• KHI: Partly Cloudy 19.6°C
  • LHR: Fog 11.5°C
  • ISB: Rain 13°C
  • KHI: Partly Cloudy 19.6°C
  • LHR: Fog 11.5°C
  • ISB: Rain 13°C

واشنگٹن یاترا

شائع November 1, 2013

امریکی صدر بارک اوبامہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کر رہے ہیں—فوٹو اے ایف پی۔
امریکی صدر بارک اوبامہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کر رہے ہیں—فوٹو اے ایف پی۔

کئی دہائیوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی صرف ایک شق پرمشتمل تھی: کشمیر- اب اس چھوٹی سی فہرست میں ڈرون کا اضافہ اور ہوا ہے-

وہ زمانہ کافی عرصہ ہوا جا چکا ہے جب عالمی پیمانے پر پاکستان کو لوگ عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اور اس کو ترقی پزیر دنیا کے ترجمان کی حیثیت حاصل تھی- اب تو، دو تشدد سے بھری جنگوں، قابو سے باہر نکلتی ہوئی آبادی اور تباہ حال معیشت کے ہاتھوں پاکستان کو دنیا ایک عالمی بھکاری کے طور پر افسوس بھری نظروں سے دیکھتی ہے-

ہمارے وزیر اعظم کبھی گہری سوچ کے حامل انسان نہیں سمجھے گئے، خصوصاً خارجہ معاملات کے حوالے سے تو بالکل بھی نہیں- واشنگٹن میں حالیہ دنوں میں اپنے تیار شدہ نوٹس کو الٹتے پلٹتے ہوئےانہوں جو تاثر دیا وہ بھی اسی خیال کو تقویت دیتا تھا- اوریہ بات وزارت خارجہ کے اہل کاروں کے لئے بھی خوشی کا باعث رہی ہوگی-

درحقیقت، ہمارے سفارتی حلقہ کے لئے تو یہ بہت خوشی کا موقع ہے: کافی عرصے کے بعد انہیں میں سے ایک فرد امریکہ میں پاکستانی سفیر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے- اگرچہ کہ ایک لمبے عرصے تک یہ اہم عہدہ سیاسی طور پر مامور کردہ شخصیات ہی پُر کرتی رہی ہیں اور یہ کہ تقریباً ان تمام لوگوں نے اپنا کام اطمینان بخش طریقے سے انجام دیا ہے-

بہرحال واشنگٹن میں ایمبیسی میں سفارتی عہدیدار کی واپسی سے وزارت خارجہ کے آفس میں ہمارے پروفیشنل سفارتی اہل کاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے- اصل میں، ایک ریٹائرڈ سفارت کار، افتخار مرشد نے دی نیوز میں ایک حالیہ مضمون ( The Hamlet in Nawaz Sharif) میں تقریباً یہی بات کہی ہے-

چند ایک پیشہ ورانہ طور پر ممتاز سفارت کاروں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کچھ پرانے لوگوں کا ذکر کرنا بھول گئے جنہوں نے بڑے امتیازی کارنامے انجام دئے تھے: جیسے جمشید مارکر اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا نام ذہن میں آتا ہے- اور ہم یہ بات بھی نہیں بھول سکتے ہیں کہ پراسرار میمو گیٹ اسکینڈل سے پہلے حسین حقانی بھی واشنگٹن کے سیاسی حلقوں میں کافی باعزت اور موثر پاکستانی نمائندے سمجھے جاتے تھے-

اپنے مضمون میں، انہوں نے کامران شفیع کے بطور ہائی کمشنر انتخاب پر بھی اعتراض کیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے کالموں میں فوج اور آئی آیس آئی کی مخالفت کی تھی-

عموماً پیشہ ور سفارت کاروں نے ان دونوں اداروں کی پرزور حمایت کی ہے، مگر یہ ان کےاپنے ضمیر کا معاملہ ہے- مگر ہم سب سے یہ امید رکھنا کہ ہم فوجی حکمرانی کو قبول کرلیں یا آئی ایس آئی کی سیاست میں مداخلت پر تنقید نہ کریں تو یہ بات فوج کے ساتھ ضرورت سے زیادہ وفاداری کے مترادف ہوگی-

اور بالکل بلا ضرورت، وہ کامران شفیع کے خلاف ایمبیسی فنڈ میں ہیر پھیر کے مبہم قسم کے الزامات لگاتے ہیں جب وہ نوے کی دہائی میں لندن میں پریس منسٹر تھے-

میں اس کالم نویس کوکافی سالوں سے جانتا ہوں اور بالکل ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ان کو ہمیشہ وقار اور عزت کا حامل شخص پایا- یہ حقیقت کہ انہوں نے ہمیشہ جمہوری اقدارکی پاسداری کی ہے ان کو ایک بہترین ہائی کمشنر بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی-

سیاسی اور فوجی حکومتیں دونوں ہی ممتاز شخصیتوں کی تقرری عموماً ان سے قربت کی وجہ سے کرتی تھیں اور ان ملکوں کو یہ بات پتہ ہوتی تھی کہ ان کے تعلقات براہ راست اقتدار کے ایوانوں سے ہیں لہٰذا ان کے پیغامات بلا تاخیر اور براہ راست وزارت خارجہ کو بیچ میں لائے بغیر ان تک پہنچ جائینگے-

کئی سال پہلے میں نے واشنگٹن کے مشن میں کام کیا ہے اس لئے میں یہ بات بآسانی کہہ سکتا ہوں کہ سفارت کاری کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے اور کوئی بھی شخص جس میں واجبی ذہانت ہو اس کے گر خاصی جلدی سیکھ سکتا ہے-

یقینی طور پر، ماضی میں کئی نہایت بری سیاسی تقرریاں بھی کی گئیں جو اپنے وفاداروں کو انعام کے طور پر نوازنے کے مقصد سے تھیں- لیکن یہ طریقہ امریکہ میں بھی رائج ہے جہاں خاصی بڑی تعداد میں سفیروں کا تقرر صدر کی انتخابی مہم میں مالی تعاون کی بنیاد پر ہوتا ہے- میں خود چند نہایت ناکارہ پیشہ ور سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ بعض بےحد لائق لوگوں سے بھی ملا ہوں-

اب ہم نوازشریف کے امریکہ کے دورے کی طرف واپس چلیں، جس سے زیادہ امیدیں تو پہلے بھی نہیں تھیں، لیکن نتیجہ اس سے بھی بہت کم نکلا- کشمیر اور ڈرون دونوں پر باتیں بھی ہوئیں جو ان مسئلوں کے سنجیدہ حل سے زیادہ پاکستانی عوام کے لئے تھیں کیونکہ ویسے بھی اس کے حل کی کوئی امید نہیں ہے-

ہمیں اب یوں بھی اس خیال سے متفق ہوجانا چاہئے کہ دنیا کو کشمیر کے مسئلے سے اتنی زیادہ دلچسپی نہیں ہے جتنی کہ ہمارے چند پاکستانیوں کو ہے- دراصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر ٹی وی اسٹوڈیوز، جی ایچ کیو اور دفتر خارجہ میں ہوتے ہیں کیونکہ اب یہ بات کھانے کی میز پر زور و شور سے کرنے کی نہیں رہی ہے-

جہاں تک ڈرونز کا تعلق ہے، اقوام متحدہ کے ترتیب کردہ ایک حالیہ تحقیقاتی مطالعہ کے مطابق 400 شہریوں اورتقریباً 2000 شدت پسندوں کی ہلاکت ہوئی ہے- لیکن دی ایکنومسٹ (The Economist) میں شایع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق فاٹا کے علاقے میں ڈرونز کی کارروائیوں کو کافی حمایت حاصل ہے-

تین سال پہلے جب میں اپنی کتاب کے لئے ریسرچ کررہا تھا تو کے پی کے ایک سابق چیف سکریٹری نے مجھے بتایا کہ زمینی حالات سے جو لوگ جتنا زیادہ دور رہتے ہیں اتنے ہی زیادہ ڈرونز کے بارے میں وہ شور و غوغا مچاتے ہیں-

دی ایکنومسٹ ( The Economist) شمالی وزیرستان کے ایک بزرگ کے بارے میں بتاتا ہے جو کہتے ہیں- "کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ سچی بات بتائے، ڈرونز دہشت گردوں کو مار رہے ہیں لیکن دہشت گرد معصوم لوگوں کا قتل کررہے ہیں۔"

ثبوت موجود ہے کہ ماضی میں فوج اور سیاسی قائدین دونوں نے ڈرونز کی کارروائیوں کی خفیہ طور پر حمایت کی- ان زمینی حقائق کی موجودگی میں واشنگٹن میں ان مسئلوں کو اٹھانا وقت ضایع کرنے کے برابر تھا- ظاہر ہے کہ نوازشریف صرف لوگوں کو دکھلانے کیلئے ایکٹنگ کررہے تھے-

لیکن عام طور سے لیڈر حضرات اپنے غیرملکی دوروں میں یہی کرتے ہیں- زیادہ تر اصل معاملات پردے کے پیچھے ہی طے پاتے ہیں اور سیاست دان کیمرے کے سامنے محض تصویریں کھنچواتے ہیں-

بہرحال، وزیراعظم کے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ہی امریکہ نے خاموشی سے 6۔1 بلین ڈالرز کی معاشی اور فوجی امداد بحال کردی- جو امریکہ نے اس وقت روک دی تھی جب پاکستان کے ساتھ تعلقات میں زبردست کشیدگی آئی تھی-

یہ حقیقت ہے کہ  مئی کے مہینے سے واشنگٹن میں ہمارا کوئی سفیر نہیں تھا جب شیری رحمان نے استعفیٰ دیا، لیکن اس سے ہمارے تعلقات میں کسی طرح کا کوئی فرق نہیں پڑا، بات چیت کے تمام راستے کھلے ہوئے تھے-

ذاتی سفارت کاری کا اب ریاستوں کے درمیان تعلقات کے سلسلے میں کوئی بہت اہم رول نہیں ہے- ایک لیڈراب بہ وقت ضرورت اپنے ہم منصب کے ساتھ جب چاہے کسی بھی بحران کے موقع پر دفترخارجہ کو نظر انداز کرکے ٹیلیفون سے براہ راست بات کرسکتا ہے-

بہرحال، اسنوڈن کے انکشافات کے بموجب امریکہ کی رازداری سے بات سننے کی عادت کی وجہ سے سفارتی تھیلے میں ایک مہر بند لفافہ ہی سب سے زیادہ محفوظ طریقہ رہ جاتا ہے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025