فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اصولی طور پر یہ خیال اچھا ہے لیکن اب جب کہ انتخابات چند ہفتوں کی دوری پر ہیں، ان پر کیسے عمل ہوسکتا ہے؟

دُہری شہریت کی بنیاد پر ڈاکٹر قادری کی درخواست خارج کیے جانے کے صرف ایک روز بعد، سپریم کورٹ نے متعدد تجاویز دی ہیں تاکہ آنے والے انتخابات میں، سمندر پار پاکستانیوں کے حقِ رائے دہی کے استعمال کو محفوظ بنایا جاسکے۔

پیش کی گئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ وزارتِ داخلہ، وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور الیکشن کمیشن، فوری طور پر اجلاس منعقد کر کے اس ضمن میں لائحہ عمل تیار اور طریقہ کار وضع کریں۔

نیز، ووٹ دینے کے لیے بیرونِ ملک پاکستان کے تمام سفارتی مشنز کو پولنگ اسٹیشنوں میں تبدیل کیا جائے۔

ساتھ ہی نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹا بیس اتھارٹی (نادرا) ان تمام بیرونِ ملک پاکستانیوں کو فوری طور پر قومی شناختی کارڈ جاری کرے، جن کے پاس یہ اہم قومی دستاویز نہیں ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا مگر جیسا کہ خود عدالت نوٹ کرچکی، جہاں تک ان تجاویز پر عمل کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہدف بہت ہی مشکل ہے۔

یہ عمل تب ہی شروع ہوسکے گا کہ جب نادرا کی طرف سے رائے دہندہ کے اہل ہونے کی تصدیق کردی جائے، شاید ہی اتنے مختصر وقت میں وہ ایسا کرسکے۔

اس کے بعد ان کے متعلقہ انتخابی حلقوں کے تعین کا معاملہ ہے۔ ایسا طریقہ کار تشکیل دینا ہے کہ رائے دہندہ جسمانی طور پر اپنا حقِ رائے استعمال کرسکے۔

اس مقصد کے لیے اسٹاف کی دستیابی یقینی بنانا ہوگی۔ ساتھ بیلٹ پیپر کی دستیابی بھی یقینی کرنا ہوگی۔ (بیلٹ پیپر کو بدستور خفیہ رکھنے کا بھی انتظام کرنا ہوگا) اسی طرح کے کئی اور معاملات بھی ہیں۔

ان حلقوں کے لیے بڑے پیمانے پر افسر شاہی کی مشق اور بھاری فنڈز درکار ہوں گے۔

شاید حلقوں کے زیادہ ہونے کے باعث اربوں روپے کی ضرورت پڑے گی کیوں کہ صرف قومی اسمبلی کی براہ راست نشتوں کی تعداد دو سو بہتّر ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے اس کے علاوہ ہیں۔

ساتھ ہی اُن حلقوں کے بیلٹ پیپرز بھی درکار ہوں گے جو سمندر پاکستانیوں کے حقِ رائے دہی کو یقینی بنائیں گے، اور جو یہ عمل کریں گے اُن کی خطرناک تصویر پہلے ہی سامنے ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کے اس حق کو اصولی طور پر یقینی بنانے سے زیادہ شاید اسے اور زیادہ عملی بنانا ہوگا۔

پاکستانیوں کو انتخابات میں رائے دینے کا حق ہے، جس کے لیے مختلف طریقہ کار پر بحث شروع کرنا ہوگی تاکہ اس عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔

سمندر پار پاکستانیوں کے حقِ رائے دہی کے حوالے سے قانون سازی کرنے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔

ان کے حقِ رائے دہی کو شفاف اور سہل بنانے کے لیے، مثال کے طور پر، ایک نیا انتخابی حلقہ تشکیل دیا جاسکتا ہے یا پھر اس مقصد کے لیے پورا ملک ایک انتخابی حلقہ قرار دے دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ پہلے ہی غیر مسلموں کے لیے مختص نشستوں پر انتخاب کا طریقہ کار اور اس پر عمل درآمد موجود ہے۔

آنے والے انتخابات بہت اہم ہیں۔ نئے انتظامات کے لیے ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہ کیا جائے، جس سے ان کی تاخیر کا پہلو نکلتا ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں