• KHI: Clear 23.8°C
  • LHR: Cloudy 14.5°C
  • ISB: Partly Cloudy 15.1°C
  • KHI: Clear 23.8°C
  • LHR: Cloudy 14.5°C
  • ISB: Partly Cloudy 15.1°C

قصہ ہوائی سفر کا

شائع March 11, 2013

qissa aik hawaee safar ka 670
ہوائی اڈے کے پہلے گیٹ سے جہاز کے دروازے تک سب کچھ بھول بھلیاں محسوس ہوتا ہے۔ آپ کی اور آپ کے ساتھ بندھے سامان کی تلاشی ایسے ہوتی ہے جیسے آپ مسافر نہیں دہشت گرد ہیں۔ ہاتھ اور مشینوں سے ہر دو قدم بعد ایسے ٹٹولا جاتا ہے کہ خواہش ہوتی کہ کاش بیوی نے ہماری جیب کی بجائے کبھی ہمیں ایسے ٹٹولا ہوتا۔ قانونی ہاتھ آپ کے جسم پر ایسے چل رہے ہوتے ہیں کہ کئی بار سینٹی میٹر کے فرق سے شرم پانی پانی ہونے سے بچ جاتی ہے۔—. فوٹو رائٹرز


is blog ko Mirza Yasin Baig ki awaaz mein sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو مرزا یٰسین بیگ کی آواز میں سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں

[soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/82730986" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


مرزا یاسین بیگ کا ہفت وار بلاگ “پارچے” ۔

آج کی دنیا میں ائیر پورٹ کا وہی مقام ہے جو ہر گھر میں واش روم کا۔ جب بھی گھر سے یا ملک سے باہر نکلنا ہو واش روم اور ائیرپورٹ ضروری ہے۔ ائیرپورٹ پر قسم قسم کے جہاز، مسافر، پائلٹس اور ائیرہوسٹس ملتی ہیں۔ ان چاروں کے تال میل سے ہی سفر بنتا ہے۔

ائیر پورٹ کا وہ حصہ جہاں جہازوں کی حکمرانی ہوتی ہے اسے رن وے کہتے ہیں۔ رن وے کے بغیر جہاز نہیں اُڑسکتا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جہازوں کی نیچر بھی زمیندارانہ ہوتی ہے۔ جب تک رن وے کی صورت میں انہیں ایک بڑی سی  شفاف پکی زمین دستیاب نہ ہو وہ اُڑان بھرنا ہی نہیں چاہتے۔

سائنس نے بڑی ترقی کرلی مگر جہازوں کے اڑان کے لیے رن وے چھوٹا نہ کرسکی۔

اب ممالک کی ترقی کا ایک پیمانہ ان کے ائیرپورٹ بھی ہوتے ہیں۔ جیسے کسی کے لباس و آرائش کو دیکھ کر اس کی امارت کا اندازہ لگایا جاتا ہے ویسے ہی ائیرپورٹ دیکھ کر بھانپ لیا جاتا ہے کہ وہ شہر یا ملک کتنا جدید اور خوبصورت ہوگا۔ سفر کا لطف ہی ائیرپورٹ کی جدیدیت پر منحصر ہوتا ہے۔

سگریٹ اور ہوائی سفر اپنے آغاز اور اختتام پر ہی اصل لطف دیتے ہیں۔ ہوائی سفر کا سارا ایڈونچر اسی وقت محسوس ہوتا ہے جب آپ ہوائی اڈے سے اُڑ رہے یا ہوائی اڈے پر اُتر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ائیرپورٹ کو اردو میں ہوائی اڈہ کہتے ہیں۔

ہمارے اکثر ہوائی اڈوں اور بس اڈوں میں بڑی مماثلت ہوتی ہے  کم از کم چائے اور ڈرائیور و پائلٹ کی حد تک۔ ہمارا تو رکشہ ڈرائیور بھی پائلٹ سے کم نہیں ہوتا ۔

