INDIA-POLITICS-PARLIAMENT-GANDHI-FILES
سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ -- فائل فوٹو --.

سیاسی پارٹیاں عموما دہرا معیارروا رکھتی ہیں- وہ اپنی خودمختاری کے بارے میں انتہائی سخت ہیں اور شفافیت اور جواب دہی کے مطالبے کو مسترد کرتی ہیں. لیکن ساتھ ہی اس بات پر مصر ہوتی ہیں کہ حکومت ان اقدار کا احترام کرے ماسوا اس کے کہ جب وہ خود اقتدار میں ہوں-

دہرے معیار کوخاص طور پر اس وقت اپنا لیا جاتا ہے جب خود پارٹی کے اندرونی معاملات اہانت آمیزشکل اختیار کر لیتے ہیں- ایسی صورت میں پارٹی میڈیا کی ان جائز کوششوں کی راہ میں آڑے آجاتی ہے جو ان رسواکن واقعات کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں اور عوام سے جاننے کا حق چھین لینا چاہتی ہے- مزاحمت کا یہ انداز بہت پرانا اور کمزور ہے- یعنی یہ کہ یہ پارٹی کا "اندرونی" معاملہ ہے-

ہندوستان میں دہرے معیار پر عمل کرنے کا واضح اظہار حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کوششوں میں ہوا جو قصدا اختیار کی گئی تھیں- حقایق کا اظہار پچھلے کالم میں کیا گیا- مختصرا، یہ انکشاف کیا گیا کہ بی جے پی کے صدر نتن گاڈ کری کی کمپنی 'پورتی' کو ایسی کمپنیوں سے پیسہ ملا ہے جن کا وجود ہی نہیں ہے- انھیں کروڑوں کی رقم کہاں سے ملی؟

اس شک و شبہ کا بے روک ٹوک اظہارکیا گیا ہے کہ یہ پیسہ ناجائز طریقوں سے بنایا گیا ہے.

بی جے پی کی سرپرست عسکریت پسند راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آرایس ایس) اپنے چیلے گاڈ کری کو بچانے میدان میں اترآئی- آر ایس ایس کے ایک رکن کو جو چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں "اندرونی تحقیقات" کرنے کے لئے بھیجا گیا  ایس.گرومورتی نے رپورٹ ترتیب دی اور چھ نومبر کو بی جے پی کی قیادت کو بتایا کہ گاڈکری نہ تو قانونی مجرم ہیں نہ ہی اخلاقی- بی جے پی کی قیادت نے اس فیصلہ کو من و عن تسلیم کر لیا- گرومورتی کی رپورٹ کو شایع نہیں کیا گیا.

سیاسی پارٹی ایک عوامی ادارہ ہے اور اگر کسی پارٹی کے بارے میں جائز شبھات ہوں کہ وہ بدعنوانیوں میں ملوث ہے تو عوام کو اس کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کا پورا پورا حق حاصل ہے- پارٹی کی قیادت پر لازم ہے کہ وہ سنجیدہ نوعیت کے جائز شکوک و شبہات کی، خواہ وہ مالیاتی نوعیت کے ہوں یا کسی اور طرح کے، تحقیقات کرے-

سیاسی پارٹیاں کسی ریاست کے تین ستونوں میں سے دو کے لئے ذمہ دار ہوتی  ہیں یعنی انتظامیہ اور مقننہ- عوام کو حق حاصل ہے کہ اگر اس نظام کے اندرسے بدعنوانیوں کی بو آئے، خواہ وہ انتظامیہ سے متعلق ہو یا قانون ساز ادارے یا پھر کسی سیاسی پارٹی سے تو وہ مطا لبہ کر سکتے ہیں کہ شفافیت اور جواب دہی کے معیاروں کا اطلاق تینوں اداروں پر یکسانیت کے ساتھ کیا جائے- کسی سیاسی پارٹی پر بدعنوانی کا الزام اندرونی معاملہ نہیں ہوتا-

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی جسے نجی اداروں کی محفوظ پناہ گاہ خیال کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ پر لازم ہے کہ وہ اس نظریہ کو پیش نظر رکھے کہ کوئی بھی کاروبار، جس میں عوام کا مفاد شامل ہو، ریاستی قوانین و ضوابط کے تابع ہے.

ایک سیاسی پارٹی لوگوں کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کے وجود کی بنیاد ہی یہی ہے کہ وہ عوامی سرگرمیوں کے ذریعہ خدمات عامہ کے فرایض انجام دے.

یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی سر گرمیوں سے متعلق قوانین بنائے جاتے ہیں- جرمنی کے بنیادی قوانین کے تحت سیاسی پارٹیوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے- شق 21 میں ان کے فرایض کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے یعنی"پارٹیاں عوام کی سیاسی تربیت کرنے میں مدد دیں"-

پارٹیاں بنانے کی آزادی ہے- انکی داخلی تنظیم جمہوری اصولوں کے مطابق ہونی چاہئے- ان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی آمدنی کے ذرائع اور اثاثوں کو عوام کے سامنے پیش کریں، جن پر وفاقی قوانین کا اطلاق ہوگا.

چنانچہ 1968 میں سیاسی پارٹیوں کا قانون نافذ کیا گیا- یہ اکتالیس شقوں پر مشتمل ہے جسے سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو"داخلی تنظیم" سے متعلق ہے: انتخاب کے لئے امیدواروں کی نامزدگی، مصارف کی ادائیگی یعنی پبلک فائنانسنگ جس کے تحت انتخابی مہم کے اخراجات ادا کیے جاتے ہیں، حسابات کی پیشی اوردیگرامور- اس قانون کے تحت سیاسی پارٹیوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنا تحریری منشور، قواعد و ضوابط اور پروگرام بنائیں اور اراکین کے حقوق کی وضاحت کریں-

جوپارٹیاں غیر جمہوری طورپرکام کرتی ہیں وہ کینگرو کورٹ قائم کرتی ہیں اورتحقیقات میں انصاف کے قوانین کو مد نظرنہیں رکھتیں. ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ تحقیقات منصفانہ ہونگی- اس کے برعکس آزادانہ تحقیق و تفتیش میں عوامی مفاد کا واضح طورپرخیال رکھا جاتا ہے-

ہندوستان میں آزادی کے ابتدائی برسوں میں معروف اراکین کے خلاف سرکاری فرایض کی انجام دہی کے دوران بدعنوانی کے الزامات کی پارٹی تحقیقات میں غلط نظیریں قائم کی گئیں- 26 اپریل 1948 کو جب مدراس کے صوبائی وزیروں کے خلاف چارج شیٹ کانگریس کے صدر کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے جنرل سکریٹری کو یہ فرض تفویض کیا کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان الزامات کے ابتدائی ثبوت کس حد تک موجود ہیں-

بعد ازاں مدراس کے چیف منسٹر سے کہا گیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کریں- با لاخر، تین سینئراراکین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں جواہرلال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور راجندر پرشاد شامل تھے- کمیٹی نے چیف منسٹر ٹی پرکاشم کو الزامات سے بری کر دیا .

اس کے بعد وہ مشہورو معروف جیپ سکینڈل منظرعام پرآیا جس میں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر پرالزامات لگائے گئے تھے- کانگریس کی پارلیمانی کمیٹی نے الزامات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی قائم کی حالانکہ الزامات ایک سرکاری افسر کے خلاف تھے جیسا کہ ظاہر ہے مینن صاف بچ نکلے اور ان پر کوئی آنچ نہ آئی- کمیٹی کی رپورٹ کبھی شایع نہ ہوئی.

یہ واقعات 2001-1950 کے درمیان پیش آئے.

تمام بد عنوانیاں مجرمانہ نوعیت کی نہیں ہوتیں- پبلک لاء کے تحت ان سرگرمیوں کو مجرمانہ قرار دیا گیا ہے جو سنگین نوعیت کی ہوں اور مستوجب سزا ہوں اگرچہ کہ وہ کرمنل لاء کی خلاف ورزی نہیں کرتیں مثلا اقتدار یا قانونی اختیارات کا غلط استعمال- پارٹی کے افسران کی کاروباری سرگرمیاں یقینا اسی زمرے میں آتی ہیں جن کے بارے میں بجا طور پر بدعنوانیوں کا شک وشبہ کیا جاسکتا ہے.

ممتاز ماہر آئین سر آئیور جیننگس نے اپنی کلاسیکی تصنیف کیبنٹ گورنمنٹ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے، "وزیر بننے کے لئے سب سے بنیادی اہلیت اس کی دیانت داری اور راست بازی ہے تاہم ، نہ صرف یہ ضروری ہے کہ اس میں یہ خوبیاں موجود ہوں بلکہ نظر بھی آئے کہ وہ ان خوبیوں کا مالک ہے " ہمارے اس دور میں اور آج کے زمانے میں اس ٹھوس اصول کا اطلاق سیاسی پارٹیوں کے اہل کاروں پر بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ حکومت کے عہدیداروں پر .


اے جی نورانی کا تعلق ممبئی سے ہے اور وہ  ایک معروف مصنف اور قانون دان ہیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں