(نوٹ : پاکستانی سیاست سے متعلق ڈان میں شائع ہونے والی ایک تہلکہ خیز خبر کے پس منظر کی اِس سچی کہانی میں علی عمر خان ایک اصل کردار کا فرضی نام ہے، تاہم کہانی کے تمام واقعات سچے ہیں۔)


۔—فائل فوٹو

علی عمر خان  نے مجھے اس وقت چونکا کر رکھ دیا جب انہوں نے میر ے سامنے انکشاف کیا کہ ان کے پاس ایک ایسی دستاویز ہے جس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف ، وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے دیگر بھائیوں کے رقوم کے غیر قانونی دھندے یا منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔

اس کا کہنا تھا کہ اس دستاویز کی سب سے ا ہم بات یہ ہے کہ یہ ایک ناقابل تردید عدالتی اعتراف ہے جو کسی اور نے نہیں بلکہ خود نوازشریف کے قریب ترین دوست اور سابق وزیرخزانہ اور خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک مجسٹریٹ کے سامنے اپنے ہاتھ سے لکھی تحریرمیں کیا ہے۔

اسحاق ڈار سابق فوجی ڈکٹیٹر جنر ل پرویز مشرف کے دور میں خفیہ طور پر یہ بیان دینے کے بعد حکومت کی خصوصی اجازت کے ساتھ سعودی عرب گئے اور بعد میں میاں نواز شریف کے سمدھی بھی بن بیٹھے۔

ہم سردیوں کے موسم میں علی عمر خان کے گرم ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ علی عمر خان صدر آصف علی زرداری کے ایک انتہائی قریبی ساتھی اور اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایک اہم پرزہ سمجھے جاتے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے شناسا تو تھے مگر علی عمر خان نے کبھی مجھے کو ئی خبر نہیں دی تھی۔

صبع جب علی عمر خان کے سٹاف کی طرف سے مجھے رابطہ کرکے ایک خصوصی گاڑی میں پراسرار طریقے سے علی عمر خان  کے گھر میں ان سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا تو میں سمجھ گیا تھا کہ خان صاحب کو ضرور میڈیا کی ضرورت پڑ گئی ہے۔

اسی صبع میں نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگیویجز کے شعبہ ابلاغیات میں "لیکس" کے موضوع پر لیکچر دیا تھا جس میں، میں نےکلاس کو بتا یا تھا کہ صحافیوں، باالخصوص تحقیقاتی صحافیوں کو اکثر بعض افراد اور ادارے اپنے یا اپنے مخالفین کے بارے میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خفیہ معلومات اشاعت کی غرض سے یا نشر کرنے کے لئے دیتے ہیں لیکن ایسی معلومات کی اشاعت کے موقع پر ذریعے کا نام ظاہر نہ کرنا اصولی بات تو ہے تاہم ذریعے کے دفتر کا ذکر کردینا ایک بہتر عمل ہوتا ہے۔

ایک رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے میری نظر میں اکثر یہ معلومات ادارے یا افراد اپنے ذاتی یا ادارہ جاتی فائدے کے لئے دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ معلومات ذاتی عناد پر بھی دی جاتی ہیں۔ صحافتی تاریخ میں عناد پر مبنی خبرکی سب سے بڑی مثال واٹر گیٹ سکینڈل ہے۔

سترہ جون انیس سو بہتر کو امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کے موقع پر امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی کے واٹر گیٹ ہوٹل میں واقع امریکی ڈیمو کریٹک جماعت کے دفتر کی خفیہ نگرانی کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب عمارت میں خفیہ آلات نصب کرنے والوں کو امریکی ایجنسی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے گرفتار کرلیا۔

بعدازاں ایجنسی کے اس وقت کے قائم مقام سربراہ مارک فیلٹ نے واشنگٹن پوسٹ کے شہرہ آفاق رپورٹر باب ووڈ ورڈ کو اس خبر کی چھان بین کرنے اور اس کا سراغ وائٹ ہاوس میں بیٹھے رچرڈ نکسن تک نکالنے میں مدد دی۔

باب ووڈ ورڈ اور ان کے ساتھی رپورٹر کار ل برنشٹاین کے ناموں سے شائع ہونے والی یہ خبر تاریخ کا حصہ ہے مگرلوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس وقت ایف بی آئی کے قائم مقام سربراہ مارک فیلٹ نے یہ خبر رچرڈ نکسن کو سبق سکھانے کے لئے دی تھی کیونکہ نکسن نے ایجنسی میں اس وقت مارک فیلٹ کو نظر انداز کر کے ایجنسی سے باہر اپنے ایک قریبی ساتھی ایل  پیٹرک گرے کو ایف بی آئی کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس فیصلے کا مارک فیلٹ کو بروقت پتہ چل گیا تھا۔ اس سے قبل فیلٹ ایجنسی میں طویل ترین دورانیے یعنی انیس سو چوبیس سے انیس سو بہتر میں اپنی بیماری اور بعد میں وفات تک ایف بی آئی کے سربراہ جان ایڈگر ہوور کے ماتحت کے طور پر کام کررہے تھے اورسربراہ بننا ان کا فطری خواب تھا۔

یہی وجہ تھی کہ مارک فیلٹ باب ووڈ ورڈ کا خفیہ ذریعہ بنے۔ مارک فیلٹ نے اکیانوے سال کی عمر میں یکم جون دوہزار پانچ کو ایک پریس کانفرنس میں پہلی بار خود کو ظاہر کیا اور تصدیق کی کہ وہ ہی باب ووڈ ورڈ کا سورس تھے۔ اس سارے واقعے کا تفصیلی تذکرہ باب ووڈ ورڈ کی کتاب ، دی سیکرٹ مینَ میں موجودہے۔

ایسا نہیں ہے کہ تمام خبریں ذاتی مفادات یا عناد و دشمنی کی بنیاد پرہی لیک کی جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات ایماندار افراد نشاندہی کرنے والے یا وسل بلوور کا کردار بھی ادا کر جاتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال اس صدی کے سب سے بڑے لیکس یعنی وکی لیکس کے مرکزی کردار جولین اسانج کو دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ خط وکتابت کی تفصیلات فراہم کرنے والے قدرے خاموش کردار امریکی فوجی بریڈلی میننگ ہیں جو آج بھی امریکی ریاست کی طرف سے سزا کاٹ رہے ہیں۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق وکی لیکس کو بریڈلی کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات خود ان کے اپنے کسی ذاتی فائدے یا عناد کی وجہ نہیں تھیں۔

البتہ اس واقعے کے بعد جولیان اسانج اور بریڈلی میننگ کی خوب کردار کشی کرنے کی ریاستی کوششیں بھی سامنے آئیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں حقوق کی آشنائی کے باعث اب ایسے بہت سے کردار سامنے آتے رہیں گے جو حکومت اور ریاست کی تمام تر احتیاطوں کے باوجود سچ بیان کرنے کا اپنا بےلوث کردار ادا کرتے رہیں گے۔

خیر وآپس آتے ہیں میر ی کہانی کی طر ف، جو کہ پاکستا ن کے سابق وزیراعظم نوازشریف کے قریبی عزیز اور پارٹی راہنما کی بے وفائی سے متعلق تھی۔

علی عمر خان نے مجھے بتایا کہ وہ یہ خبر مجھے اس لئے دے رہے ہیں کہ نوازشریف کے بھائی اور اس وقت کے وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی آرمی چیف سے خفیہ ملاقاتوں کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد حکومت شریف برادران کے کرتوت خود سامنے آئے بغیر سامنے لانا چاہتی ہے۔

یہ بات واضح تھی کہ یہ ایک سیاسی نوعیت کی سٹوری تھی جوکہ ایک حکومتی لیک تھا۔ کبھی حکومت سے تو کبھی اپوزیشن سے صحافی ایسی خبریں شوق سے لیتے اور شائع کرتے ہیں کیونکہ ایک تو ایسی خبروں کی تصدیق کرنا قدرے آسان ہوتا ہے اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ایسی اندرونی تہلکہ خیز خبریں صحافیوں کی بہتر کارکردگی کا ثبوت بھی بنتی ہیں۔

