ہوتی۔ انہوں نے اسے ’قدامت پسندی میں اتحاد‘ قرار دیا۔

ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ تعلق کوئی حیران کُن بات نہیں لگتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی اس وقت دیکھنے کو ملی تھی کہ جب جنرل ضیا الحق پاکستان پر حکومت کر رہے تھے حالانکہ وہ ملک کو سخت اور متنازعہ قوانین کے ذریعے ایک تاریک دور کی طرف لے جا رہے تھے۔

اور یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جس شخص نے ضیاالحق کی غیر جمہوری حکومت کو بھارت کی جانب سے تسلیم کیا، وہ اس وقت کا بھارتی وزیر خارجہ تھا جوکہ آر ایس ایس کا پرانا رکن رہ چکا تھا۔

1978ء میں اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگا کر جمہوریت کی مختصر معطلی پر اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں اٹل بہاری واجپائی نے جنرل ضیاالحق اور جنتا پارٹی کی حکومت کے درمیان تعلقات کی تعریف کی جس بھارتی حکومت میں پہلی بار آر ایس ایس کا کلیدی کردار دیکھنے میں آیا تھا۔

بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کے دوران ضیاالحق سے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کی درخواست کرنے سے خصوصی طور پر گریز کیا۔ دنیا کے دیگر رہنما بھٹو صاحب کے لیے اپیل کررہے تھے جن میں اندرا گاندھی بھی شامل تھیں حالانکہ وہ 1977ء کے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد اقتدار سے باہر ہوچکی تھیں۔

ایک موقع پر اٹل بہاری واجپائی کے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی جو 26 ماہ تک حکومت میں رہے، انہیں پاکستان کے آمر حکمران نے پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز سے نوازا۔ بھارت کی کسی بھی حکومت نے پاکستان کے ساتھ ایسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ایک وقت تھا جب وزیرِاعظم نریندر مودی کی بیرونِ ملک رہنماؤں سے تعلقات قائم کرنے کی برسوں پرانی کوششوں میں ایک واقعہ ایسا بھی پیش آیا جو ستم ظریفی کی نذر ہو گیا۔ مودی کی ازبکستان کے رہنماؤں کے ساتھ خوشگوار ملاقاتیں ہورہی تھیں۔

حقائق یہ ہیں کہ ازبکستان میں تاریخی شخصیات جیسے ظہیرالدین بابر اور تیمور کو قومی ہیرو مانا جاتا ہے جبکہ بھارت میں ہندو قوم پرست انہیں ولن کے طور پر جانتے ہیں۔ بھارت میں آر ایس ایس کے حامی اکثر بھارتی مسلمانوں کو تضحیک آمیز انداز میں ’بابر کی اولاد‘ یعنی پہلے مغل بادشاہ کی نسل کہتے ہیں۔ (مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے پر آر ایس ایس اور پختون رہنما مغل حکمرانوں خاص طور پر بابر کے خلاف دشمنی کی بنیاد پر ایک جیسے نظریات رکھتے ہیں۔)

تاہم تاشقند کے رہنما اس فرقہ وارانہ صورت حال سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے جو بھارت میں اُن کے قومی ہیرو کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور متضاد صورت حال میں آر ایس ایس بھارتی مسلمانوں پر یہ الزام لگاتی ہے، پھر چاہے وہ درست ہو یا غلط کہ وہ اپنے ملک بھارت کے مقابلے میں مکہ اور مدینہ سے زیادہ وفادار ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے ولی عہد، امیر اور شیخ نہ صرف بھارت کے دورے کرتے ہیں بلکہ مودی گلے لگا کر ان کا پرتپاک استقبال بھی کرتے ہیں۔

’قدامت پسندی میں اتحاد‘ کا ایک اور پہلو ہمیں تاریخی نقطہ نظر سے بھی دیکھنا چاہیے۔ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی جو 1975ء سے 1977ء تک رہی، کے دوران یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ بھارت کے ہندو اور مسلمان احیا پسند گروہ دونوں ہی جیل میں تھے۔

یہ گرم جوش رویہ جیل سے باہر اور سرحدوں کے پار بھی دیکھنے میں آیا۔ نریندر مودی سب کو حیران کرتے ہوئے، غیراعلانیہ طور پر جب لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کرنے آئے تو دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ کابل کے دورے سے واپس آ رہے تھے۔

