محسن عبّاس محمّد حنیف کی کتاب کے ساتھ

میرے پرانے دوست ظالم جلالپوری کا کہنا ہے کہ جب تم کینیڈا میں دو پاکستانیوں کو اکٹھے دیکھو تو اکثر وہ دو ہی باتیں کرتے نظر آئیں گے۔ اول یہ کہ آپ کے پاس کونسا موبائل فون ہے اور دوسرا کہ میں کس طرح اپنے پورے خاندان کو راتوں رات کینیڈا بلا سکتا ہوں۔

میں ہمیشہ ظالم جلالپوری سے یہ گلہ کرتا ہوں کہ یار ہمارا پیارا وطن پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے قریبا ہر روز شہ سرخیوں میں رہتا ہے جس کا وطن سے دور دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بہت نقصان بھی ہے مگر ظالم تو ظالم ہی ہوا ناں۔

کینیڈا کے عوام کتابوں کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان حالات میں کتابیں ایک ایسا زریعہ ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ ان شہ سرخیوں سے آگے اصل حقائق سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

وینکوور رائٹرز فیسٹیول -- تصویر بشکریہ مصنف

چند دن قبل پاکستان کے معروف مصنف و صحافی محمّد حنیف اپنی نئی کتاب "آور لیڈی آف ایلس بھٹی" کی تقریب میں شرکت کی لئے وینکوور میں منعقدہ انٹرنیشنل فیسٹیول براۓ مصنفین میں تشریف لایے تو تقریب سے ایک دن قبل میں نے فوری طور پر وینکوور جانے کا ارادہ کیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کے محمد حنیف جیسے مصنفین، پاکستان پر لگے کئی داغ دھونے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ لہٰذا ان کی کتابیں بہت اچھی بھی لگتی ہیں اور اپنی سی بھی۔

جب میں پیسفک یعنی بحر الکاھل میں واقع ایک جزیرے سے چھ گھنٹے کا سفر کرکے بذریعہ کشتی، بس اور ٹرین وینکوور شہر کے وسط میں واقع خوبصورت گرینول آئیلینڈ پہنچا تو خوشی اس بات کی تھی کہ محمد حنیف کا پروگرام سولڈ آوٹ تھا۔ میرے حصّے میں آخری ٹکٹ آیا جس کے واسطے مجھے قریبا ڈیڑھ گھنٹے قبل لائن میں لگنا پڑا۔ ایک پاکستانی مصنف کی کینیڈا کے عوام میں اس پذیرائی نے میری سفر کی ساری تھکاوٹ دور کردی۔

اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ تھی کہ محمد حنیف اس میلے میں شرکت کرنے والے واحد پاکستانی تھے اور میں اس تقریب میں شامل ہونے والا واحد پاکستانی حاضر تھا۔

آڈیٹوریم دیگر اقوام کے حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی خاتون کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔اس نے واین کا گھونٹ لگاتے ہوے مجھے فخر سے بتایا کے آسٹریلیا کی حکومت اور مقامی قونصل خانے اپنے مصنفین کے پرچار کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

وینکوور ایئر پورٹ کی استقبالیہ سے لیکر عام جگہوں پر پنجابی زبان کے سائن آپ کو بےشمار جگہوں پر نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ پرندوں کو ممنوع جگہوں پر دانہ نہ ڈالنے کی ہدایت تک پنجابی میں ملیں گی۔ یہ ہندوستانی کمیونٹی اور سفارتکاروں کی مشترکہ کوششوں اور محنت کا نتیجہ ہے۔

.-- تصویر بشکریہ مصنف

اس شہر میں پاکستانیوں کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ مجھے افسوس اس بات کا تھا کہ تقریب میں نہ ہی کوئی پاکستانی یا پاکستانی قونصلیٹ یا سفارت خانے کا کوئی بندہ موجود تھا۔ ویسے بھی پاکستانی سفارت خانے والے عید، شب برات اور دیگر تعطیلات کے علاوہ کویی اعلان کم ہی جاری کرتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کے چند ماہ قبل پاکستان قونصلیٹ ٹورنٹو کے ایک افسر نے اپنے کسی جاننے والے کے آموں کے کاروبار کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اگر سفارتخانے والے لنگڑے آموں کو پروموٹ کرنے کے بجاۓ محمّد حنیف کے آموں والے مشہور ناول (اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز) کا ذکر کرتے تو کینیڈا میں پاکستان کا امیج کافی بہتر ہو سکتا تھا۔ یہ تو بھلا ہو لاکھوں کینیڈین قاریین کا جو لنگڑے پاکستانی آموں سے زیادہ محمد حنیف کی اس پہلی کتاب سے واقف ہیں۔

