پانی کا بلبلہ
’بھارت ہمارا پانی چوری کر رہا ہے‘، ’بھارت ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنانے بند کرے‘، ’بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بند کرے‘، ’پانی کا مسئلہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے‘ اور اس طرز کی دیگر شہ سرخیاں میری طرح شائد آپ کی نگاہ سے بھی گزری ہوں۔
یہ پروپیگنڈہ اور شوروغوغا کرنے میں دائیں بازو کے اخبارات اور ہندوستان مخالف گروہ جیسے جماعت الدعوہ، برابر کے شریک ہیں۔
ہر سال کسی نہ کسی موقع پر کوئی سیمینار یا ریلی اس موضوع پر منعقد کی جاتی ہے اور ہندوستانی شاطر رویے کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی کو خوب کوسا جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران دریاؤں میں طغیانی کے باعث آنے والے سیلاب کی ذمہ داری بھی ہندوستان پر ہی ڈالی گئی۔
سن 2010 میں جماعت الدعوہ نے لاہور میں مال روڈ پر ہندوستان کے خلاف ایک جلوس نکالا جس سے حافظ سعید صاحب نے خطاب کیا۔ جماعت کے اخبار ’الجرار‘ نے پاکستان کے واٹر کمیشنر جماعت علی شاہ پر ملک سے غداری کا الزام لگایا اور بتایا کہ وہ ہندوستانی نقطہ نگاہ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
اسی سال نوائے وقت اخبار کے زیر انتظام ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کے مطابق جماعت علی شاہ کی وجہ سے ہندوستان ہمارا پانی چوری کر نے میں مگن ہے۔
اس سال کے آخر میں جماعت علی شاہ کو وزیر اعظم کے حکم پر برخواست کر دیا گیا۔ اخبارات کو بتایا گیا کہ ہندوستان نے نمو ڈیم تعمیر کیا لیکن شاہ صاحب نے اس اطلاع کے باوجود اس منصوبے کو رکوانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔
سیانے کہتے ہیں کہ ’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘ اور یہ کہ اس طرح کے مسائل کے کئی پہلو ہوتے ہیں جن کو سمجھے بغیر بات نہیں بنتی۔ نعرے بازی اور شہ سرخیاں لگانے کے لیے زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ مسائل کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بصیرت ضرور درکار ہوتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا مسئلہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ تقسیم کے ایک سال بعد پانی کے معاہدے کی میعاد ختم ہوئی تو ہندوستانی پنجاب کی جانب سے پانی روک لیا گیا۔
اس بارے میں پاکستان کی ایک مشہور نصابی کتب پر نظر ڈالتے ہیں (جو سید مودودی کے اقوال و نظریات سے بھرپور ہے)۔ شیخ محمد رفیق کی رقم کردہ کتاب ’مطالعہ پاکستان (لازمی) برائے طلبہ بی اے، بی ایڈ، ایم بی بی ایس و بی ایس سی انجینرنگ و دیگر گریجویشن کورسز‘ میں نہری پانی کے تنازعے پر مندرجہ ذیل بحث موجود ہے۔
”برصغیر کی تقسیم سے جو معاشی مسائل پیدا ہوئے، ان میں سے ایک نہری پانی کا تنازعہ بھی تھا جس نے دوسرے تنازعات کی طرح ہندوستانی حکومت کے معاندانہ طرز عمل کی بدولت جنم لیا۔ مشرقی پنجاب کے وزیر اور افسر پاکستان پر مہلک ترین وار کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے اور 31 مارچ 1948 کو ثالثی کمیشن کی مدت کار ختم ہوتے ہی بھارت نے ان تمام نہروں کا پانی منقطع کر دیا جو بھارت سے پاکستان داخل ہوتی تھیں۔ پاکستان کے لیے بھارت کا یہ رویہ انتہائی پریشان کن تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک وفد مئی کے آغاز میں دہلی بھیجا گیا۔ بالاخر 4 مئی کو پاکستانی وفد نے ایک مشترکہ اعلان پر دستخط کیے اور پانی کی سپلائی عارضی طور پر بحال کی گئی۔ چوہدری محمد علی کے تبصرے کے مطابق ’اس مسئلے میں مشرقی پنجاب نے شاطرانہ چال چلی اور مغربی پنجاب نے اپنے فرض سے غفلت برتی۔ اس کے نتائج پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے“۔ اسی کتاب میں ایک اور مقام پر سرسری طور پر سندھ طاس معاہدے کا ذکر موجود ہے۔
’سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان نے تین مشرقی دریاؤں (ستلج، بیاس اور راوی) کو بھارت کی ملکیت تسلیم کر لیا۔ اس طرح پاکستان کے جو علاقے متاثر ہوئے، ان کو پانی پہنچانے کے لیے لنک کینالز تعمیر کی گئیں۔‘
یہاں مصنف اس بات کا ذکر کرنا بھول گئے کہ پانی کی بندش کھلوانے میں ہندوستانی وزیر اعظم نہرو نے بنیادی کردار ادا کیا اور یہ کہ چوہدری محمد علی، مودودی صاحب کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے، اسی لیے تو جماعت اسلامی نے 1956 کا آئین ’عین اسلامی‘ قرار دیا تھا، اور یہاں چوہدری صاحب نے دو جملوں کی بنیاد پر ایک مفروضہ ہی کھڑا کر دیا۔
سندھ طاس معاہدہ آٹھ سال کی محنت کے بعد دونوں فریقین نے 1960 میں منظور کیا تھا۔ اس معاہدے کو پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک لازوال شہرت حاصل ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ تین جنگوں کے باوجود کبھی اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
رہی بات پانی چوری اور ڈیم بنانے کی تو دائیں بازو کے دانشوروں سے گزارش ہے کہ کبھی ورلڈ بینک کی ویب سائٹ کھولیں اور سندھ طاس معاہدے کے ضمیمے C ،D ،E کا بغور مطالعہ کریں۔ (قارئین یہ ضممیے اس لنک سے حاصل کر سکتے ہیں)۔
ان میں سے پہلا ضمیمہ ہندوستان کو مغربی دریاؤں سے کاشت کاری کے لیے پانی استعمال کرنے کی اجازت پر مبنی ہے، دوسرا ہندوستان کو مغربی دریاؤں پر بجلی بنانے کی اجازت پر مبنی ہے اور تیسرا ضمیمہ مغربی دریاؤں سے پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت پر مشتمل ہے۔
جہاں تک پانی چوری اور نمو ڈیم کا تعلق ہے، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپریل 2010 میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کے دوران بتایا کہ؛
’بھارت ہمارا پانی چوری نہیں کر رہا۔ برائے مہربانی اس غلط فہمی میں مت پڑیں اور قوم کو بھی اس معاملے میں گمراہ نہ کریں۔ در حقیقت ہم خود اپنا پانی ضائع کر رہے ہیں‘۔
ہمارے بہت سے ’سورما‘ لکھاری، جو روز اپنے کالموں کے ذریعے تاریخ کا جنازہ نکالتے رہتے ہیں، یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ ’آئندہ تمام جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی‘۔
اس پہلو پر بہت سا تحقیقی مواد موجود ہے اور شواہد کے مطابق ایسا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ بر اعظم شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیا تک درجنوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ پانی کے معاملے میں تعاون کر رہے ہیں اور فی الحال پانی کی وجہ سے کوئی بھی جنگ ہونے کا امکان نہیں ہے۔
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں