• KHI: Partly Cloudy 19.6°C
  • LHR: Fog 11.5°C
  • ISB: Rain 13°C
  • KHI: Partly Cloudy 19.6°C
  • LHR: Fog 11.5°C
  • ISB: Rain 13°C

عذابِ مسیحائی

شائع January 26, 2013

سربراہ منہاج القرآن ڈاکٹر طاہر القادری -- فائل فوٹو
سربراہ منہاج القرآن ڈاکٹر طاہر القادری -- فائل فوٹو

کیا ہمارا مسیحا ایسا ہوگا جو اپنے تھوڑے سے سامان کے ساتھ لوٹے، جس پر پہلے بھی زیادہ بھروسا نہیں تھا۔ اور پھر طویل عرصے کے بعد لوٹنے والا نوید دے کہ وہ اس تاریخ کو پاکستان بچالے گا؟

اور اس کے بعد پاکستانی تبدیلی کے لیے بے صبرے ہوئے جارہےتھے، چاہے وہ ان کے لیے بدترین ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے پر تیار تھے۔

باہر سے آنے والے کوئی مسیحا جو ہمیں گند سے نکالنے کی نوید دے، اس سے پہلے ہمیں اپنے اندر کی صفائی کرنا ہوگی۔

مسیحا برسوں سے روپ بدل بدل کر ہمارے پاس آتے رہے ہیں۔ اکثر وہ خاکی لباس میں ہوتے تھے، تاہم خوش قسمتی سے اب ہمارے پاس سویلین مسیحاؤں کی بھی بڑی ورائٹی دستیاب ہے۔

تازہ ترین مسیحا ابھی حال ہی میں اسلام آباد کے وسط میں کھڑے ایک بُلٹ پروف دھاتی کنٹینر میں موجود تھے، جس کے اطراف بنی کھڑکی بھی گولی سے محفوظ شیشے سے بنائی گئی تھی۔

وہ دھمکیاں دے رہے تھے، الٹی میٹم بھی تھے اور تقریریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ان کے ساتھ بیس ہزار سے لے کر 'لاکھوں'تک لوگ ساتھ تھے۔ تعداد کا تعین اس پر منحصر ہے کہ آپ کس پر یقین رکھتے ہیں۔

اگرچہ ہجوم بہت گرم اور خشک نہیں تھا مگر پھر بھی اسے اچھی طرح کھلایا پلایا جارہا تھا: ایک اخباری اطلاع کے مطابق مقامی باورچیوں کو اسلام آباد کے ان عارضی مہمانوں کو اچھی طرح کھلانے پلانے کے لیے بہت زیادہ آرڈر ملے تھے۔

البتہ اس بارے میں زیادہ نہیں سوچا گیا تھا کہ کئی روز تک اتنا بڑا ہجوم کس طرح اپنی فطری ضروریات سے نمٹ سکے گا۔

مولانا طاہر القادری کو کی جانے والی فنڈنگ کے ذرائع پر بھی بڑے قیاس لگائے گئے: ٹی وی پر چلنے والے ان کے اشتہارات، سفری ضروریات پر اٹھنے والا پیسہ اور مجموعی طور پر اتنے بڑے لانگ مارچ پر آنے والے کُل اخراجات۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ کم خرچ تو نہیں ہوں گے۔

اب تک کوئی شخص یہ نہیں جان سکا کہ اس کام کے لیے پیسہ آیا کہاں سے، اور یہ سوال بھی اب مختلف سازشی نظریات سے بھر چکا ہے۔

ایک اور معمہ بھی باقی ہے کہ آخر انہیں چلا کون رہا تھا۔ ایک طرف ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب کچھ جمہوریت کی بقا کے لیے کررہے ہیں لیکن اگلی سانس میں وہ نہایت غیر جمہوری لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے، اپنے ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے غیر آئینی اقدام کی تبلیغ کرنے لگتے تھے۔

اگر واقعی وہ حالات سے فکر مند ہو کر یہ سب کچھ کرنے جارہے تھے تو انہیں پہلے اپنی کنیڈین شہریت کو چھوڑ کر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے تھے، جو کہ اب مئی تک منعقد ہونے والے ہیں، پھر اس میں وہ اپنے لاکھوں حامیوں کی بدولت جیت کر اقتدار میں آتے اور سب کچھ ٹھیک کردیتے۔

لیکن تمام مسیحاؤں کے ساتھ مسئلہ ایک یہی ہے: وہ بہت جلدی میں ہوتے ہیں اور راہ کی ہر شے کو کچلتے روندتے اقتدار حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔

کچھ فوجی قوت کے بل پر ایسا کرتے ہیں دوسرے سڑکوں پر قوت کا مظاہرہ کرکے ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب عدلیہ بھی انتظامیہ کے اختیارات استعمال کرنے لگی ہے۔

ان سب میں ایک قدرِ مشترک ہے اور وہ ہے بیلٹ بکس، جس سے یہ سب دور بھاگتے ہیں۔ رہا سیاستدان تو اس کے عزائم جو کچھ بھی ہوں، ووٹ کے لیے وہ بڑی بھاگ دوڑ کرتا ہے۔

دنیا بھر میں، کہیں بھی کوئی بھی سیاسی جماعت جب اقتتدار میں آتی ہے تو اس کی قیادت کو کہیں پر مفاہمت کرنی پڑتی ہے اور کہی پر سودے بازی لیکن مسیحا چیزوں کو صرف بلیک اینڈ واٹ میں دیکھتے ہیں۔ اُن کے لیے یہ سودے بازی کرنے والے سیاستدان راندہ درگاہ ملعون ہوتے ہیں۔

جی ہاں۔۔۔ یہ کہنے والے مسیحا جب خود اقتدار میں آجاتے ہیں تو حمایت کے بدلے تمام اصولوں کا سودا کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ جنرل ضیا اور مشرف کی سودے بازیاں سامنے ہیں۔ دونوں نے مذہب کے اوپر سودے کیے۔

حکومت کے ساتھ کیے گئے قادری معاہدے کی حیثیت ردّی کاغذ سے زیادہ نہیں لیکن اس نے انہیں موقع دیا کہ وہ فتح کا دعویٰ کرسکیں اور بتاسکیں کہ ان کے اسلام آبادی مارچ سے کیا کچھ برآمد ہوا۔

اور جہاں تک بات ہے مسیحائی کی تو ان مسیحاؤں کے تمام تر تلخ تجربوں کے بعد، جب ایک بار پھر کوئی نیا اٹھ کر سامنے کھڑا ہوگا، ہم اسے بھی خوش آمدید کہہ رہے ہوں گے۔

پانچ سال پہلے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے سول سوساٹی اور میڈیا کا جوش و جذبہ یاد ہے؟ ایسا لگتا تھا کہ اس کے بعد پھر ایسا مظاہرہ کبھی نہیں ہوگا۔

ایک وزیرِ اعظم برطرف اور نااہل ہوا، دوسرا امکانی گرفتاری کی زد پر ہے، کیا ایسے میں جناب افتخار چوہدری کے حامیوں کی رائے کچھ بدل سکتی ہے۔ وہ جنہوں نے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالا تھا، کیا اب اپنی کچھ ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوں گے:

سپریم کورٹ کی جانب سے حال ہی میں وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم کے بعد، صرف آدھے دن میں اسٹاک مارکیٹ چار سو پچاس پوانٹس نیچے گرگئی، جس کے باعث مارکیٹ کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ وہ تو شکر ہے کہ اتنے بڑے نقصان پر انہوں نے از خود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم نہیں دیا۔

کچھ عرصے سے بعض ریاستی اور غیر ریاستی عناصر میں اس بات کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون سب سے پہلے پاکستان کو بنانا ری پبلک کی طرح کا ملک بناتا ہے۔

دنیا ایسے ملک کے لیے کیا کرسکتی ہے جو شیطانی دہشت گردوں کے ساتھ لڑائی میں محور ہوچکا اور مستقل طور پر سیاسی بحرانوں کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے؟ ایک بحران سے دوسرا بحران، خبروں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

اب کہ جب موجودہ حکومت، جو ناہل اور بدعنوان بھی ہوسکتی ہے، اس کے پانچ سال مکمل کرکے جانے کا وقت آ پہنچا تو اچانک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے سے سوال جنم لیتے ہیں۔

قادری صاحب کا ایک اور احمقانہ مطالبہ الیکشن کمیشن کی تحلیل تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے سربراہ فخرالدین جی ابراہیم ہیں، جنہیں ان کے دوست احباب پیار سے فخرو بھائی کہتے ہیں، اور ان کی دیانت پر سب متفق ہیں ماسوائے قادری کے، جنہوں نے ان کی طرف انگلی اٹھائی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے موجودہ سربراہ کا شمار ملک کی نہایت معتبر شخصیات میں ہوتا ہے، اور ان کے تقرر کا ملک بھر کے تمام سیاسی حلقوں کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا تھا۔ اس عہدے کے لیے ان سے زیادہ قابل شخص کی تلاش آسان نہیں۔

یہ وہ بات ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ قادری کی حقائق پر دسترس کتنی مضبوط ہے۔ ان کے بیانات خواہ کچھ بھی ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ وہ ایجنسیوں کے اُن لوگوں کے کھیل میں فرنٹ مین ہیں، جو ہمارے انتخابی مستقبل کونا پسند کرتے ہیں، چاہے اس کے امکانی نتائج کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔

متنازعہ کیری لوگر بل کا موقع ہو یا پھر میمو گیٹ اسکینڈل، لگ رہا تھا کہ سول سیاسی قیادت کو فوج کے ماتحت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورڈیفینس اسٹیبلشمنٹ زرداری اور پیپلز پارٹی سے نفرت کرنے لگی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر جلاوطنی کے بعد نواز شریف کے دل میں بھی جی ایچ کیو کے خلاف غبار ہے، یوں وہ بھی اُن کے لیے خطرہ ہیں۔

عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ پنکچر غبارہ ہیں، البتہ پاکستان مسلم لیگ ق کے دل میں فوج کے لیے تھوڑی بہت حمایت ہے۔ ایم کیو ایم اگرچہ فوج سے اپنی وفاداری کو ثابت کرچکی مگر اس کے باوجود وہ بہت چھوٹے شہری حصے تک محدود ہے۔

تو ایسے میں کس طرح طویل مدت تک انتخابات موخر کرکے، فوج کے انگوٹھے تلی دبی نگراں حکومت قائم کر کے اسے چلایا جاسکتا ہے۔

اس لیے فضول قسم کی میڈیا مہم چلا کر طاہرالقادری کو اکھاڑے میں اتارا گیا تا کہ راہ ہموار کی جاسکے۔ اگرچہ میں سازشوں اور سازشی نظریات پر بہت زیادہ یقین نہیں رکھتا ہوں مگر ایک پہرانی کہاوت پر ضرور یقین ہے: پیسے کا پیچھا کرو۔

واشنگٹن قادری کے پیچھے فنڈنگ کا ذریعہ نہیں ہوسکتا، جس کی وجہ سادہ سی ہے۔ اگر پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترتی ہے تو پھر امریکا کو اپنے قوانین کے تحت فوری طور پر اس کی فوجی اور سول امداد بند کرنا ہوگی۔

ایسے وقت میں کہ جب امریکا، افغانستان سے انخلا کی تیاری کررہا ہے، انہیں قدم قدم پر اسلام آباد کی مدد درکار ہے اور اگر ایسے میں پابندیوں کا معاملہ ہوا تو یہ خود ان کے لیے نہایت تباہ کن اقدام ہوسکتا ہے۔

اس وقت کہ جب مسیحائی کا گند پھیلانے کی تمام تر کوششیں کی جارہی تھیں، ایسے میں نواز شریف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جمہوریت کی حمایت میں اختیار کیا گیا موقف نہایت اہم اور مضبوط اشارہ تھا۔ دوسرا مثبت اشارہ حکومت کی طرف سے سوجھ بوجھ کے ساتھ مسئلے کو حل کرنا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے اب بھی اُمید کی کوئی کرن باقی ہے۔


مضمون نگار 'فیٹل فالٹ لائن: پاکستان، اسلام اینڈ ویسٹ' کے مصنف ہیں۔

[email protected] ترجمہ: مختار آزاد

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

انور امجد Jan 28, 2013 01:00am
ہمارے زیادہ تر انگریزی کالم لکھنے والے صحافی آرمی فوبیا کا شکار ہیں۔ کوئی بھی ملکی مسئلہ ہو ان کی تان ہمیشہ فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے کردار پر ٹوٹتی ہے۔ ان کے مضموں پاکستان کے بارے میں تو ہوتے ہیں لیکن وہ لکھتے اصل میں مغربی اوڈیینس کے لئے ہیں اور ان کو خوش کرنے کے لئے نشانہ ہمیشہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور فوج کو بناتے ہیں۔ خاص کر اگر مضمون میں ضیاء اور مشرّف کے ذکر پر پابندی لگ جائے تو شائد یہ لوگ ایک صفحہ بھی کالا نہ کر پائیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں مباحثے کرنے والے یہ خاص لوگ پاکستانی عوام کی نبض سے بالکل ناواقف ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں انگریزی صحافت تقریبا ختم ہو رہی ہے۔ پاکستانی عوام کے دل سے اسلام، پاکستان اور فوج سے عقیدت ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ اسلام اور پاکستان بچانے کا نعرہ لگا کر قادری صاحب کیا کوئی بھی لاکھوں کا مجمع آسانی سے اکٹھا کر سکتا ہے۔ کتنے عرصے سے انگریزی اخباروں میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کا شور تھا اور اسی رو میں کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا ہزارہ کمیونٹی کا مطالبہ بالکل اینٹی کلائمکس لگا۔ اب الیکشن میں اور حلقہ بندی میں فوج کو کون بلا رہا ہے؟ کیا یہ سب فوج کے ایجنٹوں کا کام ہے؟ ہمارے انگریزی صحافیوں کو بجائے عوامی امنگوں کا مزاق اڑانے کے عوام کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثبت تنقید اچھّی بات ہے لیکن ہر تحریر میں گھسی پٹی باتیں دہرانا بیکار ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025