تصویر بشکریہ مصنف

میں حسب معمول یونیورسٹی سے اپنا کام ختم کرکے نکلا تو مجھے میرے ایک سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے شاگرد نے نے اپنے گھر میں محرم کے پروگرام پر آنے کی دعوت دی۔ میرے جیسا گناہ گار اور محرم کا پروگرام، میں خود پر ہنسا اور اس سے شام کو ضرور آنے کا وعدہ کرکے اپنی گاڑی یار غار ظالم جلالپوری کے دفتر کی جانب دوڑا دی۔ ہلکی بارش کے دوران میں اور ظالم جلالپوری شام کو وینکوور نامی جزیرے پر واقع ایک چھوٹے مگر دنیا کے ایک خوبصورت شہر وکٹوریہ میں اس طالبعلم کے گھر پہنچے تو گھر کی بیسمنٹ میں ایک تنگ و تاریک کمرے میں دس بارہ شیعہ افراد جمع تھے۔ انہوں نے کسی عربی عالم کی تقریر کو بڑے فلیٹ سکرین پر دکھانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ لنگر پانی کا بھی بندوبست تھا۔

میں اس دن اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے شیعہ افراد سے مل رہا تھا۔ ٹی وی پر ایک گھنٹے کے لگ بھگ چلنے والی عالم دین کی تقریر نے میری سکول کے زمانے کی ماسٹر عبداللہ سے عربی گردانوں کو یاد نہ کرنے پر کھائی ہوئی مار کی فلم میرے ذہن میں دوبارہ "ریفریش" کردی۔ میرے شاگرد نے گرم دودھ اور عربی حلوہ پیش کرتے ہوئے مجھ سے پاکستان میں شعیوں کے حالات دریافت کرنے کی فرمائش کی۔

تصویر بشکریہ مصنف

میں نے بیسمنٹ کی کھلی کھڑکی کی جانب مسلسل دیکھتے ہوئے اپنے ذہن پر نقش شیعہ سنی بھائی بھائی کی کہانی یوں سنائی۔

میرے ابا شیعہ اور اماں سنی ہیں۔ یہ سن اسی کی دہائی تھی۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا مگر محرم کے دوران ہمارے گاؤں میں عاشور کے دس سوگوار دنوں میں محبت، امن اور بھائی چارے کی جو فضا قائم ہوتی اس کا ایک ایک لمحہ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔

گاؤں کی سنی مسجد کے ایک نعت خواں اکثر گرمی کے سخت موسم میں ماتمیوں کے لئے لگائی گئی شربت کی سبیل پر ہوتے اور ان کے دادا ذوالجناح کی لگام کو کسی اور کے ہاتھ نہ آنے دیتے۔ میرے ابا کے ایک ماموں پٹواری مرحوم دور دراز سے آنے والے زائرین کے لئے دیگیں پکواتے اور اپنی حویلی میں ان کے قیام کا خاص بندوبست بھی کرتے۔ گاؤں کا ایک اہلسنت فوجی جوان جو فوج میں کمپاؤنڈر تھا خاص طور پر چھٹی لیکر آتا اور زخمی زنجیر زنی کرنے والوں کی مرہم پٹی کرکے سعودی عرب یا ایران کی بجائے اس کا اجر اللہ میاں سے طلب کرتا۔

پھر ایک دم "شرعی ضیاء الحق" کا زمانہ آگیا۔ اس وقت میں پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گاؤں میں کچھ شیعہ سنی تنظیموں کا ظہور ہوا۔ سبیل والے نعت خواں نے سب سے پہلے ایک مذہبی یوتھ فورس کی سربراہی سنبھالی۔ ان کی دادی نے ذوالجناح کی لگام کی بجائے ماتمی جلوس کا راستہ روکنے کی لئے "سٹے آرڈر" کا انتظام محرم سے کئی ماہ قبل ہی کرنا شروع کردیا۔ میرے ابا کے ماموں نے ہم سے ناطہ توڑ لیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہنستا بستا گاؤں مذہبی منافرت کی آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ کئی طلاقیں ہوئیں۔رشتے داریاں ٹوٹ گئیں۔

میں نے حالات سے تنگ آکر پہلےگاؤں چھوڑا، پھر شہر اور پھر ملک۔ بیرون ملک آکر یہیں شادی کرلی ، بچے ہوگئے ۔ میری طرح یہ ہزاروں اور پاکستانیوں کی بھی کہانی ہے۔

میری گفتگو کے دوران ان میں سے کچھ "یلہ حبیبی" کرتے، قہوے کا گھونٹ بھرتے اور ایک دوسرے کی طرف افسردہ نگاہ دوڑا کر خاموشی سے میری باتیں غور سے سنتے رہے۔

میں نے کمرے کی کھلی کھڑکی کی جانب مسلسل دیکھتے ہوئے کہا کہ آج اگر یہی کمرہ پاکستان میں ہوتا تو شائد اب تک کوئی اس کھڑکی سے بم گرا کے بھاگ چکا ہوتا۔

میرے اس خیال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دو سال قبل جب میں کئی برسوں بعد پاکستان گیا تو میرا ایک بچپن کا کلاس فیلو ایک ایسی مذہبی جماعت کا ضلعی امیر بن چکا تھا جسکے صرف ہمارے ضلع میں ایک لاکھ سے زائد ممبران تھے۔ اس نئی تنظیم کا مرکزی دفتر جنوبی پنجاب میں ہے۔ میرے اس کلاس فیلو نے بے اختیاری میں کہا کہ "دیکھتے رہو ہم کیسے شعیوں کو چن چن کر ماریں گے"۔ اس کو علم تھا کہ میرے والد شیعہ ہیں مگر اس کے باوجود اس نے سچ اگل دیا۔ مگر افسوس کہ ہمارے سب وزیر داخلہ عوام کو نت نئی "فلم" دکھا دیتے ہیں۔

