• KHI: Sunny 17.2°C
  • LHR: Sunny 11.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.5°C
  • KHI: Sunny 17.2°C
  • LHR: Sunny 11.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.5°C

پاکستانی فوج کی دل جیتنے کی جنگ

شائع February 4, 2013

۔ — رائٹرز فوٹو
۔ — رائٹرز فوٹو

چغملائی: قبائلی علاقوں میں طالبان سے نبرد آزما پاکستانی فوج ایک اور محاذ پر بھی تگ و دو کر رہی ہے اور وہ ہے مقامی قبائلیوں کے دل و دماغ جیتنا۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں کو امریکی صدر بارک اوباما دنیا کا خطرناک ترین خطہ قرار دے چکے ہیں، لیکن پاکستانی فوجی یہاں ایک نئی طرح کی جنگ لڑنا سیکھ رہے ہیں۔

افغان سرحد کے قریب پاکستان کی ایک فوجی بیس کے سربراہ جنرل نذیر بٹ کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں شدت پسندوں کے زیر اثر رہنے والے علاقوں کو عام قبائلیوں کے لیے محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جنرل بٹ کو جنوبی وزیرستان میں لڑائی کے بعد شدت پسندوں سے خالی کرائے گئے علاقوں کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ اس کے لیے  مقامی لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی مہم چلا رہے ہیں۔

 اس مہم کے لیے 'ویہم' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کے معنی 'وننگ ہارٹ اینڈ مائنڈ' ہے۔

 اس مہم کو ماضی میں بھی استعمال کیا جا چکا ہے تاہم اس بار اس کا اطلاق جنوبی وزیرستان میں کیا جا رہا ہے۔

 فوج کا کہنا ہے کہ مذاکرات، معاشی سرگرمیوں کے ذرائع پیدا کرنا اور نئے اسکول، کالجوں کے ذریعے تعلیم فراہم کرنا اسی مہم کا حصہ ہے۔

 اس کی ایک جھلک خبر رساں ادارے رائٹرز کو جنوبی وزیرستان میں گزارے تین دنوں میں فوج کے ایک تعمیراتی منصوبے کی صورت میں نظر بھی آئی۔

 تاہم اس نئی حکمت عملی کے باوجود علاقے میں القاعدہ سے جڑے شدت پسندوں کے حملوں، غیر مؤثر سول انتظامیہ اور بدعنوانی کی صورت میں خطرات اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

 یہ مہم اس سے پہلے جنگ سے متاثرہ ملکوں میں ناکام ہو چکی ہے اور اس کا ماضی کا ریکارڈ پاکستانی حکام کے لیے ایک تلخ حقیقت اور زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔

 مغربی ملکوں نے عراق اور افغانستان میں عوام کا دل جیتنے اور شدت پسندوں کے زیر اثر علاقوں کی از سر نو تعمیر کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کیے تھے۔

  تاہم انہیں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا کیونکہ عوام کی اکثریت فوج کو قابض اور عسکریت پسندوں کو بدستور خطرہ سمجھتے ہیں۔

 اسی طرح، جنوبی وزیرستان میں بھی اس مہم کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔

 جنوبی وزیرستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کا پانچواں حصہ ہے۔

  فاٹا میں حکومت کے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کے کرتا دھرتا ہیں جبکہ لوگوں کے حقوق بھی انتہائی محدود ہیں۔

 نوّے کی دہائی میں افغانستان میں طالبان اور متنازعہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے والی پاکستانی فوج جنوبی وزیرستان میں مشکلات سے دوچار نظر آتی ہے۔

 مقامی آبادی کی محرومیاں دہائیوں پر محیط ہیں اور گیارہ ستمبر کے بعد سے افغان سرحد پر امریکی بمباری کی مہم کے دوران ایک ایسی نسل پروان چڑھی ہے جو جنوبی وزیرستان سے پاکستانی ریاست اور افغانستان میں امریکی قیادت کے تحت موجود اتحادی فوجیوں پر حملے کرتی ہے۔

 ایک گدھا اور ایک شاہراہ

اس تمام عرصے میں شش وپنج میں مبتلا پاکستانی فوج کبھی مختصر فوجی آپریشنز تو کبھی تھوڑے عرصے تک برقرار رہنے والے امن معاہدوں کا سہارا لیتی رہی۔

 پھر 2009ء میں پاکستان کے فوجی سربراہ نے جنوبی وزیرستان میں معاملات سنبھالنے کے لیے اب تک کے سب سے بڑے فوجی آپریشن کا حکم دیتے ہوئے چالیس ہزار فوجیوں کو وہاں بھیج دیا۔

 اس آپریشن کے نتیجے میں جہاں تقریباً پانچ لاکھ قبائلی بے گھر ہوئے وہیں مکانوں، اسکولوں اور ہسپتالوں پر شدت پسندوں کا قبضہ ہو گیا، جنہوں نے پہلے سے ہی محدود حکومتی سہولیات کو بھی تباہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔

 آج صورتحال یہ ہے کہ فوجی آپریشن اور امریکی ڈرون حملوں نے مل کر یہاں موجود پاکستان کی طالبان قیادت کو علاقے سے باہر دھکیل دیا ہے۔

  اوراب فوج مختلف طریقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اب یہ علاقہ ان کی واپسی کے لیے محفوظ ہے۔

  لیکن تقریباً تین سال تک کیمپوں میں رہنے کے باوجود صرف اکتالیس ہزار پناہ گزین ہی واپس آئے ہیں۔

 جنوبی وزیرستان کے مرکزی علاقے وانا کے نزدیک موجود فوجی کمپاؤنڈ کے سربراہ ایک بریگیڈیئر کا کہنا ہے کہ 'لوگ صرف اسی صورت میں خود کو مکمل طور پر محفوظ سمجھیں گے جب علاقے میں سماجی اور معاشی لحاظ سے ترقی کا سلسلہ شروع ہوگا'۔

 'اس میں کچھ وقت لگے گا، ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ جو کام ایک اسکول کر سکتا ہے وہ ایک ہزار گولیاں مل کر بھی نہیں کر سکتیں'۔

 بہت سے پناہ گزینوں نے جنڈولہ میں برطانوی راج میں بنائے گئے ایک قلعہ جہاں اب پاکستانی فوج کے ہیڈ کواٹر موجود ہے، کے قریب ایک گاؤں چغملائی میں سکونت اختیار کر لی ہے۔

 گزشتہ سال ہی یہاں ایک چھوٹا سے بازار کا افتتاح ہوا تھا۔ پاکستانی جھنڈوں سے رنگی ہوئی یہاں دکانیں موجود ہیں جنہیں انتہائی کم قیمت پر لوگوں میں فروخت کیا گیا تھا۔

  بازار کے قریب ہی ایک مقام پر فوجی افسران اور حکومتی عہدے دار لوگوں میں پولٹری اور شہد کی فارمنگ کی تعلیم دیتے نظر آئے۔

 لیکن اس سب کے باوجود تباہ حال مکانات، خالی ہسپتال، گولیوں سے چھلنی اور بے رنگ اسکول کسی خالی اورسنسان شہر کی جھلک نظر آتے ہیں۔

 فوج کہتی ہے کہ وہ اس خوبصورت علاقے کو ہمت کر کے واپس آنے والے مقامی لوگوں کے لیے ایک نیا گھر بنانا چاہتی ہے۔

 اشرف خان، جن کی بیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،  ابھی ابھی جنڈولہ میں پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر میں کمانڈنگ افسر سے قرضے کے متعلق بات کرکے واپس پہنچے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ ان کی بیوی پانی اور جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کیا کرتی تھی، تاہم اب انہیں اس کام کے لیے ایک گدھا چاہیے۔

 انہوں نے امید ظاہر کی کہ فوج اپنے وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی مدد کرے گی۔

 کچھ کلو میٹر دور ہی فوجی انجینئر اور مزدوروں نے ایک دشوار گزار پٹی پر ایک شاندار دو رویہ سڑک بنائی ہے جس کی حالت پاکستان کے شہروں میں موجود سڑکوں سے کہیں بہتر ہے۔

 امریکی حکومت کے تعاون سے 287 کلو میٹر طویل یہ سڑک اس پسماندہ علاقے کو خیبر پختونخواہ کے مرکزی اور معاشی مرکز پشاور سے جوڑتی ہے۔

  پولٹری فارم چلانے والے حمید جان کے مطابق، اس سڑک کی وجہ سے ادویات ، کھانے پینے اور دوسری اشیاء کی نقل وحمل آسان ہو گئی ہے اور اس سے ان کی آمدنی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

 فوج کا ماننا ہے کہ وہ علاقے میں معاشی سرگرمیوں اور تعلیم کے فروغ کے ذریعے اپنے لیے جذبہ خیر سگالی بڑھا سکتی ہے۔

 فوجی افسران کا کہنا ہے کہ علاقے میں تینتیس اسکولوں کو بحال کیا جا چکا ہے جن میں دو سو لڑکیوں سمیت چار ہزار طلباء داخل ہیں، تاہم رائٹرز کے لیے ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق مشکل ہے۔

 مجھ سے کتابوں کی بات کریں

 پاکستانی طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور انہوں نے پچھلے سال اکتوبر میں پندرہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی کو سوات میں تعلیم کے فروغ کی حمایت میں آواز اُٹھانے پر گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔

 فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے مزید کام کرتے رہیں گے۔

 دورے کے دوران کرنل عاصم نے اس مہم کے سلسلے میں تعمیر ہونے والا ایک ٹیکنیکل ادارہ اور کیڈٹ کالج بھی دیکھایا۔

 گیارہ ملین روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے وزیرستان انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن سے پچھلے دسمبر میں پچھتر طالب علموں نے مختلف شعبوں میں ڈپلوما حاصل کیے۔

  قریب ہی واقع کیڈٹ کالج کی عمارت پر پانچ سو ملین روپے کی لاگت آئی ہے۔

 انسٹیٹیوٹ کی لیب میں پندرہ سالہ شمس اللہ کمپوٹر کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 اس غریب نوجوان لڑکے کے چچا، جو طالبان کمانڈر تھے، ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

  شمس چاہتا تو ان کی راہ پر چل سکتا تھا لیکن اس نے تعلیم کو اہمیت دی۔

 شمس کہتے ہیں کہ انہیں شدت پسندی سے کوئی سرو کار نہیں ۔ 'آپ مجھ سے بس میری کتابوں کے حوالے سے ہی پوچھیں'۔

 لیکن ان تمام امیدوں، حوصلہ مند طالب علموں، نئی سڑکوں اور کلاس رومز کے باوجود اس علاقے میں سول انتظامیہ کی جڑیں پنپنے کے ٹھوس شواہد سامنے نہیں آ سکے۔

 جنوبی وزیستان کے سب سے بڑے سیاسی عہدے دار تو اپنی جان کو لاحق خطرے کی وجہ سے  یہاں رہتے ہی نہیں کیونکہ طالبان حالیہ کچھ سالوں میں یہاں سینکڑوں رہنماؤں کو ہلاک کر چکے ہیں۔

 پشتون عمائدین کے مطابق، اسکول ٹیچرز کئی مہینوں سے غیر حاضر ہونے کے باوجود تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جبکہ انتظامیہ ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔

 پولیٹیکل ایجنٹ شاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی طرف سے بہترین کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 انہوں نے ٹانک سے ٹیلی فون پر گفتگو میں بتایا کہ وہ فوجی کیمپ سے باہر سفر نہیں کر سکتے اور  ان حالات میں وہ یہی کچھ کر سکتے ہیں۔

 پچھلے ہفتے، جنوبی وزیرستان کے قریب ایک فوجی چیک پوسٹ پر شدت پسدنوں کے حملے میں تیس سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

  شدت پسندوں کے مطابق، انہوں نے شمالی وزیرستان میں گزشتہ ماہ اپنے دو کمانڈروں کے ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کا بدلہ لیا تھا۔

 بازار کے قریب ہی کرکٹ کھیلنے والے بچوں سے  جب فوج کے بہتر زندگی فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔

 تاہم عسکریت پسندوں اور فوج کے بارے میں ایک لڑکے نے کہا کہ 'سب ایک جیسے ہی ہیں'۔

 کچھ فوجی افسران اس تنقید کو جائز سمجھتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست کی جانب سے کئی دہائیوں سے خطے میں ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں۔

 جنرل بٹ کا کہنا ہے کہ صرف ان کی بریگیڈ کے بجٹ سے ہی علاقے کی تعلیمی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔

 'ہم نے ماضی میں کافی غلطیاں کی ہیں اور اب ہم مزید اس سے انکار نہیں کرتے'۔

 تاہم جہاں جنرل بٹ اصرار کرتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کا زور ٹوٹ گیا ہے وہیں بہت کم لوگ اس حوالے سے امید رکھتے ہیں۔

 ایک دکاندار کے مطابق، فوج نے فی الحال شدت پسندوں کا راستہ بند کر دیا ہے لیکن وہ واپس آسکتے ہیں۔

 ایک قبائلی بزرگ پوچھتے ہیں کہ اگر طالبان یہاں سے ہمیشہ کے لیے جا چکے ہیں تو فوج یہاں سے کیوں نہیں جاتی؟

تبصرے (1) بند ہیں

mindless1988 Feb 05, 2013 03:58am
اللہ ہماری فوج کو کامیابی عطا فرمائے.. آمین

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025