PAKISTAN-DOG-FIGHT
۔۔۔فائل فوٹو۔

لگتا ہے کہ یہ ہم پر کتوں کی لڑائی کا موسم ہے، واقعی شکاری کتوں کو شہہ دے کر چھوڑا جارہا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں اور پچھاڑنے کی تگ و دو سے شائقین کے لیے تفریح کا سامان پیدا کرسکیں۔

گذشتہ روز اسی اخبار کی شائع کردہ ایک خبر کے مطابق پنجاب کے ضلع چکوال میں ان دنوں کتوں کی لڑائی کے مقابلے ہورہے ہیں۔

شاید یہ جبّلی طور پر ہمارے فوجی خون کا ہی اثر ہے کہ جس کی تسکین کے لیے ہم نے کتوں کی طرح کئی جانوروں کو اس خونی کھیل کے سلسلے میں شامل کرلیا ہے۔

مرغوں کی لڑائی بھی ملک میں اس نوع کا عام کھیل ہے اور اس ظالمانہ کھیل کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی بہت ہی کم اقدامات کیے جاسکے ہیں۔

جہاں تک اس طرح کے ظالمانہ کھیلوں کی روک تھام کی بات ہے تو اس ضمن میں ملکی قوانین بہت قدیم ہوچکے۔

ایسا قانون کہ جس کے تحت مرتکب افراد کو قابلِ گرفت لایا جاسکتا ہے، وہ ہے سن اٹھارہ سو نوّے کا 'پریوینٹیشن آف کرولٹی ٹو اینیملز ایکٹ' یا جانوروں پر ظلم و ستم کی روک تھام کا قانون۔

اس قانون کے تحت جانوروں کی لڑائی پر شرط لگانا یا ان سے لڑائی کا خونی کھیل کرانا، قابلِ گرفت جرم ہے، جس کی سزا بھی اس قانون میں درج  ہے۔

تاہم یہ نو آبادیاتی دور کا قانون شاید ہی نافذ ہوسکے۔ بطور معاشرہ پرندوں اور دیگر جاندار مخلوق کی طرف، مجموعی طور پر ہمارا رویہ نہایت بے رحمانہ ہے۔

حقیقت میں کھیل کے طور پر جانوروں کی لڑائی کرنا، ان پر روا ظلم کی سب سے شدید شکل ہے:

 ہم سڑکوں پر آئے دن اس ظلم و ستم کے نظارے دیکھتے ہیں اور صرفِ نظر کر دیتے ہیں۔ بچے، کتے بلیوں پر پتھر برساتے ہیں اور پرندے پنجروں میں بھر کر سڑک کنارے فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمیں اس طرح کے ظلم و ستم کی مثالیں چڑیا گھروں تک میں بھی دیکھنے کو ملنے لگی ہیں کہ جہاں، اصولی طور پر جانوروں اور پرندوں کو اُن کی بہتری اور لوگوں کی معلومات کی غرض سے، قدرتی ماحول سے ہم آہنگ مسکنوں میں رکھا جانا ضروری ہے۔

صورتِ حال کے پیشِ نظر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اینیمل لاء یا جانوروں کے لیے قوانین پر فوری نظر ثانی کر کے اسے جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے۔

 جرمانے اور سزا کو بڑھایا جائے نیز مقامی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ اس طرح کے تمام خونی کھیلوں کی روک تھام کے لیے کارروائی کریں۔

علاوہ ازیں، صرف ایک جامع قانون ہی اس طرح کے مسائل کو موثر طور پر حل کرسکے گا۔

ایک اور بہت بڑا چیلنج معاشرے کے اجتماعی رویے اور اُن بے زبانوں کے لیے اِن کی حسایت میں تبدیلی کا بھی ہے، جو اپنی زبان سے اپنا دکھ بیان بھی نہیں کرسکتے۔

 

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں