اگر ہو دیں سیاست میں

گزشتہ ماہ ایک وقت آیا جب پاکستان کی عوام اپنے ہزارہ بھائیوں کی شہادت کو فراموش کرکے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے اور سابقہ مشرقی پاکستان کی عوام شاہ باغ سکوئر میں جماعت اسلامی کے راہنماؤں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
25 سال کے دوران مرکزی حکومت نے جو سلوک بنگالیوں کے ساتھ روا رکھا، یہ کوئی معجزہ نہیں تھا کہ وہاں کے لوگوں نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھ لینے کا فیصلہ کیا۔ زبان کے مسئلے سے لے کر ثقافتی تفریق تک پاکستان کی حکومت یا عوام نے کبھی بنگال کے باسیوں کو اپنایت کا احساس نہیں دلایا، باوجود اس حقیقت کے، کہ یہ بنگال ہی تھا جس کی تقسیم کے باعث تقسیم ہند کی چنگاری پہلی دفعہ اڑی، مسلم لیگ بنگال میں قائم ہوئی اور قرارداد لاہور بھی تو بنگال کے رہائشی مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔
پاکستان کے قیام کے بعد ہوا کچھ یوں کہ پاکستان کی ’نظریاتی اساس‘ کی ٹھیکے داری ان لوگوں نے اٹھا لی جو ایک زمانے میں پاکستان کے قیام کے حامی ہی نہیں تھے۔
جماعت اسلامی کے بانی کے مسلم لیگ سے تعلقات کبھی بھی خوش گوار نہیں رہے لیکن چند اتار چڑھاؤ ایسے بھی آئے جن کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ مودودی صاحب نے مولانا حسین احمد مدنی (جو جمیعت علمائے ہند کے راہنما اور کانگریس کے حلیف تھے) کے پمفلٹ ’متحدہ قومیت اور اسلام‘ کا جواب لکھا تو مسلم لیگی حلقوں میں انہیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔
1937میں پنجاب مسلم لیگ کے صدر علامہ اقبال ایک مجوزہ ’دارالعلوم‘ کے قیام اور قیادت لیے کسی مناسب عالم کی تلاش میں تھے تو ان کے رفیق چوہدری نیاز علی نے ان کی اور مودودی صاحب کی ملاقات کروائی۔
بعدازاں مودودی صاحب اس ’دارالاسلام‘ میں کام کرتے رہے لیکن ایک ہی سال بعد ’اسلامی حکومت‘ کی اصطلاح بہت زیادہ استعمال کرنے پر چوہدری نیاز نے انکو بوریا بستر سمیٹنے کا عندیہ دیا۔ علامہ اقبال کے سیکرٹری، میاں محمد شفیع کے مطابق اقبال مودودی سے کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوئے تھے اور ان کی رائے میں مودودی صاحب کی حیثیت محض ایک ’ملاّ‘ کی تھی۔
مارچ 1971میں بنگال کی سب سے مقبول جماعت عوامی لیگ نے انتخابات میں واضح برتری کے باعث اقتدار کا مطالبہ کیا تو پاکستانی حکومت کی جانب سے بندوق کے ذریعے جواب دیا گیا۔
اس قتل عام میں فوج کا ساتھ دینے والوں میں جماعت اسلامی کی ’البدر‘ اور ’الشمس‘ شامل تھیں۔ ان حضرات نے چن چن کر بنگالی دانشوروں اور عوامی لیگ سے ہمدردی رکھنے والے شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو قتل کیا۔
مارے جانے والوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہیں بوگس نظریات کے تحت اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا منظور نہیں تھا۔
چند روز قبل جماعت کے ایک کارکن نے ہم سے بات کرتے ہوئے البدر اور الشمس والوں کو ایک شاندار مثال قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر وہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہوتے تو اپنے ہاتھ سے ان لوگوں کو قتل کرتے جنہوں نے دوقومی نظریے سے انحراف کا جرم کیا تھا۔
البدر کے درندوں کی دانشوروں کو خصوصاََ نشانہ بنانے کی منطق استاد محترم جناب وجاہت مسعود نے یوں بیان کی:
’متحدہ پاکستان میں اردو، اسلام اور ہندوستان دشمنی کی تین پہیوں والی سائیکل چلانے والے ہمیشہ یہی کہتے اور سمجھتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی بے گانگی کا اصل سبب معاشی ناہمواری اور سیاسی استحصال نہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بالخصوص ہندو اساتذہ ہیں جو عوام میں الٹی سیدھی باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ بنگالی عوام کے سیاسی شعور کی بیداری میں وہاں کے روشن خیال اور جمہوریت پسند دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا‘۔ اور عقل و دانش کا تذکرہ تو جہاں بھی آ جائے، ہمارے مرد ِ مومنوں کو وہاں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، جیسا کہ ہمارے ایک عزیز کا مشہور مقولہ ہے، ’مسلمان اور عقل کا استعمال، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘
ہمارے خیال میں بنگلہ دیش میں جو سلوک مذہب کے ٹھیکے داروں سے روا رکھا گیا ہے، اس کی مثال موجودہ دور میں نہیں ملتی اور اس مثال کو مزید ممالک میں دہرائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
وہ وقت دور نہیں جب بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر سرکاری پابندی عائد کی جائے گی اور مذہب و ریاست کو یک جا سمجھنے والوں کے ’تاج اچھالے جائیں گے‘۔
اْدھر سونار دیش میں بیداری کا عالم ہے اور ہمارے وطن میں اب تک مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ کوئٹہ کے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ کراچی میں ایک سانحہ برپا ہو گیا۔ بقولِ سلمان حیدر صاحب، ’مذہب اور سیاست کے معانقے کے بارے اپنی وصیت لکھواتے وقت اقبال نے چنگیزی کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی، وہ حرف بہ حرف پوری ہوئی اور دین اور سیاست کے عید ملنے میں چنگیزی صاحب پر محرم گزر گیا۔‘
شاہ باغ کے مظاہرین تو مذہب اور سیاست کے تعلق کو قطع کرنے کے درپے ہیں اور یہاں مذہب کی آڑ میں کبھی شانتی نگر، کبھی گوجرہ، تو کبھی بادامی باغ پر قیامت برپا کر دی جاتی ہے۔
عیسائی گھروں کو لگنے والی آگ رحمت تو ہرگز نہیں تھی. ہمارا شاہ باغ کہاں ہے؟ ہمیں عقل کب آئے گی؟ اس ملک میں کسی بھی اقلیت کو جینے کا حق کب دیا جائے گا ؟ کب نظر آئے گی بے داغ سبز ے کی بہار؟
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (6) بند ہیں