• KHI: Partly Cloudy 27.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.8°C
  • ISB: Rain 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 27.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.8°C
  • ISB: Rain 13.2°C

چوتھی قسم کے انسان

شائع February 18, 2013

column of the day 670
اس ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمانوں کی اکثریت کے جہل کا یہ عالم ہے کہ ای میل، میسج باکسز اور سوشل میڈیا کے صفحات پر مذہبی توہمات اور قیاسات پر مباحثے جاری رہتے ہیں اور اپنی اپنی مذہبی شخصیات کی مقدس کہانیاں پوری مذہبی عقیدت اور فرضِ شرعی کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ شئیر ہوکر جنت بانٹتی پھر رہی ہیں۔ ان مذہبی شخصیات کی بُت پرستوں سے بڑھ کر پوجا کی جاتی ہے۔
السٹریشن — جمیل خان –.

جب انسان اس دنیا میں اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا تو اس کا امتحان چہ معنی دارد؟

قدم قدم پر اسے ڈرانے والے ڈراتے ہیں کہ یہ نہ کرو، یہ نہ کہو بلکہ یہاں تک کہ یوں نہ سوچو۔

پھر جب اس طرز کی ہی زندگی سے مقامِ اشرفیت حاصل ہوسکتا ہے تو اس عالم رنگ و نور میں شعور کی آنکھ ہی نہ کھولنے دی جاتی۔

اس اسفل السافلین میں جہاں پر گویا قدم قدم پر سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی مانند جگہ جگہ ایسے اژدہے اپنا منہ کھولے بیٹھے ہیں کہ جہاں قدم رکھتے ہی وہ جہنم کے عمیق گڑھے میں جا گرتا ہے۔ ان سے بچنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی زندگی گزارنے کے لیے سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ تین وقت کی روٹی خالق کی طرف سے براہ راست مہیّا نہیں کی جاتی، بلکہ ہمارے ہی جیسے انسانوں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، جو دن رات کھیتوں میں مشقت کرتے ہیں۔ گندم یا کوئی بھی اناج جنگل سے نہیں آتا۔ جنگل میں اُگنے والے خود رَو پھل تو شاید کھانے کے قابل ہی نہ ہوں اور اگر ہوں تو انسانی محنت شامل کیے بغیر ان کی مقدار اتنی ہو ہی نہیں سکتی کہ تمام انسانوں کی بھوک مٹا سکے۔

ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ کوشش کرو، کوشش سے ہی انسانوں کو سب کچھ ملتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ سب کچھ قدرت نے اپنے قلم سے لکھ دیا ہے۔

کیا وہ قدرت؟

جس قدرت کا دنیاوی ٹھیکے دار تعارف کرواتے ہیں، موجودہ دور کے انسانوں سے بھی پیچھے ہے؟

جی یہ سوال ہے تو تلخ اور گستاخانہ لیکن حضرت بات یہ ہے کہ گزشتہ بیس برسوں سے لکھنا پڑھنا میرا اوڑھنا بچھونا ہے لیکن پچھلے کئی برسوں سے میں نے قلم کا استعمال ہی نہیں کیا۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ جب لکھ ہی دیا گیا ہے تو پھر ہماری کوششیں کیا حقیقت رکھتی ہیں؟

ہمارے پیدا ہونے کے بعد ہمیں معاشرے کے اجارہ داروں کی جانب سے ایک نظام حیات ملتا ہے۔ جب کوئی انسان ممنوع ومجاز، مستحب اور مکروہات کے اس نظام پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو گویا اس طرح وہ اپنی عقل کو ایک طرف رکھ کر اپنی پروگرامنگ کے لیے خود کو اُن لوگوں کے ہی سپرد کردیتا ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے، اگر وہ پوری طرح خود کو اس گروہ کے حوالے کردے تو اس کو ایک پروگرام شُدہ مشین کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔

بہت سے لوگ ہماری اس توجیہہ کو دوسرے رُخ پر لے جاسکتے ہیں، لہٰذا  ہم ان کے لیے عرض کردیں کہ یہاں بات اخلاقیات کی نہیں ہو رہی ہے، بلکہ ان معاملات کی ہے جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے جو ہر انسان اور معاشرے میں مختلف ہوتی ہیں، یا بعض اوقات محض ذاتی عمل ہوتا ہے۔

آپ ایسے انسان کو کیا کہیں جس کے پاس کچھ مخصوص الفاظ کا ایک مجموعہ ہے جنہیں اس نے ہر وقت دہراتے رہنا ہے، صبح اٹھتے وقت، رات کو سونے سے پہلے، کھانے سے پہلے اور بعد میں، بازار میں جانے سے پہلے، بیت الخلاء میں جانے سے پہلے، سواری، سفر، مرض، کپڑے بدلنا، نہانا، خرید وفروخت۔ غرضیکہ دنیا کا ایسا کوئی کام نہیں جسے کرنے سے پہلے یہ الفاظ نہ دہرائے جائیں۔

صرف اس پر ہی بس نہیں، اس کے پاس کچھ قاعدے بھی ہیں جو باقی چیزوں کا تعین کرتے ہیں مثلاً کھانا کس ہاتھ سے کھایا جائے، گھر میں اور بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے کون سا قدم بڑھایا جائے، کس طرح بیٹھا جائے اور بیٹھنے کے کن طریقوں سے اجتناب برتا جائے، بیوی کے ساتھ تعلقات کس طرح استوار کیے جائیں، بات کس طرح کی جائے، اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کس طرح دیکھا جائے۔ اس کے پاس اپنے لباس، بال، داڑھی، ظاہری حلیہ، کس ٹوتھ برش سے اجتناب برتنا ہے اور کیا کھانا پینا ہے، یہاں تک کہ ان خوشبوؤں کے بارے میں بھی اس کے پاس ہدایات موجود ہیں جنہیں اس نے استعمال کرنا اور جن سے اجتناب برتنا ہے۔

جان لوتھر ایک مغربی مفکر گزرے ہیں، انہوں نے زندگی میں کامیابی کے چند اصول بتائے ہیں اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو ہم بہتر طریقے سے غور و فکر کر سکتے ہیں۔ جان لوتھر صاحب کا کہنا ہے کہ عام لوگ عموماً مذہبی علماء کی رائے پر بھروسہ کرنے کے عادی ہیں، اور خود سوچنے کی بجائے یہ کام اُن کے سپرد کردیتے ہیں، اگر لوگ اپنے افکار ونظریات پر اعتماد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو تین باتیں یاد رکھنی چاہئیں:

1- علم صرف کتابوں سے نہیں ملتا، یہ مشاہدے اور مشاہدے کے بعد نتائج اخذ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

2- سوچنے کی عادت ڈالیں، حقائق کا مطالعہ کریں اور اپنے ذہن اور منطق کو استعمال کریں، آپ کو اکثر صحیح جواب مل جائے گا۔

3- ماہرین اور عالموں کے خیالات اگر آپ کے مشاہدے اور تجربے کے مطابق نہ ہوں تو انہیں مسترد کردیں، یاد رکھیں کہ کتابیں اور علماء غلط بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ ساری باتیں فطرت کے قوانین ہیں لیکن شاید مسلمانوں کی فطرت اس فطرت سے الگ ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے۔ اسی لیے اکثر بہت ہی سمجھدار اور باشعور افراد بھی یہی مشورے دیتے ہیں کہ کٹھ پتلی کا کوئی کردار بن کر رہنا ہی اس دنیا کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔

جب ہمارے معاشروں میں ذہنی صلاحیتوں پر جبر اور خوف کے پہرے بٹھائے جاتے ہوں تو آپ کیسے یہ تصور کرسکتے ہیں کہ یہاں ترقی کا کوئی سسٹم قائم ہوسکے گا۔ اس لیے کہ صرف تخلیقی ذہن رکھنے والا فرد ہی ایسا ادارہ قائم کرسکتا ہے جو اس کے بغیر بھی کام کرتا رہے۔

ایک حقیقی راہنما جب کام مکمل کر لیتا ہے تو اس کے ساتھی اور پیروکار کہتے ہیں ’یہ کام تو ہم نے خود کیا ہے۔‘

وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک راہنما یا لیڈر کے بغیر بھی وہ عظیم کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں مذہب اور دولت پرستوں نے آپسی گٹھ جوڑ سے صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹے ہوئے ماحول کو تشکیل دیا ہے، اس ماحول نے عام لوگوں کے اندر فہم و ادراک کے چشمے کو ہی خشک کردیا ہے۔

چنانچہ ہمارے ہاں اگر کوئی اندھوں میں کانا راجہ کی مثال کے مصداق کچھ باتیں رٹ کر دانشمند بن جاتا ہے اور لوگوں کی رہنمائی کا بیڑہ اُٹھا لیتا ہے تو وہ تخلیقی ذہن رکھنے والوں کے بالکل برعکس طریقہ اختیار کرتا ہے، وہ جو کام بھی کرتا ہے اِس طرح کرتا ہے کہ اُس کی غیر موجودگی میں سارا کام رُک جائے اور سارے نظام کا پہیہ جام ہوجائے۔ اس طرح وہ سمجھتا اور لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عقلمند ہے اور دوسرے سارے بے وقوف ہیں۔

آج جبکہ سائنسی ترقی اپنے عروج کی جانب گامزن ہے اور انسانی معاشروں اور رویوں نے نئی نئی جہات اپنانا شروع کردی ہیں، وہیں ترقی کی گاڑی اپنا سفر طے کرتے کرتے کاغذ، قلم اور فوٹو کاپی کے دور سے نکل کر کمپیوٹر، ای میل، ایس ایم ایس، پیپر فری کمیونیکیشن اور سوشل میڈیا کی منزلوں تک پہنچ گئی ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ٹیکنالوجی کو تو اپنا رہے ہیں لیکن اس ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمانوں کی اکثریت کے جہل کا یہ عالم ہے کہ ای میل، میسج باکسز اور سوشل میڈیا کے صفحات پر مذہبی توہمات اور قیاسات پر مباحثے جاری رہتے ہیں اور اپنی اپنی مذہبی شخصیات کی مقدس کہانیاں پوری مذہبی عقیدت اور فرضِ شرعی کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ شئیر ہوکر جنت بانٹتی پھر رہی ہیں۔ ان مذہبی شخصیات کی بُت پرستوں سے بڑھ کر پوجا کی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں بنظر غائر دیکھا جائے تو اکثریت کی عقل کا اندھا پن ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے، چنانچہ امید کی جاسکتی ہے کہ جب دنیا ترقی کے اس مقام سے کہیں زیادہ بلندی پر جاپہنچے گی ہم جہل کے مزید پست ترین درجوں پر کھڑے ہوں گے۔

مفکرین کے بقول لوگوں کی تین اقسام ہوتی ہیں:

اوّل۔  وہ لوگ جو واقعات کو جنم دیتے ہیں،

دوئم۔  وہ لوگ جو واقعات کو رونما ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں،

اور سوئم۔  وہ لوگ جو واقعات پر صرف حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔

لیکن ہمارے خیال میں ایک چوتھی قسم بھی ہے جو مسلمانوں میں بہ افراط پائی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو جاری واقعات ، ایجادات اور ترقی کی دیگر شکلوں کو اپنی قدیم روایات سے جوڑ کر اپنے خشک اور بنجر قسم کے کبر اور گھمنڈ میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (17) بند ہیں

Ejaz Butt Feb 18, 2013 12:25pm
Bravo; Jamil Ahmed has written a very realistic and practical article. Please keep showing us the practicality of human life aspects. Thank you for such a wonderful article.
شانزے Feb 18, 2013 01:14pm
بہت زبردست جمیل صاحب لگتا ھے ابھی بھی آپ نے کھل کے نہیں لکھا، خیر فی الحال کے لیے اتنی ہی ڈوذ کافی ھے اس معاشرے کی اکثریت کی عقل پہ ملا نے صدیوں سے پردھ ڈال رکھا ہے اور اسی میں مولوی کی بقا ھے ھمارا ابھی وھی حال ھے جو کسی دور میں یورپ کا چرچ کے زیرسایہ تھا  
Shujaat Feb 18, 2013 02:04pm
Excellent article, kudos to Dawn for publishing it. Your writings are breath of fresh air in our increasingly suffocating culture.
Zaki Naqvi Feb 19, 2013 06:04am
ہم مزہب کے نام پر جس فکری خود لذتی کا شکار ہیں، یہ ہمیں جہل اور تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ جمیل صاحب نے درست فرمایا کہ عقل و دانش کو جلاوطن کرنے والے کبھی اپنے وطن میں ترقی اور خوشحالی نہیں دیکھنے والے۔ اگر وہ کسی امید سے ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ یہ مقام شاید بنا ہی انہی احمقوں کیلئے ہے
طارق مان Feb 19, 2013 09:16am
میرے خیال میں جمیل صاحب نے کافی کھل کر لکھ دیا ہے. اس سے زیادہ کھولا تو یا تو پھر ان سے بھی حامد میر جیسی تحریریں پڑھنے کو ملیں گی یا پھر بالکل ملیں گی ہی نہیں
عباس حسین Feb 19, 2013 09:35am
ڈان گروپ نے اردو میں مزاحیہ تحریروں کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اس پر وہ واقعی داد کا مستحق ہے! بنیادی طور پر انگریزی میڈیا گروپ ہونے کے باوجود ڈان گروپ کو اردو دان طبقہ میں حسِ مزاح کی پرورش و پرداخت کی کس قدر فکر ہے، اس کا ثبوت ڈان کی یہ اردو ویبسائٹ ہے!
Affaf Azhar Feb 19, 2013 02:27pm
بلکل درست کہا جمیل خان صاحب، ہمارا معاشرہ حقیقت میں ایک ایسے کارخانے کی مانند ہے جس کے پاس صرف مذہبی دولے شاہ کے چوہے بنانے کا ہی سانچہ ہے . اور صدیوں سے یہ کارخانہ اپنی اسی مخصوص طرز کی کٹھ پتلیاں بنانے کے بعد انھیں دوسروں کی ایجادات پر اپنے لیبل لگانے کی ترغیب مذھبی ڈھنگ میں دیتا ہے . اب ان مذہبی دولے شاہ کے چوہوں کی زندگی کا مقصد فقط اپنے اپنے عقائد کے مزاروں کا طواف ہی ہوتا ہے . اور اگر کبھی یہ اپنے مزاروں کی حدود سے باہر آ بھی جائیں مگر انکی مخصوص طرز اور حرکات انہیں باقی دنیا کی نظر میں تماشا بنا دیتی ہیں . عفاف اظہر
wakar Feb 19, 2013 09:20pm
Great....Great Article
bullah Feb 20, 2013 10:56am
musalman apni inhee jahalaton ka aaj khamyaza bhugat rahay hain, jin ka is article main zikir kiya gaya hai. doosree qoumon ko but parast kehne wale khud shakhsiyaton ki pooja kartay hain aur unhain insanoon se mawara koee hastee khayal kartay hain, agar wo tamam shakhsiyat insan naheen theen to unhoon ne zindagee kee taklefain kiyoon uthaeen? jab tak muslaman Cow and Buffaloes k shaoor se aage naheen barhain gay un k sath aisay he qatal o gharat garee ka silsila jaree rahe ga.
Shahida Ghani Feb 20, 2013 06:11pm
ہہت خوب جمیل صاحب سچی بات کہنے کا سلیقہ آپ کو آتا ہے ہم خوش ہوے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
شانزے Feb 20, 2013 09:58pm
Excellent
محمد عمران شہیر Feb 22, 2013 09:13am
میں نے کوشش کی ہے کہ اس کو اچھی طرح پڑھوں اور پھر اس کا جواب لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے پہلے کبھی نہیں لکھا مگر یہ پڑھ کر محسوس ہوا کہ اس پہ کچھ لکھنا چاہیے۔ سو جو کچھ میرے ذہن میں آیا حاضر خدمت ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔ مگر کچھ باتیں میرے نزدیک اہم ہیں۔ ان پر غور ضروری ہے۔ آپ نے لکھا کہ مذہبی شخصیات کی پوجا بت پرستوں سے بڑھ کر کی جاتی ہے۔ یہ بالکل درست ہے ایسا نہین ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالی کی بابرکت ذات کے علاوہ کسی اور کی عبادت انسان کو زیب نہیں دیتی۔ جب انسان اس دنیا میں اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا تو اس کا امتحان چہ معنی دارد؟ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ کیوں خالق نے تخلیق کی۔ آپ نے شعور کی بات کی۔ تو بتائیں ذرا کہ یہ شعور کیوں خالق نے انسان کو دیا۔ صرف اس لیے کہ جو مرضی کرے ؟ برادر! ساری دنیا میں آزادی انسان کو مختلف انداز میں آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے مگر اس پر کسی نہ کسی طرح کسی مخصوص قانون (قوانین) کی پابندی بھی ہے ۔ تو جب خالق نے انسان کو آزادی دی تو اس کو پابند بھی کیا۔ اسے آئین بھی دیا اور صحیح اور غلط بھی سمجھا دیا۔ کسی مولوی یا مذہبی شخصیت کی بات ماننا یا نہ ماننا اس شخصیت کے کردار اور عمل پر منحصر ہے ۔ مگر خالق خود (قرآن) کی صورت میں بتا رہا ہے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اب جو اس آئین کا مطالعہ کرے گا اسے ان چیزوں کی سمجھ بھی آ جائے گی۔ اور اگر پوچھ گچھ نہیں ہونی ۔۔ تو کیوں ہم لوگ اپنی مرضی کے بغیر ہی یونیورسٹیوں می اعلی تعلیم حاصل کرتے پھر رہے ہیں؟ چلیں وہ تو ہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی والے ہمارا امتحان کیوں لیتے ہیں۔ ان کو تو چاہیے کہ محنت، کوشش کرنے والے، سنجیدہ اور غیرسنجیدہ ، شریف الطبع اور فساد پیدا کرنے سب لوگوں کے لیے ایک ہی معیار رکھتے ہوئے امتحان لیے بغیر ہی ڈگری جاری فرما دے۔۔ پھر ایسے کسی ڈاکٹر کے پاس کوئی بیمار جائے اور وہ ڈاکٹر دل کی جگہ جگر کا آپریشن کر دے ۔ بندہ مار دے ۔۔ چہ معنی دارد؟؟؟؟؟؟؟؟ آپ نے کہا کہ خالق نے لکھ رکھا ہے اور ساتھ ہی فرماتے ہیں بغیر محنت کے کچھ نہیں۔ جنگل کے خود رو پھل وغیرہ۔۔۔۔ جناب عالی ! غور فرمائیں قرآن اس معاملے میں فرماتا ہے ۔۔ "لیس للانسان الا ما سعی " یعنی انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ (یہ اس آیات مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ آپ اس کا بہتر مفہوم اخذ کرنے کا پورا اختیار رکھتے ہیں)۔ جب خالق فرما رہا ہے کہ انسان جو کوشش کرے گا وہ اس کو ملے گا۔ تو آپ کو اعتراض؟ جی ہاں! آپ کہیں گے کہ پھر یہ کیوں کے قدرت نے لکھ رکھا ہے۔؟؟ قدرت نے انسان کے اعمال کے مطابق لکھ رکھا ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم ہیں یا کوئی اور؟ اگر آپ اکاؤنٹس سے متعلقہ ہیں تو کیوں آپ سب کچھ لکھتے ہیں۔۔ ؟ بنکوں میں کیوں ہر کسی کا کھاتہ کھولا ہوتا ہے اور کیوں ہر ایک کی رقم کا حساب کتاب کرتے ہیں ۔ کہ اس کے اتنے جمع ہیں اور اتنا اس پہ بنک کا قرضہ ہے (اور سود بھی) تا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو؟ آپ کو تو چاہیے ہر کسی کو دیتے جائیں اور پوچھیں نہ کسی سے ۔ اور اگر آپ کمپیوٹر سائنس کو سمجھتے ہیں۔ تو پھر تو آپ کو آسانی سے سمجھ آجانا چاہیے ۔ پروگرامر پہلے ہی سب کچھ لکھ دیتا ہے ۔ اس کو پروگرامنگ میں کمال حاصل ہوتا ہے اور وہ کسی بھی معاملے کا ہر پہلو اپنے پروگرام میں سمو دیتا ہے۔ اب جب کوئی شخص اس پروگرام کو چلاتا ہے تو جو پیرامیٹر (اعمال) فراہم کرتا ہے اس کے مطابق اس کے تمام معاملات پروگرامر کا لکھا ہوا پروگرام ہے طے کرتا ہے ۔ کیا کسی پروگرامر کے لکھے ہوئے پروگرام کی ایگزیکیوشن کے دوران آپ اپنی مرضی کے ان پٹ دے کر مرضی کے آؤٹ پٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔؟؟آپ جتنی مرضی کوشش کرلیں کام تب ہی ٹھیک ہو گا جب آپ پروگرامر کی طرف سے طے شدہ کمانڈ دیں گے ورنہ آپ وہ کام نہیں کر سکیں جو آپ چاہتے ہیں۔ یہ سب پروگرامر کے پروگرام پر منحصر ہے میرے بھائی۔ سوخالق نے طریقہ بھی بتایا ۔ صحیح اور غلط ان پٹ بھی اور مزے کی بات ہر طرح کی ان پٹ کی آؤٹ پٹ بھی بتا دی۔ یعنی صحیح غلط کی پہچان کرادی اور اختیار بھی دے دیا۔ اب حضرت انسان پر ہے کہ وہ "احسن تقویم" پر قائم رہے یا "اسفل سفلین" میں شامل ہو جائے۔ ویسے بھی جب دماغ سے سوچنے کی کوشش کی جائے تو احسن تقویم میں شامل ہونا ذرا مشکل ہے ۔۔ کیوں کے اس کے لیے دل سے سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بے چارے غیر مسلم سائنسدان یہ اعتراف کرچکے ہیں کے سوچ کا محود دل ہی ہے۔ دماغ محض حکم بجا لانے والا عضو ہے )۔ رہی بات ہر معاملے ، ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے مختلف سے پہلے کچھ نہ کچھ پڑھنا (یعنی کوئی نہ کوئی دعا مانگنا) آپ کے مطابق نہ پڑھنے سے تو کوئی فائدہ نقصان ہوتا نہیں(مجھے آپ کی تحریر سے یہی محسوس ہوا ہے اگر آپ کا مقصد ایسا نہیں تھا تو پیشگی معذرت )۔ اس ضمن میں گذارش ہے کہ اگر پڑھ لیں تو کم از کم کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے۔ "ولاتقولن لشئی انی فاعل ذلک غدا۔ الا ان یشآ اللہ واذکر ربک اذا نسیت وقل عسی ان یھدینی ربی لاقرب من ھذا رشدا " مفہوم: اور کسی کام کے بارے میں یہ نہ کہنا کہ میں اسے کل کر دوں گا مگر یہ کہہ کر کہ اگر اللہ چاہے تو ۔ اور اگر اپنے رب کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو"۔۔ (اس آیات مبارکہ کے مفہوم کی اگر آپ مزید وضاحت کر سکیں تو شکر گزار ہوں گا۔ ) آپ نے ریفرنس چنا۔ جان لوتھر کنگ اور اس کے خیالات۔۔ ان خیالات کا ایک مختصر سا تجزیہ تحریر کر رہا ہوں۔ علم واقعی صرف کتابوں سے نہیں ملتا اس کے لیے مشاہدہ کی ضرورت ہے تو کیا خالق آپ کو مشاہدے سے منع فرماتا ہے؟ قرآن حکیم فرقان حمید میں جابجا انسانوں کو غور و تدبر کرنے، سوچنے ، مشاہدہ کرنے اور نتائج اخذ کرنے کا کہا گیا ہے ۔ اور مذہب نے کسی کو ٹھیکیداری نہیں دی اور نہ ہی کسی کو کسی پر فوقیت دی ہے سوائے ان لوگوں کے جو متقی ہیں۔ اور ایسے لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے اور منطق کو استعمال کرنے سے واقعی انسان کو صحیح جواب مل جاتا ہے۔ ماہرین اور عاملوں کے خیالات اور مشاہدات اگر تجربے کے مطابق نہ ہوں تو انہیں مسترد کردینا چاہیے۔ تو مذہب کب کہہ رہا ہے کہ آنکھ بند کر کے ہر بات پر یقین کرلیں۔ قرآن فرماتا ہے کہ جب کوئی خبر تم تک پہنچے تو اس کی خوب اچھی طرح تصدیق کرلو۔ بات کو بلا وجہ تشہیر سے منع فرمایا گیا ہے۔ دوسروں کی برائی بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اچھائیوں کے فروغ کا حکم ہے ۔ جب پیغمبررحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ اور یہ سب کچھ ہمارے مشاہدے میں ہے ۔ ہم بار بار اس کا تجربہ بھی کر چکے اور بھگت بھی رہے ہیں تو پھر بھی کیوں کچھ لوگ اس تجربے اور مشاہدے کو بار بار دہرانا چاہتے ہیں اور دہرا رہے ہیں۔ یہ فطرت کے قوانین ہیں۔ تو کیوں میں جان لوتھر کنگ کی بات مان کر اس پر عمل کروں ۔؟؟؟ جب میرے اپنے آبا ء ، میرے اپنے رہنما اور میرے خالق کے احکامات بھی یہی ہیں۔ جو کہ جان لوتھر کنگ نے میرے آقا اور ان کے پیروکاروں سےمستعار لیے۔ میرے ہی آباء کی شاگردی اختیار کی اور میرے ہی آباء کے علم کو استعمال کر کے وہ لوگ ترقی کر رہے ہیں۔ اگر کوئی مغربی مفکر کوئی بات کہہ دے تو وہ تو ہمارے لیے حرف آخر ہو مگر اگر اس سے بھی اعلی بات ہمارے اپنوں نے کہی ہو تو ہم اس کی قدر نہ جانیں۔؟؟ غور فرمائیے گا۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے شخص کو کیا کہیں گے جو صبح شام مخصوص الفاظ پڑھے ، مخصوص اعمال کرے ، اس کا اٹھنا بیٹھنا ، اوڑھنا بچھونا مخصوص انداز میں ہوتو میرے بھائی ایسے شخص کو مسلمان کہتے ہیں۔ سختی اور درشتی کا مذہب میں وجود ہے ہی نہیں۔ اور رہی بات ممنوعات کی تو ڈاکٹر حضرات جب منع کر دیں تو اس شے کو تو کھانے اور پینے سے فورا منع ہو جاتے ہو مگر اگر یہی کام اللہ کی ذات نے فرمایا ہے تو اس میں اپنے حیلے بہانوں سے نقص نکالتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر طنز کرتے ہیں۔ اللہ نے آپ کو چار لفظ لکھنا سکھا دیے تو بے وزن دلیلوں کے ساتھ اللہ کے احکامات کا مذاق بناتے ہیں اور ایسے معصوم ذہنوں والے افراد جن کو ہمارے معاشرے کی روایات کے مطابق دین کا علم ہی نہیں ہوتا کہ انگریز ہم پر احسان کر گئے اور ہم صرف دنیاوی علم میں گم ہو کر ذلیل ہو رہے ہیں۔ان باتوں میں آ کر واہ واہ کرتے ہیں۔ مگر جب حقیقت کا ادراک ہو تا ہے ان لوگوں کو تو پھر ایسی باتیں لکھنے اور کرنے والے انہی لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ رہی بات سائنسی ترقی کی اور جدید ترین سہولتوں کی۔ تو بھائی جی جو لوگ اس کے خلاف بحث کرتے ہیں میرے خیال میں انہوں نے مذہب کو سمجھا ہی نہیں۔ اور آپ کی جدید سائنس ابھی تک وہاں نہیں پہنچی جو کچھ چودہ سو سال پہلے اللہ اور اس کے رسول نے فرما دیا۔ ہر شے کے جوڑے کے وجود کا نظریہ قرآن کا ہے اور آپ کی سائنس اس کی تقلید کرنے پر مجبور ہے۔ میٹھے اور کھارے پانیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بہنا، دن رات کا آنا جانا، موسموں کا بدلنا، سیاروں سیارچوں کی حرکت، سورج کی حرکت غرض ، تیز ترین رفتار سے سفر (واقعہ معراج کے سفر کی رفتار کا نظریہ ) اس قسم کے تمام نظریات پر سائنس اور سائنسدان مجبور ہیں۔ حتی کہ قیامت وقوع پذیر ہو جانے پر بھی۔۔ اب جو لوگ اس ساری ترقی کی چکا چوندمیں اپنا سب کچھ بھلانے کی بات کرے تو کیا کہا جائے اسے؟؟ کیا دماغی عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے (یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دماغ سے سوچنے پر ہی جمے ہوئے ہیں) زیادہ ترقی یافتہ علم کو چھوڑ دیا جائے اور اس علم کے پیچھے بھاگا جائے جو حقائق، صدیوں کی محنت اور کثیر سرمایہ کے خرچ ہوجانے کے بعد ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا گیا۔ میرا تو خیال ہے کہ اس علم کو سیڑھی بنانا چاہیے اور اسے آگے کی جہتیں تلاش کرنی چاہییں تا کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے ۔ خوامخواہ لفاظی کر کے دوسروں کو گمراہ نہ کیا جائے۔ دعا ہے کہ اللہ کی بابرکت اور علیم ذات ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں ۔ ہمارے معاملات کو درست فرمائے ، ہمیں درست سمت میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں تعصبات سے بالا تر ہو کر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں عطا فرمائے۔ اور ہم سے وہ کام لے جس کام کے لیے اس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے تاکہ ہم اپنے اعمال کو درست فرما سکیں اور کسی نہ کسی حد تک اصلاح کرنے والوں میں شامل ہو سکیں۔ (من یھدی اللہ فھوالمھتد ، ومن یضلل فلن تجدلہ ولی مرشدا ۔ "اور جسے اللہ ہدایت فرما دے وہ ہدایت یاب ہے اور جسے گمراہ رہنے دے تو تم اس کے لیے کوئی دوست راہ بتانے والا (اصلاح کرنے والا، درست بات بتانے والا) نہ پاؤ گے۔" ) (اگر آپ نے ان لوگوں پر تنقید کی ہی جو مذہب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ تو خدارا اس بات کو لکھیے ۔۔ تاکہ کم علم لوگ مذہب کو غلط نہ سمجھیں ان ٹھیکیداروں کے بارے میں درست رویہ اختیار کریں)
