• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

اگر ہو دیں سیاست میں

شائع March 12, 2013

فائل فوٹو --.

گزشتہ ماہ ایک وقت آیا جب پاکستان کی عوام اپنے ہزارہ بھائیوں کی شہادت کو فراموش کرکے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے اور سابقہ مشرقی پاکستان کی عوام شاہ باغ سکوئر میں جماعت اسلامی کے راہنماؤں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہی تھی۔

25 سال کے دوران مرکزی حکومت نے جو سلوک بنگالیوں کے ساتھ روا رکھا، یہ کوئی معجزہ نہیں تھا کہ وہاں کے لوگوں نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھ لینے کا فیصلہ کیا۔ زبان کے مسئلے سے لے کر ثقافتی تفریق تک پاکستان کی حکومت یا عوام نے کبھی بنگال کے باسیوں کو اپنایت کا احساس نہیں دلایا، باوجود اس حقیقت کے، کہ یہ بنگال ہی تھا جس کی تقسیم کے باعث تقسیم ہند کی چنگاری پہلی دفعہ اڑی، مسلم لیگ بنگال میں قائم ہوئی اور قرارداد لاہور بھی تو بنگال کے رہائشی مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔

پاکستان کے قیام کے بعد ہوا کچھ یوں کہ پاکستان کی ’نظریاتی اساس‘ کی ٹھیکے داری ان لوگوں نے اٹھا لی جو ایک زمانے میں پاکستان کے قیام کے حامی ہی نہیں تھے۔

جماعت اسلامی کے بانی کے مسلم لیگ سے تعلقات کبھی بھی خوش گوار نہیں رہے لیکن چند اتار چڑھاؤ ایسے بھی آئے جن کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ مودودی صاحب نے مولانا حسین احمد مدنی (جو جمیعت علمائے ہند کے راہنما اور کانگریس کے حلیف تھے) کے پمفلٹ ’متحدہ قومیت اور اسلام‘ کا جواب لکھا تو مسلم لیگی حلقوں میں انہیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔

1937میں پنجاب مسلم لیگ کے صدر علامہ اقبال ایک مجوزہ ’دارالعلوم‘ کے قیام اور قیادت لیے کسی مناسب عالم کی تلاش میں تھے تو ان کے رفیق چوہدری نیاز علی نے ان کی اور مودودی صاحب کی ملاقات کروائی۔

بعدازاں مودودی صاحب اس ’دارالاسلام‘ میں کام کرتے رہے لیکن ایک ہی سال بعد ’اسلامی حکومت‘ کی اصطلاح بہت زیادہ استعمال کرنے پر چوہدری نیاز نے انکو بوریا بستر سمیٹنے کا عندیہ دیا۔ علامہ اقبال کے سیکرٹری، میاں محمد شفیع کے مطابق اقبال مودودی سے کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوئے تھے اور ان کی رائے میں مودودی صاحب کی حیثیت محض ایک ’ملاّ‘ کی تھی۔

مارچ 1971میں بنگال کی سب سے مقبول جماعت عوامی لیگ نے انتخابات میں واضح برتری کے باعث اقتدار کا مطالبہ کیا تو پاکستانی حکومت کی جانب سے بندوق کے ذریعے جواب دیا گیا۔

اس قتل عام میں فوج کا ساتھ دینے والوں میں جماعت اسلامی کی ’البدر‘ اور ’الشمس‘ شامل تھیں۔ ان حضرات نے چن چن کر بنگالی دانشوروں اور عوامی لیگ سے ہمدردی رکھنے والے شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو قتل کیا۔

مارے جانے والوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہیں بوگس نظریات کے تحت اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا منظور نہیں تھا۔

چند روز قبل جماعت کے ایک کارکن نے ہم سے بات کرتے ہوئے البدر اور الشمس والوں کو ایک شاندار مثال قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر وہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہوتے تو اپنے ہاتھ سے ان لوگوں کو قتل کرتے جنہوں نے دوقومی نظریے سے انحراف کا جرم کیا تھا۔

البدر کے درندوں کی دانشوروں کو خصوصاََ نشانہ بنانے کی منطق استاد محترم جناب وجاہت مسعود نے یوں بیان کی:

’متحدہ پاکستان میں اردو، اسلام اور ہندوستان دشمنی کی تین پہیوں والی سائیکل چلانے والے ہمیشہ یہی کہتے اور سمجھتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی بے گانگی کا اصل سبب معاشی ناہمواری اور سیاسی استحصال نہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بالخصوص ہندو اساتذہ ہیں جو عوام میں الٹی سیدھی باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ بنگالی عوام کے سیاسی شعور کی بیداری میں وہاں کے روشن خیال اور جمہوریت پسند دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا‘۔ اور عقل و دانش کا تذکرہ تو جہاں بھی آ جائے، ہمارے مرد ِ مومنوں کو وہاں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، جیسا کہ ہمارے ایک عزیز کا مشہور مقولہ ہے، ’مسلمان اور عقل کا استعمال، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘

ہمارے خیال میں بنگلہ دیش میں جو سلوک مذہب کے ٹھیکے داروں سے روا رکھا گیا ہے، اس کی مثال موجودہ دور میں نہیں ملتی اور اس مثال کو مزید ممالک میں دہرائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔

وہ وقت دور نہیں جب بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر سرکاری پابندی عائد کی جائے گی اور مذہب و ریاست کو یک جا سمجھنے والوں کے ’تاج اچھالے جائیں گے‘۔

اْدھر سونار دیش میں بیداری کا عالم ہے اور ہمارے وطن میں اب تک مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ کوئٹہ کے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ کراچی میں ایک سانحہ برپا ہو گیا۔ بقولِ سلمان حیدر صاحب، ’مذہب اور سیاست کے معانقے کے بارے اپنی وصیت لکھواتے وقت اقبال نے چنگیزی کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی، وہ حرف بہ حرف پوری ہوئی اور دین اور سیاست کے عید ملنے میں چنگیزی صاحب پر محرم گزر گیا۔‘

شاہ باغ کے مظاہرین تو مذہب اور سیاست کے تعلق کو قطع کرنے کے درپے ہیں اور یہاں مذہب کی آڑ میں کبھی شانتی نگر، کبھی گوجرہ، تو کبھی بادامی باغ پر قیامت برپا کر دی جاتی ہے۔

عیسائی گھروں کو لگنے والی آگ رحمت تو ہرگز نہیں تھی. ہمارا شاہ باغ کہاں ہے؟ ہمیں عقل کب آئے گی؟ اس ملک میں کسی بھی اقلیت کو جینے کا حق کب دیا جائے گا ؟ کب نظر آئے گی بے داغ سبز ے کی بہار؟


majeed abid 80عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (6) بند ہیں

شانزے Mar 12, 2013 02:32pm
ملا فساد فی سبیل اللہ کہ تو نے پوری قوم کو فرقوں میں بدل کے رکھ دیا جو بیج بھٹو نے بویا اور ضیاء نے جس کی آبیاری جماعت فسادی اور سعودیوں کی مدد سے کی آج ھم اس کا کڑوا پھل کھا رھے ھیں اگر ان کا خاتمہ کرنا ھے تو مدرسہ سسٹم کو مین سٹریم میں لانا ھو گا اور اس سے ملا کی اجاداری کو ختم کرنا ھو گا یہی وھ جگہ ھے جہاں ایک مخصوص مینڈسیٹ کو پروان چڑھایا جاتا ھے اور اپنے مزموم مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا جاتا ھے 
انصمام احمد Mar 12, 2013 05:53pm
یہاں اس تحریر کے مصنف نے دو تین باتوں کو خلط ملط کرکے جس انداز میں اپنے ذپنی انتشار کا ثبوت دیا ہے، اس پر حیرت بھی ہے اور افسوس بھی۔ انہوں نے سانحہ بنگال کا تجزیہ جس انداز میں کیا اور پھر اسے اسلام کے ساتھ جوڑ کر جو کھچڑی بنائی ہے اور ساتھ ہی جس طرح ۱۹۷۱ کے واقعات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کیا ہے اس طرح کی شعبدہ بازی لبرل سیکولر طبقے کا خاصہ بن جاتا ہے۔ یعنی یہ مسائل کا تجزیہ بھی غلط کرتے ہیں، ان کی بنیاد پر مبالغے، مغالطے کی بنیاد پر مفروضے گھڑتے ہیں اور پھر ان کا حل یہ پیش کرتے ہیں کہ اسلام اور اسلام پسندوں کو غیر موثر کیا جائے، ان کو معاشرتی و سماجی دھارے سے بیدخل کیا جائےتاکہ میدان لبرل سیکولر طبقوں کے لئے کھلا مل جائے جہاں یہ بے پرواہ ہو کر اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہیں۔ یہ میں نے ایسا کیوں لکھا۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں ۱- پاکستان کا وجود میں آنے کے لئے اسلام کا جواز تو فراہم کیا گیا لیکن اسلام کا نظام نافذ کرنے کی بجائے برطانوی نو آبادیاتی نظآم ہی نافذ کیا گیا اور فوج اور سول بیوروکریسی کا نظام اسلامی بالکل نہیں تھا اور نہ ہی حکومت و فوج میںموجود افراد کی سوچ اسلام کے مطابق تھی۔ صرف نام اسلام کا لیا گیا یعنی وعدہ کیا گیا لیکن نظام کفری اور استحصالی ہی رہا ۔ بنگال ہو اور مغربی پاکستان کے علاقے وہاں جاگیرداری اور استحصالی نو آبادیاتی برطانوی نظآم ہی رائج رہا اور عوام کو اسی لبرل سیکولر آمرانہ نظام سے واسطہ پڑا۔ اوب خان اور یحییٰ خان کی فوج میں اسلام کو صرف جذباتی نعرے اور شناخت کے لئے استعمال کیا جاتا اور، وہاں شرابیں اور غیر اسلامی طرزِ معاشرت نمایاں تھآ۔ جب نظآم ہی غلاظت کا ڈھیر تھا تو اس میں اسلام اور اسلام پسندوں کا قصور سمجھ سے بالا تر ہے۔ ۲- بنگال میں یقینا اس وقت کا لبرل آمرانہ نو آبادیاتی نظام استحصال کر رہا تھا جو اسلام کے کسی پیمانے کے مطابق بھی جائز نہیں تھا اور نہ ہی اسلام پسندوں نے اس کو جواز دیا، لیکن اس ظلم کے ردِ عمل کے طور پر بنگالی قومی تعصب کی جو آگ بھڑکائی گئِ ، اور شیخ مجیب اور بھٹو جیسے لبرل سیکولر شخصیات نے جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان پر کسی دینی سیاسی جماعت یا علماء کی حکومت نہیں رہی اور نہ فوج پر اس وقت اسلام پسند نظریات غالب ہوئے تھے۔ پھر اس صورت میں صرف اسلام کا ڈھّنگ رچانے پر لبرل سیکولر عناصر اپنا گناہ بھی اسلام پر دھرتے ہیں اور جب کھل کر نہیں کر سکتے تو منافقوں کی طرح اسلام پسندوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ۳- کوئی بھی وقوم محرومی جب اندھے تعصب کی شکل اختیار کرلے تو اس میں حالات کا درست تجزیہ کی بجائے نفرت، اشتعال اور مبالغے پر مبنی تناظر جنم لیتا ہے جو کہ عوام کی نا پختہ سیاسی شعور کی وجہ سے مزید شعلہ بن کر سب کو جلانا شروع کردیتا ہے۔ یہ جلد ہی جرمن فاشزم کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو کہ کم تشویش ناک نہیں۔ بنگال میں آگ میں بہاری بھی نشانہ بنے جو کہ اتنے کی استحالی نظام سے متاثر تھے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ انہوں نے علیحدگی کی مخالفت کی؟ ۴- جماعتٰ اسلامی ایک متوسط طبقے کی جماعت ہے اور اس کی بنگال میں بھی جڑیں اتنی ہی مضبوط اور گہری تھیں جتنی آج اردو سپیکنگ والوں میں ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر جاعتِ اسلامی نے اسلام کی بنیاد پر علیحدگی کی مخالفت کی تو اس میں وہ حق بجانب کیوں نہیں؟ کیا جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش میں بنگالی نہیں تھے؟ ۵- اب یہ واضح ہو گیا کہ بنگال میں علیحدگی کے جذبات کے اصل ذمہ دار لبرل طبقہ اور یہ فسادی لبرل فرسودہ نظام ہے لیکن اگر پھانسی کا مطالبہ ہے تو اسلام پسندوں کے لئے۔ بھٹو اور اس جیسے لبرل طبقات کے لئے کیوں نہیں جو مسئلے کی اصل جڑ تھے؟ کیا کل امریکہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کی سزا بھی اسلام پسندوں کو ملے گی؟ یا چاپان میں اگلے زلزلے کی سزا بھی علماء کو دی جائے گی؟ یعنی کینسر کے جراثیم کو تو چھوڑ دیا جائے اور کینسر کے علاج کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ یہ تو انتہائی احمقانہ منطق ہوئی۔ افغانستان میں طالبان کے زیرِ انتظام معاشی تنگدستی کے باوجود جیسا مثالی امن اور انصاف کا نظام رائج تھا اگر بنگال میں بھی ہوتا تو کبھی علیحدگی کی تحریک نہ چلتی۔ ۶- جنرل ضیاء الدین جو کہ عوامی لیگ میں شیخ مجیب کا بایاں باو تھآ، جب اس نے شیخ کو مار کر ملک پر فوجی حکومت قائم کی اور اسلام ی بنیاد پر معاشرے کی تشکیلِ نو کی تو اس کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنگال کی مسلم ریاست کے استحکام کے لئے بھی اسلام ہی کو حل سمجھا گیا اور وقمی تعصب کو خود اس کی خالق جماعت کے رکن نے ہی علیحدگی کے بعد دفن کر دیا۔/
Ajaz Khan Mar 13, 2013 12:08pm
Excellent article. I agree that unless this Nation realises that what atrocities has been done to them in the name of the peaceful Islam by the Moulvies of this Nation is criminal and should be eliminated. This is a Cancer to Pakistan and has to be operated and eliminated to let Pakistan Live.
Tariq Rahim Mar 13, 2013 03:01pm
سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال مذہب کی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف ہے یا مذہب کو زندگی سے بے دخل کرنے کے مترادف؟ حضرت مجدد الف ثانی نے افلاطون کو گمراہ قرار دیا ہے اور اقبال نے اُس کے بارے میں کہا ہے کہ اسے نہ غیب سے تعلق ہے‘ نہ اسے حضوری کی دولت حاصل ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں: تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعراف مگر اس کے باوجود افلاطون نے سیاست اور ریاست کے مسائل کا حل یہ بتایا ہے کہ یا تو حکمران فلسفی بن جائے یا کسی فلسفی کو حکمرانی فراہم ہوجائے۔ ہم اپنی اصطلاحیں استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ افلاطون نے کہا ہے کہ یا تو اقتدار علماء کو حاصل ہوجائے یا اقتدار پر فائز ہونے والے ’’عالم‘‘ بن جائیں۔ سیاست اور ریاست کے مسائل کا اصل حل یہی ہے۔ غور کیا جائے تو پاکستان کی 62 سالہ تاریخ خود اس امرکی غماز ہے کہ اقتدار عالموں کو سونپے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی تاریخ سیکولر حکمرانوں کی تاریخ ہے۔ بلاشبہ علماء نے اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد ضرور کی ہے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی‘ چنانچہ پاکستان کی تمام ناکامیوں کی ذمہ داری سیکولر حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ غیر علماء اگر سیاست کے اہل ہوتے تو آج پاکستان کے حالات بہت مختلف ہوتے۔
Salman Mar 13, 2013 03:52pm
You have slapped the author with so much rational reasoning that he will be icing his face for the days to come. Right and spot-on analysis of the article while expressing the criticism in the best words possible, exposing the true face of these minority seculars who want to rule the majority of this nation. Their logic and reasoning is as flawed and despicable as their intentions for this country.
Darvesh Khurasani Mar 13, 2013 05:40pm
میرے خیال میں طارق ساحب اور انضمام احمد صاحب کے اس مضمون پر تبصروں کے بعد کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن اگر پھر بھی مصنف مضمون ھذا کو تکلیف ہے تو اسکی خدمت میں عرض ہے کہ کسی اچھے سے ماہر پاگلیات سے اپنے دماغ کا علاج کرائے تاکہ آئیندہ اگر سوچھے تو صحیح سوچ سکے.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025