جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد۔—فائل فوٹو

پشاور: جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے قافلے پر مبینہ خود کش حملے میں تنظیم کے چار کارکن زخمی ہوئے ہیں۔

حملہ پیر کی صبح اس وقت کیا گیا جب قاضی حسین احمد حلیب زئی کے علاقے میاں منڈی میں ایک جلسے سے خطاب کرنے جارہے تھے ۔

حملے میں سابق امیر محفوظ رہے تاہم قافلے میں شامل ایک گاڑی کو نقصان پہنچا۔

ڈان نیوز نے سرکاری حکام کے حوالے سے اسے خود کش حملہ قرار دیا ہے۔

دھماکے کے بعد سیکورٹی حکام نے سرچ آپریشن شروع کردیا جبکہ زخمیوں کو غلانئی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

دوسری جانب خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار نے قاضی حسین احمد پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انتخابات کے دوران بھی دہشت گردی کا خطرہ ہے اور اگر انتخابات نہ کرائے گئے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

mohammad jehangir Nov 19, 2012 01:02pm
اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان،لشکر جھنگوی اور دوسری کالعدم جماعتیں اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔ مذہب، عقیدے اور کسی نظریے کی بنیاد پر قتل وغارت گری اور دہشت گردی ناقابل برداشت ہے ۔ جسکی اسلام سمیت کسی مہذب معاشرے میں گنجائش نہیں۔ طالبان ایک رستا ہوا ناسور ہیں اور اس ناسور کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔ اسلام امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے لیکن چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر مسعود کوثرکہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ کبھی نہیں رہی اور شمالی وزیرستان اغواکاروں کا گڑھ ہے۔گورنر ہاﺅس پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان سمیت پوری دنیا کا امن قبائلی علاقوں میں امن سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والے ۸۰ فیصد دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے وزیرستان سے ملتے ہیں۔ طالبان کا یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے اور طالبان دائین بائیں صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔طالبان انسان کہلانے کے بھی مستحق نہ ہیں۔ انتہاء پسندي اور خود کش حملے پاکستان کو غير مستحکم کرنيکي گھناؤني سازشوں کا تسلسل ہيں اور جو عناصر دين اسلام کو بدنام کرنے اور پاکستان کو غير مستحکم کرنے کيلئے بے گناہ شہريوں کو خاک و خون ميں نہلا رہے ہيں وہ انسانيت کے دشمن ہيں۔ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھاہے ۔اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔طالبان پاکستان کی ریاست اور اس کے آئین کی بالادستی کو رد کرتے ہوتے اپنی مذہبی سوچ کو دوسروں پر زبردستی نافذ کرنا چاہتے ہیں. اگر ریاست مسلح عسکریت پسندوں کو اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ درندگی کے ساتھ عوام پر اپنی خواہش مسلط کریں تو ایسی ریاست اپنی خودمختاری قائم نہیں رکھ سکتی .صلح جوئی کی پالیسی نے ملک کو پہلے ہی بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کی قیمت ہم انسانی جانوں کی زیاں نیز معاشرے اور معیشت پر اس کے برےاثرات کی شکل میں ادا کر چکے ہیں . بم دھماکے کھلی بربریت ہیں اور دہشت گرد عناصر شہر میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ملک میں انتشار پیدا کررہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں، خصوصاً مذہبی حلقوں کوچاہئے کہ وہ قبائلی علاقوں میں موجود تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مسلح تحریکوں سے بات چیت کرکے انہیں پاکستانی ریاست کی عمل داری قبول کرنے کے لئے آمادہ کریں اور یہ کہ وہ اپنے مذہبی اور سیاسی ایجنڈے کو پاکستان کے قانون کے دائرے میں آگے بڑھائیں کیونکہ ان تنظیموں کا موجودہ رویہ بھی پاکستان کے اقتدار اعلیٰ اور خود مختاری کی نفی کرتا ہے۔ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے.اسلام نے ایک ایک انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس کے نزدیک کسی ایک شخص کا بھی ناحق قتل گویا کہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسلامی تعلیم ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کی جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ ارشاد باری ہے ‘‘ انسانی جان کو ہلاک نہ کرو، جسے خدا نے حرام قرار دیا ہے’’۔ (بنی اسرائیل :33)علمانے اس متعلق وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ‘‘ہر امن پسند غیر مسلم کے خون کی قیمت مسلمانوں کے خون کے برابر ہے،اس لیے اگر کوئی مسلمان کسی پرُ امن غیر مسلم کو قتل کردیتا ہے تو اس کا قصاص اسی طرح لیا جائے گا، جس طرح ایک مسلمان کے قتل کا لیا جاتا ہے’’گویا کہ جان کے تحفظ کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں برابر ہیں ، جس طرح ایک مسلمان کی حفاظت ضروری ہے، اسی طرح ایک غیر مسلم کی جان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ کسی انسان کی جان لینا اسلام کے نزدیک کتنا قابل گرفت عمل ہے، اس کا اندازہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے ہوتا ہے ، آپ نے فرمایا ‘‘ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے جس کے بارے میں باز پرس کی جائے گی او رحقوق العباد میں سب سے پہلے قتل کے دعووں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی انسانی جان کی ہلاکت کو عظیم گناہ کے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا کہ ‘‘ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا ، پھر کسی انسان کو ہلاک کرنا ہے، پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے ، پھر جھوٹ بولنا ہے’’۔ اس حدیث میں قتل کے گناہ کو شرک کے بعد بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عظیم گناہ ہیں، ان میں کسی انسانی جان کو ہلاک کرنا سر فہرست ہے. انسانیت کے دشمن اپنے ہی مسلمان بھائیوں کونماز پڑھتے وقت بھی خود کش دھماکے کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں قتل کرر ہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ جو لوگ انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور بے گنا ہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں وہ مسلمان تو کجا، انسان کہلا نے کے مستحق نہیں ہیں۔ قرآنی آیات، احادیث نبوی اور آئمہ کرام کے استدلال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بے گناہ و معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اور ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف بلکہ روح اسلام کے خلاف گناہ عظیم ہے، کسی بھی عذر، بہانے یا وجہ سے ایسے عمل کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے۔ اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲) دہشت گرد اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھی درست نہ ہے اور یہ لوگ جماعت سے باہر ہیں۔ ہمیں ان سب کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ بزدل قاتل اور ٹھگ ہیں اور بزدلوں کی طرح نہتے معصوم لوگوں پر اور مسجدوں میں نمازیوں پر آ گ اور بارود برساتے ہیں اور مسجدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ اس طرح یہ پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ آج دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ واریت نے قومی سلامتی کیلئے خطرہ پیدا کردیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ............................................................... اقبال جہانگیر کا تازہ ترین بلاگ : کراچی میں فرقہ ورانہ دہشت گردی http://www.awazepakistan.wordpress.com