جب کوئی سرکاری افسر یا حکومتی کارکن پاکستان سے کینیڈا تشریف لاتا ہے تو سفارتی عملہ جان چھڑکتا ہے۔ مقامی اردو ہفت روزہ اخبارات میں اشتہارات لگتے ہیں اور فوٹو گروپ حرکت میں آجاتا ہے۔ علی بابا کے چالیس چوروں کی طرح ہر طرف سے فوٹو گروپ کے صدا بہار چہرے سستی شہرت کی لیے ان ہفت روزہ اخبارات میں پیسے دے کر تصویروں کی شو بازی میں سبقت لے جانے کی ہر ممکن کوشس کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کنجوس چہرے تو خود ہی فوٹو ایپ کا استعمال کر کے فیس بک پر سونامی لے آتے ہیں۔

اردو کے نام پر حکومتِ کینیڈا کو دہائیوں سے چونا لگانے والی بعض نام نہاد اردو اور پاکستانی ادبی تنظیموں کا ذکر آیندہ سفر ناموں میں ہو گا مگر یہ عجیب معاملہ ہے کہ یہاں اردو کے تیس سے زائد اخبارات ہیں جن میں سے آپ کو پاکستانی قونصل خانوں میں ایک بھی نظر نہیں آتا۔

میں نے رائل روڈ یونیورسٹی کی پروفیسر میرین نیل کے لیے محمّد حنیف کی کتاب پر ان کا آٹوگراف لیا اور وینکوور کے نواح میں واقع پاکستانیوں کےعلاقے "سرے" کی طرف چل پڑا۔ سنا ہے کہ یہاں پر قائم "پاکستان ہاؤس" عید اور چودہ اگست کو ہی کھلتا ہے۔ جب ہمارے کلچر سینٹروں کی چابی ان بزرگوں کے نیفے میں ہو گی جنہوں نے نہ خود کچھ کیا اور نہ ہی نوجوان نسل کو موقع دیا تو پھر پچاس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی کمیونٹی کا اس صوبے میں کیا مقام ہو گا اس کہ اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں؟

عید کےعید کھلنے والے اس کمیونٹی سینٹر کی چابی کس بزرگ کے "نیفے یا لاچے" میں ہے، اس کا ذکر آیندہ ملاقات میں ہوگا۔ اپنا خیال رکھیے گا۔

( جاری ہے...)


mohsin-abbas-80محسن عباس پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی ، فلم ساز اور آزاد صحافت کے متحرک رکن ہیں۔ محسن کینیڈا کے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے ہفتہ روزہ اخبار ڈائورسٹی رپورٹر کے ایڈیٹر ہیں اور ان دنوں کینیڈا کے جنوب ایشیایی باشندوں کی کہانیاں قلم بند کر رہے ہیں۔

[email protected]

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Salman Ahmed Oct 29, 2012 10:52am
Your above reporting showed we as Pakistanis are not even a nation in making. Sometimes conspiracy theory seemed to be prevailing that congress deliberately cut this portion of Indian subcontinent which is now Pakistan in 1947 being backward, illiterate and extremist by nature. Congress might had anticipated that this terrain is hard to be ruled. Look at the history of Pakistan it has been destabilized since its inception in 1947. To date we could not decide which rule of governance suit to our senses. Sometimes we love military rule then we get fed up with this and long for democracy. And we too annoyed shortly with the sham democracy(never waited to let it go for some period of times), then start looking towards military for better governance. Beat the drum celebrate feast of take over with the sweets. Some times after itch of restlessness recurs and we start looking for same political leaders whom we had dejected. Looks like we are not nation but mob of lawless and ruthless mercenaries.
Najeeb Butt Oct 29, 2012 09:58pm
Dear Editor Aoa , On and off I have been reading you columns. I found them unique , different and very simple to understand which I believe the core purpose of your writing to let the common individual know whats happening in this world fulfilled very well. I also agree with your opinion that the work of Scholar ,writer like young Muhammad Hanif should be introduced more aggressively which will help to bring up the soft image of Pakistan. Thanks, N. A. Butt