ائیرپورٹ دیکھ کر اس ملک کے تہذیب یافتہ ہونے کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ائیرپورٹ انٹرنیشنل ہو یا ڈومیسٹک مزہ ایک ہی دیتا ہے۔ انسانی جذبات کو اگر کوزے میں دیکھنا ہے تو ائیرپورٹ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ الف کی بارات آرہی ہو یا بے کی میّت، کوئی نوکری کے لیے بدیس جارہا ہو یا کوئی حج و عمرے کے لیے مکہ مدینہ، کوئی امریکہ، کینیڈا سے بیس سال بعد عزیزوں سے ملنے آرہا ہو یا کوئی امیگریشن لے کر پہلی بار آسٹریلیا جارہا ہو، کوئی دُم دبا یا منہ چھپا کر ملک سے فرار ہو رہا ہو یا کسی کو بیرون ملک سے گرفتار کرکے لایا جارہا ہو، دنیا کا ہر رنگ، ہر جذبہ ائیرپورٹ پر دیکھنے کو مل جاتا ہے۔

خوشی اور غم کی اصلی کیفیت دیکھنا ہو تو ائیرپورٹ سے بہترجگہ کوئی نہیں۔ یہاں شریف بھی مل جاتا ہے اور عادی مجرم بھی۔ یہاں پینٹ کوٹ کے ڈیزائن بھی مل جاتے ہیں، شلوار قمیض، لانگ ڈریس اور اسکرٹس کے جدید فیشن بھی۔ اسکارف سے ڈھکی ثریا بھی اور منّی سی ٹاپ و چڈی میں ملبوس شیرل بھی۔

ایک زمانہ تھا لوگ ہوائی جہاز میں سفر کرنے سے ڈرتے تھے، اب ہوائی جہاز کو لوگوں سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد سفر  نہ کررہا ہو۔ اب تو ہوائی اڈے پر اتنی سیکیورٹی ہوتی کہ جب تک سیٹ پر بیٹھ کر ائیرہوسٹس کا چہرہ نہ دیکھ لیں لگتا ہے ہوائی اڈے پر نہیں فوجی اڈے پر آئے ہیں۔

پانچ سو مسافروں میں اگر ایک دہشت گرد نکل آئے تو باقی سب کی آنکھیں اور بہت کچھ نکل آتا ہے۔ ایسے موقع پر سب کو اپنا خدا، اپنی بیوی اور اپنی اولاد یاد آجاتی ہے۔

اس وقت جہاز میں وہی کیفیت ہوتی ہے جو برسوں سے پاکستان میں ہے۔

جہاز کا ٹکٹ اور محبوبہ کو سمجھنا ایک جیسا مشکل کام ہے۔ جب تک تین، چار محبوبائیں اور اتنی ہی تعداد میں ائیر لائنز کے ٹکٹ استعمال نہ کرلو آدمی ایزی فیل نہیں کرتا۔ ایک ٹکٹ پر اتنے ٹھپّے لگتے اور اس کے اتنے ٹکڑے ہوتے ہیں کہ آدمی دل مسوس کر رہ جاتا ہے کہ میری بھاری رقم کا کیا کچومر بنایا جارہا ہے، بلکہ نئے نویلے مسافر کو یہ بھی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کیا اس بچے کھچے ٹکٹ سے میری واپسی بھی ہوجائے گی کہ نہیں؟

جب آپ کو جہاز پر دھڑام سے آپ کی بک کی ہوئی سیٹ پر پھینکا جاتا ہے تب آپ پہلی بار یقین کرتے ہیں کہ ہاں واقعی آپ ہوائی اڈے کے راستے جہاز تک ہی پہنچے ہیں۔