اصول کا تقاضا تو یہی ہے کہ دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کو ذریعے کا نام بتائے بغیر اشارہ ضرور دیا جائے کہ یہ خبر کس حکومت، اپوزیشن، یا کیمپ کی طرف سے دی گئی ہے۔

بعض صحافی چند ٹکوں یا مفادات کی خاطر فوج اور سول خفیہ اداروں کی ہدایات پر بھی خبریں شا ئع یا نشر کرتے ہیں اور عموما صحافیوں یا مدیروں کو ان کا پتہ بھی ہوتا ہے۔

یہ خبر اگلے روز ڈان ٹی وی کی شہ سرخی بن گیی۔ اسی شام ڈان نیوز کے معروف ترین انگریزی پروگرام نیوز آئی میں بھی اس پر بات کرنے کے لیے مجھے مدعو کیا گیا۔

میں نے تفصیلی خبر لکھ کر ڈان اخبار کو بھی بھیجی۔ ڈان نیوز ٹی وی کے ڈپٹی ایڈیٹر کی ہدایت پر میں نے ڈان ا خبار کے ایڈیٹر سے بھی فون پر بات کی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تمہار ی خبر بہت اچھی ہے مگر یہ بتاؤ کہ یہ خبر آج ہی ، اسی ماحول میں کیوں بریک ہوئی ہے؟

ان کا سوال بڑا ہی بنیادی تھا، مگر سچ یہ ہے کہ اپنے ذریعے اور اسکے ساتھ کیے وعدے کو نبھانے کے لئے میں نے ان کے سوال کا گول مول جواب دیا اور انہیں علی عمر خان کے بارے میں بتانے سے بھی گریز کیا۔

ظاہر ہے وہ اس سے مطمئن نہ ہوئے تاہم انہوں نے مجھے خبر لکھ کر بھیجنے کی ہدایت کی۔ اگلے دن خبر کی اشاعت سے میری خوب ہمت افزائی ہوئی ۔

اس سے قبل جب میں اس خبر کی مختلف ذرائع سے تصدیق کروا رہا تھا تو رہ رہ کر مجھے یہ اخلاقی اصول ستا رہا تھا کہ میں خبر کا پورا پس منظر بیان کروں۔

ایک طرف یہ اصول تھا تو دوسری طرف علی عمر خان سے اس خبر کے بعد مزید کئی خبروں کی امید۔ سب سے بڑھ کر علی عمر خان کو اپنی خبروں اورمحلاتی سازشوں میں اپنے ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کا خواب۔ آپ ہی بتایئے کہ اصول کو آگے لاتا یا وعدہ وفا کرتا؟

میری خبر حاضر ہے

http://archives.dawn.com/archives/145620

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

کاظم شاہ Aug 22, 2012 04:35am
صحافت کے میدان میں‌ نئے آنے والوں کے لئے یہ ایک بہت ہی اچھی اور معلوماتی سٹوری ہے جو حقیقت بھی ہے اورسبق بھی۔اعزازسید صحافت میں ایک ایسے صحافی ہیں جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگرہم صحافت سے مخلص ہیں۔
سبوخ سید Aug 22, 2012 11:05am
گڈ شاہ جی .علی عمر خان ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سکندر Aug 22, 2012 08:55pm
میرے خیال میں یہ مضمون یونیورسٹیوں میں صحافت کے طالبعلموں کر پڑھانا چا ھیے۔ مضمون پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ھم عوام تک پہنچنے والی تمام خبریں صحافیوں کی محنت کا ہی نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے والے کرداروں کا کھیل بھی ہوتی ھیں۔ ڈان اردو ویل ڈن اینڈ کیپ اٹ اپ۔۔۔۔
نا زیہ Aug 22, 2012 08:57pm
پلیز اسے انگلش میں بھی ترجمہ کرادیں، میں اسے ایک دوست کو بھیجنا چاہتی ھوں
مبین قمر ملک Aug 28, 2012 12:20am
یہ مضمون اتنا زبردست ہے کہ صحافت کہ ہر طالب علم کو ضرور پڑھنا چاییے حقیقت میں ایسا ہی ہوتا یے۔