میرے ساتھ ظالم جلالپوری بھی عربی کا کریش کورس کر چکا تھا۔ میری بات ختم ہونے پر ظالم جلالپوری نے ان سے پوچھا کہ آپ بھی بتائیں کہ سعودی عرب میں مذہبی اقلیتوں خصوصا شعیوں کے کیا حالات ہیں تو یک زبان ہو کر انہوں نے کہا کہ "پاکستان جیسے" ۔ پھر مجھے اور جلالپوری کو دوسرا سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی۔

اس سے اگلے دن ہی پاکستان میں شیعہ جلسے جلوسوں میں دھماکوں میں کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج ظالم جلالپوری مجھے ایک اور دعوت پر لیجانے پر مصر تھا۔ میں نے جگہ پوچھی تو انکار کرتے ہوئے مجھے بس گاڑی میں بیٹھنے کو کہا ۔

اس نے گاڑی وینکوور کے مضافات میں واقع سرے شہر کے ایک بے رونق صنعتی علاقے کی طرف موڑی اور پھر ایک بڑے سے گیراج نما ہال کے باہر بریک لگادی۔ میں سجھا کہ شائد یہاں پرکوئی فیکٹری ہے ۔ نہ ہی کوئی شور تھا اور نہ ہی کوئی پولیس کا پہرہ۔

جلالپوری ہال میں داخل ہوا اور وہاں پر پہلے سے موجود شیعہ افراد کے ساتھ مل کر ماتم کرنا شروع کردیا۔ میں اس کے اس عمل پر بڑا حیران ہوا۔

واپسی پر میں نے پوچھا نہ تو تم شیعہ ہو اور نہ ہی سنی تو یہ ماتم کس بات کا؟ اس نے جواب دیا کہ یہ ماتم اس کربلا کا ہے جو آج پاکستان میں برپا ہے۔


mohsin-abbas-80محسن عباس پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی ، فلم ساز اور آزاد صحافت کے متحرک رکن ہیں۔ محسن کینیڈا کے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے ہفتہ روزہ اخبار ڈائورسٹی رپورٹر کے ایڈیٹر ہیں اور ان دنوں کینیڈا کے جنوب ایشیایی باشندوں کی کہانیاں قلم بند کر رہے ہیں۔

[email protected]

تبصرے (2) بند ہیں

mohammad jehangir Nov 25, 2012 09:34am
ماہ محرم ، اسلامی کیلنڈر کے حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے.محرم الحرام جوحرمت اور تقدس کا مہینہ ہے ، حق و سچ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتا ہے ۔ محر م الحرام کے مقدس ماہ کے تقدس کو برقرار رکھنا ہر مسلمان کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے. محرم الحرام دنیائے اسلام میں انتہائی مقدس مہینہ تصور کیا جاتا ہے جس میں حضرت امام حسین اور ان کے رفقاءکا رنے حق کی خاطر اپنی جان دے کر دنیا کے سامنے ایک ایسی مثال قائم کردی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ واقعہ کربلا ہمیں ظلم کیخلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے. یہ مقدس مہینہ ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے اور ماہ مقدس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا جائے اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کو بھرپور قوت سے ناکام بنادیا جائے۔حضرت امام حسینؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں نے کربلا کے میدان میں عظیم قربانی پیش کرکے اللہ اور اس کے پیارے نبیؐ کے دین کو بچایا.آج کے پاکستان میں بھی دہشت گرد ظلم کی علامت ہیں اور عوام مظلومیت کی۔ اب وقت ہے کہ پاکستانی مظلوم عوام دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے رسم شبیری ادا کریں،جو محرم کی اصل روح ہے۔ ............................................................................. اقبال جہانگیر کا تازہ ترین بلاگ : محرم الحرام میں بدترین دہشت گردی http://www.awazepakistan.wordpress.com
نادیہ خانم Nov 25, 2012 12:19pm
مجھے یاد ہے کہ دسویں کے دن ہمارے گھر میں حلیم بنتی تھی کیونکہ سنی ہونے کے باوجود ہمارے ماں باپ نہ صرف محرم کا احترام کرتے تھے بلکہ اہلِ تشیع ہمساییوں کے گھروں میں حلیم بھجواتے تھے کہ اس دن ان کے گھر میں سوگ کی وجہ سے چولہا نہیں جلتا تھا. محرم کا سارا انتظام سنیوں کی ہاتھ میں ہوتا تھا اور اکچر سنی ماتم بھی کر تے تھے. ہم بچے تھے لیکن ایسی کویی تقسیم نہ تھی جو آج ہے. شامٰ غریبان کی مجلس سب برابر سنتے. پھر نہ جانے کیا ہوا. ادھر انقلابٰ ایران آیا تو ہمرے ہاں علامہ ضیاالحق کا ظہور ہوچکا تھا. پھر تو گویا گلی گلی میں ایک جنگ لڑی جانے لگی. بھٹو کے احمدیوں کو کافر قرار دییے جانے پر شیعہ علما کی حمایت  سے لگایی ہویی آگ خود ان کے گھر آپہنچی. اسی طرح اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی تو طالبان کی حمایت کرنے والے بریلویوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک دن یہی آگ ان کے گھر بھی پہنچے گی. تقسیم کا دن تقسیم در تقسیم کی طرف بڑھتا ہے اور جب آخر میں‌اکیلا رہ جاتا ہے تو اسے خود اپنے وجود سے بھی اختلاف ہونا شروع ہو جاتا ہے. نتیجہ آپ خود اخذ کر سکتے ہیں.