ہوائی اڈے کے پہلے گیٹ سے جہاز کے دروازے تک سب کچھ بھول بھلیاں محسوس ہوتا ہے۔ آپ کی اور آپ کے ساتھ بندھے سامان کی تلاشی ایسے ہوتی ہے جیسے آپ مسافر نہیں دہشت گرد ہیں۔ ہاتھ اور مشینوں سے ہر دو قدم بعد ایسے ٹٹولا جاتا ہے کہ خواہش ہوتی کہ کاش بیوی نے ہماری جیب کی بجائے کبھی ہمیں ایسے ٹٹولا ہوتا۔ قانونی ہاتھ آپ کے جسم پر ایسے چل رہے ہوتے ہیں کہ کئی بار سینٹی میٹر کے فرق سے شرم پانی پانی ہونے سے بچ جاتی ہے۔ ان تمام کارروائیوں اور راہداریوں سے گزار کر جب آپ کو آپ کی بیچی گئی سیٹ پر پھینکا جاتا ہے تو آپ نفسیاتی طور پر اتنے ادھ مرے ہوچکے ہوتے ہیں کہ ائیرہوسٹس ماں بہن لگنے لگتی ہے۔ کچھ دیر کی ٹھنڈی سانسوں اور عقل کی واپسی کے بعد جب سیٹ پر نظر پڑتی ہے تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی سیٹ ہے جو اتنے مہنگے داموں خریدی گئی ہے۔ پھر بذریعہ مائیک جو ہدایت نامے کانوں تک پہنچتے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے آپ سفر نہیں کررہے بلکہ اسکول میں داخل ہوگئے۔

پہلی بار سفر کرنے والے کے لیے واش روم اور ائیرہوسٹس کے استعمال کا طریقہ سمجھنے سمجھنے تک اس کی منزل مقصود آجاتی ہے اور سارے ارمان پیٹ اور دل میں دھرے رہ جاتے ہیں۔

اکثر ائیر ہوسٹس مسافروں سے ایسا سلوک کرتی ہیں جیسے بڑی سالیاں اپنے پرانے جیجا جی سے کرتی ہیں۔ بیشتر مسافر پڑوسی کی صورت اور سیرت کے جائزے کے بعد مایوس ہوکر سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جاگتے صرف وہ ہیں جو مایوسی کو کفر یا اپنی بیوی کو حسین سمجھتے ہیں۔ جہاز کا کھانا تعریف، تنقید اور ایکسپائری ڈیٹ سے مبرُا ہوتا ہے۔ ایسے کھانے کو چکھتے ہی بیوی کے ہاتھ کے کھانے بہت مزیدار لگنے لگتے ہیں۔

ہوائی سفر کا ایک مزیدار حصہ وہ ہوتا ہے جب آپ اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر جہاز سے اتر کر ہوائی اڈے پر اپنے سامان کو واپس وصول کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور سامانوں کے چکر لگاتے ریلنگ میں اپنا سامان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، ایسے میں آپ کے اردگرد ایسی حسینائیں بھی نظر آتی ہیں جو آپ کو اس مخمصے میں ڈال دیتی ہیں کہ آپ اپنے سامان پر نظر رکھیں یا حسن کے ان لبالب سوٹ کیسوں پر۔ پھر آپ اپنی قسمت پر لعنت ملامت بھی کرتے ہیں کہ آپ کو جہاز  کے اس کونے پر سیٹ کیوں نہ ملی جہاں  یہ اسبابِ دل پذیر موجود تھا۔ فلموں میں یہ رومانی منظر عام ہوتا ہے کہ جب ہیرو ٹرالی پر سامان لادے ہوائی اڈے سے باہر نکل رہا ہوتا ہے تو ایک خوبصورت ہیروئین ضرور ٹکراجاتی ہے مگر عام زندگی میں اسی منظر میں کسٹم والے ٹکراجاتے ہیں اور آپ کے سامان کو اس طرح تتربتر کردیتے ہیں جیسے یہاں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوا ہو۔ پھر آپ قسم کھاتے ہیں کہ  آئندہ ہوائی اڈے کی شکل نہیں دیکھیں گے۔ مگر آج کے دور میں ہوائی اڈے کے بغیر جینا دشوار ہے۔ سسرال، نوکری، ہنی مون، تجارت ، تعلیم غرض یہ کہ زندگی کے سینکڑوں کام ہوائی اڈے کو استعمال کیے بغیر ممکن نہیں۔


Mirza Yasin Baig  مرزا یاسین بیگ شادی شدہ ہونے کے باوجود مزاح اور صحافت کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور گلے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

مرزا یٰسین بیگ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

hassansuhrawardy Mar 11, 2013 08:54am
Wah buhat khub. Alfaaz ka itna haseen aur ba mauqa istemal hai kay maza agaya parh kar.

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025