mahe' talat abidi Feb 22, 2013 08:50pm
You are a very courageous man to put your thoughts in writing. I was impressed and pleased because I myself think like you, it is a nice feeling to have your views endorsed by free thinking man. I would like to point two things: the Urdu script is very difficult to read. Secondly you should simple language. I could not comprehend some of the words but I did get the flow of your thoughts. Keep these free thinking ideas alive.
Zaira Malik Mar 03, 2013 08:37pm
A beautiful writing. But the thing is, direction is set by only one single point "What's the purpose of living". The promise of eternal comforting, infinite food and 72 virgins is not a promise one can ignore so easily.
ABDULHANAN Jul 05, 2013 07:18pm
Jinab Imran sahib ,, aap ki comment parh k zihan roshan ho gaya .Jamil sahib k article ko parhney sey jo kadurat chha gai thi door ho gai .Main na to laikhat hoon na Aalam hoon aik seedha saada 72 saala insaan hoon lekin zindagi ney itna tajruba zaroor diya hai k kissi bhi tehreer ko parhney k waqt ya to ''chubhan'' see hoti hai ya ''khushi'' mehsoos hoti hai . ALLAH sey duaa hai aap k qalam main aor ziyada zaor ho .Shukriya dil sey aik baojh hataaney door karney pe . ABDUL HANAN FROM JORDAN
محمد عمران شہیر Jul 08, 2013 05:32am
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ جناب عبدالحنان صاحب ! تحریر کو پسند کرنے کا شکریہ ۔۔ میں تو کمپیوٹرسائنس کا ادنی سا طالبعلم ہوں مگر یہ آرٹیکل پڑھ کر بہت مضطرب ہوا اور پھر اللہ نے توفیق دی تو جو روانی میں آیا لکھ دیا۔ میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ میرے توسط سے لکھی جانے والی تحریر نے آپ کو دلی سکون پہنچایا۔ آپ بڑی عمر کے ہیں تو میرے لیے بزرگ ہی ٹھہرے۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے ۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
شہباز احمد Jul 08, 2013 08:41am
جناب جمیل صاحب اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو ہدایت دے۔ صرف گذارش ہے کہ آپ قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیں۔ بلکہ میں تو آپ کو یہ کہوں گا کہ قرآن پاک کو صرف پڑھنا شروع کر دیں۔ باقی عقل اور ہدایت دینااللہ کا کام ہے۔ صرف یہ کہوں گا کہ آپ کے مطابق آج کل کے جدید ساءنس دان جو تخلیقات کر رہے ہیں اگر آپ خود تجزیہ کریں یا وہ خود سچے دل سے اقرار کر لیں تو یہ پتہ چلے گا کہ ان کی موجودہ ترقی کے پیچھے اسلام اور قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کا تعلق ہے۔ اگر ڈاءریکٹ ان چیزوں پر عمل نہیں کیا تو آپ کی یاد دہانی کی خاطر عرض ہے کہ مسلمان ساءنس دانوں کی راہ انہوں نے اختیار کی ہو گی۔میں اللہ تعالی سے اپنی اور تمام امت مسلمہ کی بخشش کی دعا مانگتا ہوں

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025