تاہم جب آر ایس ایس کے ایک اور رہنما نے پاکستان کے لیے نرم رویہ اختیار کیا اور محمد علی جناح کے لبرل ازم اور سیکولرزم کی تعریف کی یعنی ایل کے ایڈوانی نے کراچی میں قائداعظم کے مزار پر عقیدت مندانہ پیغام لکھا تو آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں طوفان برپا ہوگیا تھا۔ کے ایل ایڈوانی کو رد کردیا گیا اور ان کا وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے کا خواب ختم کر دیا گیا۔

آر ایس ایس کے لیے معاملہ کچھ یوں تھا کہ ان کی نظر میں ضیا الحق اچھے جبکہ محمد علی جناح برے تھے۔

افغان طالبان کے وزیر خارجہ، امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو مدعو نہ کیے جانے پر خوب بات ہوئی۔ تاہم افغان وزیرخارجہ نے جلد اپنا مؤقف تبدیل کیا اور اطلاعات کے مطابق، اگلی پریس کانفرنس میں مرد صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین صحافی موجود تھیں۔

لیکن اس تمام بحث میں ایک اور دلچسپ بات نظر انداز ہوگئی اور وہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی جمہوریت کے موجودہ وزیرِاعظم نے کبھی کسی خاتون، نہ کسی مرد اور نہ ہی کسی اور کو اپنی کسی پریس کانفرنس میں مدعو کیا کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی پریس کانفرنس ہی نہیں کی۔ یہ بات طالبان کے خواتین کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے حوالے سے نہیں کہی جا رہی جوکہ واقعی شدید قابلِ مذمت ہے۔

کابل کبھی جنوبی ایشیا میں فیشن کا مرکز ہوا کرتا تھا جوکہ ظاہری اور روحانی طور پر بھی ایک متوازی معاشرہ تھا۔ اُس وقت جب شمالی بھارت اور پاکستان کی متوسط طبقے کی خواتین لباس کے ضابطوں میں الجھی ہوئی تھیں اور فلمی ہیروئنز درختوں کے پاس دوپٹہ اوڑھے گانوں پر رقص کر رہی تھیں، کابل کی خواتین جدید اسمارٹ اسکرٹس پہن کر یونیورسٹی جایا کرتی تھیں جو وہ اکثر پیرس کے فیشن ڈیزائنرز کی تازہ ترین کلیکشنز سے خریدتی تھیں۔

بھارت کے کلاسیکی موسیقی کے استاد ولايت خان، کابل کے بادشاہ ظاہر شاہ کے دربار میں ستار بجایا کرتے تھے۔ اسی طرح افغانستان کے محمد سرہنگ کا بھارت میں فارسی شاعری اور بھارتی راگوں کے ماہر گلوکار کے طور پر بہت احترام کیا جاتا تھا۔

یہ سب اپنی جگہ لیکن بھارت میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر طالبان ناراض ہوں۔ دیوبند کے مدارس جنہوں نے طالبان کے نظریے کو جنم دیا، ویلنٹائن ڈے جیسے مواقع پر ہندوتوا گروہوں کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہوسکتے ہیں۔

خواتین موبائل فون استعمال نہ کریں، جینز نہ پہنیں یا مردوں کے ساتھ گھل مل کر تقریبات میں شریک نہ ہوں، ان معاملات پر دونوں گروہ یکساں سوچ رکھتے ہیں۔

مدھو سداشیو گولوالکر جنہیں آر ایس ایس کا سب سے بااثر رہنما مانا جاتا ہے، یہ سمجھتے تھے کہ جدیدیت نے خواتین کو گمراہ کردیا ہے۔ 2017ء میں دی کاروان میگزین نے نریندر مودی کے اقتدار کے تین سال مکمل ہونے پر آر ایس ایس پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق مدھو گولوالکر نے ایک شعر کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’نیک عورت وہ ہے جو اپنا جسم ڈھانپ کر رکھے‘۔

گولوالکر کا کہنا تھا کہ ’ماڈرن‘ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ماڈرنزم کا مطلب ہے کہ وہ اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے سامنے ظاہر کریں۔ کیا اخلاقی پستی ہے!’ اس طرح کی ذہنیت کی اور بھی مثالیں ہیں جن میں سے آپ کسی کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025