ترکی — زبانوں کی جنم بھومی

شائع August 24, 2012

۔— فائل فوٹو

شکاگو: فارسی کی کہاوت اُردو میں کہی جاتی ہے کہ زبانِ یار من ترکی من ترکی نمی دانم۔۔۔ یہ سچ ہوسکتا ہے کہ یار کی زبان تُرکی اور وہ آپ نہ جانتے ہوں مگر اب ایک تحقیق نے دعویٰ کیا ہے تُرکی کو کوئی جانے یا نہ جانے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے دنیا کی کئی بڑی بڑی زبانوں کو جنم دیا۔ اس کی جنمی زبانوں میں اُردو کا ذکر تو نہیں البتہ اس کی سہیلی اور بڑی بہن ہندی ضرور شامل ہے۔

مغربی ماہرینِ لسّانیات نے طویل تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ تُرک سرزمین سیکڑوں زبانوں کی جنم بھومی ہے۔ یہاں پر جنم لینے والی زبانوں میں ہندی کا تو ذکر ہوچکا، اس کے علاوہ جو ہیں، اُن میں روسی، ڈچ، البانوی، اطالوی اور انگریزی زبانیں بھی شامل ہیں۔

محققین نے دنیا میں مروج زبانوں پر کی گئی تحقیق کے سلسلے میں پیچیدہ نظاموں پر مشتمل خصوصی طور پر تیار کیے گئے کمپیوٹر سے مدد لی ہے۔ اس کمپیوٹر کے پروگرام وبائی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے وائرس کی بنیاد جاننے کے لیے بنائے گئے تھے۔

تحقیق کے نتائج رواں ہفتے جریدہ 'سائنس جنرل' میں شائع کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیق انڈو یورپین زبانوں کے ارتقا اور ان کے باہمی ربط کو جاننے کے لیے کی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں پتا چلا کہ دنیا کی سیکڑوں زبانوں کا جنم تُرک سرزمین پر ہوا تھا۔

آک لینڈ سے لے کر ہندوستان تک بولی جانے والی سیکڑوں زبانوں میں،  بڑی تعداد میں ایسے الفاظ موجود ہیں، جن میں مماثلت پائی جاتی ہے۔

اسی وجہ سے بحث چھِڑی کہ ان زبانوں کا اصل مسکن کون سا ہے اور یہ دنیا بھر میں کیسے پھیلیں۔ اسی سوال کا جواب تلاش کرنے لیے یہ لسّانی تحقیق شروع کی گئی تھی۔

قبل ازیں، لسّانی مماثلت کی اس بحث میں غالب نظریہ تھا کہ دنیا بھر میں اس وقت تقریباً تین ارب افراد جو زبانیں بولتے ہیں وہ تاریخ میں کانسی دور کے خانہ بدوشوں کے ذریعے پھیلیں۔ وہ خانہ بدوش پہیہ کا استعمال جانتے اور گھڑ سواری کرتے تھے۔

انہی سہولتوں کی بنا پر وہ پانچ سے چھ ہزار برس پہلے، بحیرہ کیسپئین کے شمالی پہاڑی ڈھلوانوں سے چل کر مشرق و مغرب میں پھیلے۔ جس مقام کا ذکر کیا گیا ہے آج کل وہ وسط ایشیائی ریاست یوکرائن میں واقع ہے۔

اس نظریے کے برعکس دلیل دینے والوں کا کہنا تھا کہ گھوڑے یا پہیے نہیں بلکہ زراعت وہ عنصر ہے جس نے انسانی پھیلاؤ کے ساتھ زبانوں کے پھیلاؤ کی بھی مدد کی۔ یہ تُرکی کو آٹھ سے ساڑھے نو ہزار سال قدیم قرار دیتے ہیں۔

حالیہ لسّانی تحقیق کے دوران ماہرین نے عمومی الفاظ یا لہجوں کا انتخاب کیا اور پھر اس کی مدد سے زبانوں کا اصل ماخذ معلوم کرنے کی کامیاب کوشش کا دعویٰ کیا ہے۔

انہوں نے مروج اور متروک قدیم الفاظ، دونوں سے مدد لی اور اسی کی بنا پر علم ہوا کہ دنیا کی بڑی بڑی زبانوں کی جڑیں تُرکی تک پہنچتی ہیں۔

رپورٹ کے ایک اہم مصنف کوئینٹن ایٹکنسن ارتقائی نفیسات کے ماہر ہیں اور نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف آک لینڈ میں پڑھاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ایک نہایت اہم تحقیق ہے جو دنیا کو نئی شکل بخشنے اور لسّانی تنوع کے پھیلاؤ میں زراعت سے آگے کی بات بیان کرتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج آثارِ قدیمہ اور جینیاتی تحقیق کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ ایٹکنسن کا کہنا ہے  کہ قدیم باشندوں کی نقل مکانی سے زراعت کا پھیلاؤ ہوا تھا۔

ایٹکنسن کے مطابق 'ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی روز سارے شکاری یورپ میں جمع ہوگئے اور پھر باڑ کے پار انہوں نے جھانک کر دیکھا کہ ہمسائے کاشت کررہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے بھی ایسا کرنا شروع کردیا۔ وہ دراصل حقیقی معنوں میں لوگوں کی نقل مکانی کی تحریک تھی، جس کے بعد ایسا یعنی زراعت کا پھیلاؤ ممکن ہوسکا۔ ' ایٹکنسن کے مطابق ایسا نہیں تھا کہ کچھ کاشتکار لوگ نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں پہنچے اور پھر انہیں دیکھ کر شکاریوں نے پھاؤڑے اٹھالیے اور کاشت پر لگ گئے۔ پہلے ثقافتی اور لسّانی پھر دوسرے اثرات منتقل ہوئے ہوں گے۔ یہی بات تحقیق سے معلوم ہوئی ہے۔

ایٹکنسن کے مطابق لسّانی ارتقا کو جاننے کی اس تحقیق میں وہی طریقہ کار استعمال کیا جسے ماہرین نے وبائی امراض کا پھیلاؤ سمجھنے کے لیے اختیار کیا تھا۔

خبر رساں ادارے کو ٹیلی فون پر دیے گئے انٹرویو میں ایٹکنسن کا کہنا تھا کہ کسی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اس کے اصل مقام کا پتا چلانا ضروری ہے۔ ماہرینِ صحت وبائی مرض کی روک تھام کے لیے اس کی جڑ تلاش کرتے ہیں۔ یہی طریقہ تحقیق میں استعمال کیا گیا۔ زبانوں کے مختلف خاندانوں کے ذریعے اُن کے اصل مقام تک پہنچے ہیں۔

ایٹکنسن کا مزید کہنا تھا کہ ڈارون نے ارتقائی نظریے میں حیات اور انسان کے اجداد کی بات کی ہم نے اس کے متبادل کام کیا ہے۔

لسّانی محققین نے اس تحقیق کے دوران دنیا کی سیکڑوں زبانوں میں مستعمل مماثل الفاظوں اور لہجوں کا ڈیٹا بیس بھی تیار کیا ہے۔ مثال کے طور انگریزی میں ماں کو مدر، ڈچ میں مودر، ہسپانوی میں میدرے، روسی میں میت، یونانی میں میتیرا اور ہندی میں ماں کہا جاتا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ کے ماہرِ آثارِ قدیمہ کولن رینفرو کا کہنا ہے ہے کہ 'یہ ایک نہایت اہم دریافت ہے۔' پروفیسر کولن تحقیق کے نتائج پر مبنی مقالہ کے شریک مصنف بھی ہیں۔

محققین نے لسّانی تحقیق پر مبنی ایک فیملی ٹری یا شجرہ تیار کیا ہے، جس کی مدد سے دنیا بھر کی سیکڑوں زبانوں کے باہمی تعلق کی نشاندہی کی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025