آرام باغ، کراچی، فوٹو -- اختر بلوچ محمد عثمان دموہی اپنی کتاب "کراچی تاریخ کے آئینے میں" صفحہ نمبر 110 پر تقسیم سے قبل کراچی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کراچی کے ہندو و مسلمان باہم مل جل کے رہتے تھے اور دونوں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ محرم میں مسلمان کراچی کی سڑکوں پر تعزیوں اور علم کے جلوس نکالتے تھے اور ہندو دسہرا میں نہایت دھوم دھام سے کالی مائی کا جلوس نکالتے تھے۔ "رام باغ" کے حوالے سے صفحہ نمبر 738 پر لکھتے ہیں کہ یہ کراچی کا ایک پرانا تفریحی باغ اور گراؤنڈ ہے۔ اس کے کچھ حصے پر سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کے مذہبی اجتماعات کے لیے مخصوص تھا تاہم یہاں کبھی کبھی سیاسی جلسے بھی منقعد ہوتے تھے۔ اس باغ کے بارے میں ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنگلاج (بلوچستان) جاتے ہوئے یہاں ایک رات قیام کیا تھا۔ تقسیم ہند کے تقریباً چھ ماہ بعد ہی کراچی میں بسنے والے ہندوؤں اور سکھوں کے گھروں اور مذہبی مقامات پر حملوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ نامور مُحقق اور سیاسی تجزیا نگار زاہد چوہدری نے اپنے کتابی سلسلے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی جلد 4 جس کا عنوان "سندھ مسئلہ خودمُختاری کا آغاز" ہے کے باب کے صفحہ نمبر 217 پر ہندو مُسلم فسادات کے حوالے سے لکھا ہے؛ "ان حالات میں مولانا عبد الحامد بدایونی کی مُتحدہ جماعت کی تشکیل کے اگلے ہی دن یعنی 4 جنوری کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ "آج رتن تالاب (کراچی) کے سکھ گوردوارہ میں بدامنی کی افسوس ناک وارداتیں ہوئیں جہاں اڑھائی سو سکھ مرد عورتیں اور بچے بمبئی جانے کہ لیے مُقیم تھے۔ گوردوارہ کو آگ لگا دی گئی۔ تقریباََ 70 لوگ زخمی ہوئے۔ مسلح پولیس فوراََ پہنچی اور اِس نے گولی چلا کر ہجوم کو مُنتشر کیا۔ بعد ازاں فساد توپ خانہ میدان اور "رام باغ" تک پھیل گیا جہاں ہندوؤں کے بعض مکانات لوٹ لیے گئے۔ پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کے لیے دو مقامات پر گولی چلائی۔ وزیر اعظم سندھ مسٹر کھوڑو مجسٹریٹ مسٹر رضا کی معیت میں فوراً گوردوارہ پہنچے جہاں سے وہ دوسرے فساد زدہ علاقوں میں گئے اور ہندوؤں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا۔ سوراج بھون اور آریا سماج کی عمارت جلا دی گئی ۔(ہماری کوشش ہے کہ سوراج بھون اور آریا سماج کی عمارتوں کو بھی تلاش کیا جائے) اس فساد کی خبر جب گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو پہنچی تو انہیں بہت رنج ہوا زاہد چودھری کے مطابق انہوں نے فوراً اسکندر مرزا صاحب سیکریٹری وزارت دفاع کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ فلاں وقت تک مجھے رپورٹ آنی چاہیے کہ شہر میں بالکل امن ہو چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے کسی اور کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنا پڑے گا. اسکندر مرزا نے یہ حکم سنتے ہی واپس آکر کراچی کے کمانڈر جنرل، جنرل اکبر خان کو بلا کر وہی الفاظ ان سے کہے جو قائد اعظم نے ان سے کہے تھے۔ جنرل اکبر نے اس حکم کی فوراً تعمیل کی۔ اس نے فوراً موقع پر پہنچ کر فسادیوں پر گولی چلائی جس سے گیارہ فسادی مارے گئے اور ایک زخمی ہوا۔ اس طرح قائد اعظم کی جانب سے مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹا پہلے شہر میں امن و امان بحال ہو گیا۔ بحال ہونے والے علاقوں میں رام باغ کا علاقہ بھی شامل تھا۔ مُنشی لام پرشاد ماتھُر کی کتاب "ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت" کے صفحہ نمبر 45 پر 'رام رام رام' کے عنوان سے اُنہوں نے لکھا ہے کہ؛ "ہندوؤں نے پاک نام اور دعائے خیر کو بات بات پر ملانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاََ دو شخص مل کر "جے رام جی" یا "جے شری کرشن" کرتے ہیں۔ یعنی فتح یا بھلا ئی کی دعا کر کے بے غرضانہ طور پر اِس کو رام یا کرشن کو ارپن کر دیتے ہیں اور ذاتی نفع کی خواہش معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ صرف رام رام ہی کہہ دیتے ہیں جس میں اِس بے غرضی کا ذکر بھی نہیں ہونے پاتا۔ اگر تکلیف ہوتی ہے تو "ہائے رام" اگر خوشی ہوئی تو رام نے سُن لی، یا رام نے دَیا کی کہتے ہیں۔ بلکہ نفرت کے وقت بھی 'رام رام رام' کہنے لگتے ہیں"۔ رام کا کردار ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ نامور قانون دان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین امر ناتھ موٹو مل نے ہمیں اس حوالے سے بتایا کہ شری رام اپنے والد راجا دسرتھ کی بڑی اولاد تھے اور دسرتھ کے بعد تاج کے حقدار تھے۔ رامائین کے مُطابق ایک بار جب راجا دسرتھ جنگل میں شکار کر رہے تھے تو ایک سانپ نے اُنھیں ڈس لیا۔ اس موقع پر رام کی سوتیلی ماں رانی کیکئی نے اُن کی جان بچائی۔ راجا نے اس کے صلے میں رانی کو کہا کہ وہ کیا مانگنا چاہتی ہیں۔ رانی نے راجا کو کہا کہ وہ اس وقت کُچھ نہیں چاہتی لیکن وقت آنے پر راجا کو اس کے دو وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ راجا نے حامی بھرلی۔ جب راجا دسرتھ مرنے کے قریب تھا اور اُس نے اپنے بڑے بیٹے رام کو راجا بنانا چاہا تو رام کی سوتیلی ما ں نے راجا کو اپنے وعدے یاد دلائے۔ رانی نے راجا سے کہا کہ "رام" کے بجائے اُس کے بیٹے "بھرت" کو راجا بنائے اور "رام" کو چود ہ سال کے لیے بن واس (جنگل بدری) بھیج دے۔ راجا دسرتھ نے نہ چاہتے ہوئے بھی رانی کی دونوں خواہشیں پوری کیں۔ رام نے ایک فرماں بردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے باپ کے حُکم پر تخت و تاج چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ رام نے چودہ سال جنگل میں گذارے۔ راون سے جنگ لڑی اور کامیاب ہوکر چودہ سال بعد واپس اپنے وطن لوٹا۔ اس موقع پر رام کی آمد کی خوشی میں دیپ جلائے گئے۔ اس تہوار کو دیپا والی کہا جاتا تھا۔ جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دیوالی بن گئی۔ رام کی قربانی، فرماں برداری اور راون کو شکست دینے کی کہانی کو دسہرے کے تہوار کے دوران منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل اوراس کے بعد بھی کراچی میں رام لیلا کی کہانی اسٹیج پر پیش کی جاتی تھی۔ کراچی میں یہ کہانی رام باغ میں پیش کی جاتی تھی۔ جس میں رام کے بن واس (جنگل بدری) جانے اور واپسی تک کے تمام مراحل کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔ نامور ماہر تعلیم، دانشور اور مترجم پروفیسر کرن سنگھ کا کہنا ہے کہ چونکہ تقسیم ہند کے بعد ہونے والے فسادات کے سبب کراچی کے ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد ہندوستان منتقل ہو گئی تھی اس وجہ سے رام لیلا کراچی میں پھر کبھی نا ہو سکی۔ اور رفتہ رفتہ ممکن ہی نہ رہا کہ رام لیلا کی کتھا دس دن تک اسٹیج پر پیش کی جاسکے۔ لیکن آخر کراچی میں یہ رام باغ کہاں تھا جہاں دس دن تک رام لیلا کی کتھا اسٹیج پر ڈرامائی انداز میں پیش کی جاتی تھی؟

فوٹو -- اختر بلوچ ہندوؤں کی ایک سماجی تنظیم کے عہدے دار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر نے ہمیں بتایا کہ رام باغ سوامی نارائن مندر کے قریب واقع ہے۔ رام باغ ایک پارک تھا جہاں ایک اسٹیج بنایا گیا تھا اور دس دن تک یہ ڈراما پیش کیا جاتا تھا۔ سوامی نارائن مندر اور اس کی تاریخ کا ذکر پھر کبھی۔ ہم بات کر رہے تھے رام باغ کی تاریخ کے بارے میں، موصوف نے مزید بتایا کے رام باغ 1939ء میں ایک مخیر ہندو شخص دیوان جیٹھانند نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ رام باغ اب بھی سوامی نارائن مندر کے قریب برنس روڈ پر موجود ہے۔

فوٹو -- اختر بلوچ اس رام باغ کی آخری نشانی باغ سے کچھ دور ہمدرد دوا خانے والی سڑک پر بجلی کے ایک کھمبے پر لگی شکستہ پلیٹ ہے۔ جس اگر غور سے پڑھا جائے تو رام باغ روڈ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ رام باغ اب بھی موجود ہے لیکن اب یہاں رام لیلا کی کتھا پیش نہیں کی جاتی۔ رام باغ میں رام لیلا کی کی کتھا پیش کرنے کے لیے جواسٹیج تھا وہاں ایک عالیشان مسجد قائم ہے۔ جہاں پنجگانہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ کراچی کے باسی رام باغ کو اب آرام باغ کے نام سے جانتے ہیں۔

  اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں  

تبصرے (25) بند ہیں

Junaid Naseer Faroqui Mar 30, 2013 05:34am
wah wah wah Akhtar bhai... kamal hogaya... 'jay raam ji ki'
Bilal zafar Mar 30, 2013 05:37am
Great work i really appreciate your work to highlight karachi specially old areas of karachi, keep it up & best of luck.
Tanveer Jafri Mar 30, 2013 07:14am
Bahut umda article.Jinnah sahab ke real secularism ki akkasi karta hai.Ram ko aaram nahin badalna chahiye.Agar karachi ke log chahen to hindustan se ab bhi Ram leela khelne wal group wahan aa sakta hai. Ismen Hindu Muslim sabhi artist shamil honge.Har mazhab ke har tyohar har mazhab ke logon ko miljul kar manane chahiye. Ek doosre ki hifazat karni chahiye.
anwar khan Mar 30, 2013 09:03am
Akhar Baloch fresh blog on detaching aram bagh from ram bagh in historical background is an intersting reminder to readers. it helps me at least to know what exactly the aram bagh was. I hope many will find it interesting.
Khalil Nasir Mar 30, 2013 09:09am
کراچی کی قدیم اور تاریخی عمارتوں کے حوالے سے اختر بلوچ صاحب کی تحقیقی کاوشیں قابل قدر اور معلومات افزا ہیں انکی تحریریں پڑھنے کے بعد اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ تاریخ واقعی سفاک اور چشم کشا ہوتی ہے.
Mr Umar Wahga Mar 30, 2013 09:27am
Mr Akhter Baloch, I just want to say you that is a great or outstanding effort. Because "Tradition is the recognition of any nation" So ethically we should regard every nation. And i hope that after that Mr Baloch would provide these kind of Knowledge. which is very important not only for me but also everyone. That a rare information for everyone.
zafarahmedkhan Mar 30, 2013 09:46am
yeh silsala sirf pakistan main nahi hua hay. Hindustan main bhee bumbai ko mumbai kar diya gaya. Banaras ko varanasi kar diya. umeed hai ap es per bhee kuch kaam karain gay.
adeel pathan Mar 30, 2013 10:01am
Akhtar Baloch is doing a wonderful job for the students of history and his writing style is pro common men and he articulates the history in a manner that this never becomes boring. This piece from him is another major work which in journalistic norm considered an investigative story. All the best and good work Dawn blogs.
Anwar Ahmad Mar 30, 2013 10:03am
یہ تبدیلیاں شائد پاکستان بننے کے بعد نوزائیدہ مملکت میں ہر غیر مسلم چیز پر اپنا ٹھپہ لگانے کی ایک شعوری کوشش تھی جس میں اُن دینی گروہوں مسلمانوں کا عمل دخل تھا جو پہلے تو پاکستان کے خلاف رہے اور پھر آزادی ملتے ہی تیزی سے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کر دیے۔ ٓانکا بھر پور ساتھ دینے کے لئے ایسے افراد کی بھی کمی نہ تھی جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں پہنچے تھے اور بے سرو ساماں ہونے وجہ سے کسی بھی طور کچھ حاصل کرنا چاہتے تھےاور اس کے لئے انہیں ایک آسان راستہ یہی نظر آتا تھا کہ یہاں سے جانے والوں کو بھی تہی دست کر دیا جائے۔ان کی اس خواہش کو جائز ہونے کا جواز مذہبی طاقتوں نے فراہم کر دیا۔ بہر حال اسکے بعد ہم نے ہر چیز کو زبردستی مسلمان کرنا شروع کر دیا اور نوبت اب توانسانوں پر آن پہنچی ہے کہ ’مسلمان ہو جاؤ یاپاکستان چھوڑ دو‘ کی دھمکیاں کھلے عام دی جانے لگی ہیں۔ ان حالات میں سچی تاریخ لکھنا یقیناً دل گردے کا کام ہے اور اسکے لئے مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں۔
Yousif Shaheen Mar 30, 2013 11:13am
اختر بلوچ صاحب بہت عمدہ بلاگ ہے ہمیشہ کی طرح اور اس میں معلومات کا ختم نہ ہونے والا ذخیرہ سمویا ہوا ہے ماضی کے کراچی کو جاننے کے لیے آپ کےبلاگ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں.
ghazanfarabbass Mar 30, 2013 11:52am
بہت کمال لکھا اختر بلوچ صاحب نے کراچی کی تاریخی یادگاروں کا ذکر بہت ضروری ہے ۔۔
habib baloch Mar 30, 2013 02:32pm
A very informative and relavent article regarding the history of Karachi. It also guides us regarding the facts accordingly.
syedmuhammadwajeeh Mar 30, 2013 04:52pm
Your blogs are very historical and have great depth in them
عطااللہ ذکی ابڑو Mar 30, 2013 05:37pm
یہ رام باغ اب بھی موجود ہے لیکن اب یہاں رام لیلا کی کتھا پیش نہیں کی جاتی۔ رام باغ میں رام لیلا کی کی کتھا پیش کرنے کے لیے جواسٹیج تھا وہاں ایک عالیشان مسجد قائم ہے۔ جہاں پنجگانہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ کراچی کے باسی رام باغ کو اب آرام باغ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ تحریر میرے پیارےدوست اختر بلوچ کی ہے جس کے قلم نے صدیوں پرانے راز کو افشاں کرنے کوشش کی ہے تاریخ کے ان جھروکو ں سے حقیقت کے پہلو آ شکار کرنے والااختر بلوچ اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جس کے خمیر میں آج بھی نئی نئی دنیاؤں کو تلاش کرنے کی دھن سوار ہے،
Kishore Kumar Mar 30, 2013 08:21pm
Akhtar Baloch Sahib Buht Umda Or Alla Kawish Hai Apki K History Se Cheezien Nikal Kr Ap Young Generation Ko Aware Kr Rahe Hen Jo Ek Hisotry K Student Or Hr Aam Student Ko Bhi Zrur Maloom Honi Chahyen Jo Kam Aap Bakhoobi Nibha Rhe Hen,Pakistan Me Hindu And Muslim Bhai Bhai Hony Chahyen Jo K Iss Mulk K Lye Buht Fayedemand Cheez Hai,Thnx For Sharing Old And Very Important Knowledge...
یمین الاسلام زبیری Mar 30, 2013 09:00pm
بہت عمدہ، ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ بلوچستان کا نام بنگلاج تھا. اس وقت کے حالات پڑھ کے افسوس ہوتا ہے. ایسا بہت ممکن تھا کہ مسلمان اپنے اخلاق سے ان غیر مسلموں کو متاثر کردیتے. اب بھی وقت نہیں گیا ہے. اب بھی اگر مسلمان اگر اپنے نبی (ص) کی طرف رجوع کریں اور ان کا سا حسن سلوک پیدا کریں تو جو زخم مسلمانوں نے (نقصان مسلمانوں ہی کا ہوا) اٹھائے ہیں وہ بھر سکتے ہیں.
aij9 Mar 30, 2013 11:12pm
Amar Jaleel. While remembering his memories of karachi, where he spent his childhood, he tells us the following: Early 1940's ka Karachi , Kemadi (us waqt ka Kiyamaadi) se lekar Takri (Iss waqt ka Mazar e Quaid) ke area tak mehdood tha. Takri ke qareeb Patel park ke naam se park tha jo Hindu-Christian communities ne banaya tha. Partition ke bad Sardar Patel ke naam se mansoob iss park ka naam 'Nishter Park' rak diya gaya. Saddar main jahan iss waqt 'Sabri Nihari' hai wahan qareeb main Shiva ji Park tha, jiska naam badal kar 'Aurangzeb Aalmgir Park' kar dia gaya. Partition se pehle, Hindu Muslin Nojawaan yahan per kasrat karte the, ab yahan kasrat se nasha hota hai. Naam badalne ka sab se anokha waqiya 'Aaram Bagh' se mansoob hai, jo partition se pehle 'Raam Bagh' kehlata tha. Ye Bagh / Jagah Hindu logon ke liye boht Mutabbarik hain, kiyunke Raam, Seeta, aur Lakshman Hangllaj (Balochistan) jaate hue, kuch arsaa yahan thehre the. Yeh bhi kaha jata hai ke iss jaga ka naam hindoun ki muqdass kitaab ' Ramayan' main bhi hai.
عقیل احمد Mar 31, 2013 02:46pm
یہ بلاگ اس نئی نسل کے لیے خاصہ معلومات افزا ہے، جو اس ملک کے دہرے معیار تعلیم کے سبب بہت کچھ جاننے سے محروم رہ گئے ہیں، جو آتا ہے اپنی پسند کی باتیں نصاب میں شامل کرالیتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی کو اصل بات پتہ ہی نا چلے اور وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہتے ہیں لیکن اس بات سر بڑی حقیقت یہ ہے کہ
انور امجد Mar 31, 2013 05:45pm
کراچی کی تاریخ کے حوالے سے ایک اچھّا مضمون ہے۔ اختر بلوچ صاحب جو تاریخی حوالے دیتے ہیں اس سے تحریر میں جان پڑ جاتی ہے۔ ورنہ آج کل بلاگرز اس طرح تاریخی مضمون لکھتے ہیں جیسے وہ خود ان تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔
جان محمد بلیدی Mar 31, 2013 06:38pm
اختربلوچ کا تاریخ لکھنے کا نیا انداز انتہائی قابل تعریف ہے.وہ جس خوبصورتی سے تاریخی حقائق و واقعات کو تحریر میں لارہے ہیں وہ قابل ستائش ہے.بلوچ صاحب کے تحریروں سے جہاں آپ کو مخصوص واقعات و ادارے کے بارے میں آگائی ہوتی ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ پورے سماجی ساخت اور تضادات کا علم بھی ہوجاتا ہے.دیکھنے میں تو بلوچ صاحب نے رام مندر و باغ کی کھانی چھڑی ہے لیکن اس کھانی کے درپردہ وہ عوامل بھی سامنے اگئے ہیں کہ یہ معاشرہ جس میں آج ھم زندگی گزار رہیے ہیں جہاں فرقہ پرستی عروج پر ہے ایک زمانا تھا کہ سب ایک ساتھ مل کرزندگی رہے تھے. فرقہ پرسستی کی پہلی بیج ھم نے متحدہ ہندوستان میں پاکستان کی مذھبی بنیادوں پرتقسم کی بنیاد پر لگائی اور دوسری ضیاالحق کی آمرانہ دورحکومت میں امریکہ کا آلہ کار بن کر افغان جنگ میں حصہ لے کر جس نے ھمارے معاشرے کو پوری طرح جھنجوڑ کر رکھدیا. بات آگے نکل گئی . ذکر رام باغ کا چل رھا تھا دیکھیں یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے چیزوں کو ایک مخصوص ٹولہ اپنی مرضی و منشا سے تبدیل کرنے کی تھگ و دو میں لگاہوا ہے.آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ میں پہلی بار گوادر کوسٹل وئے پر سفرکے لیے نکلا جب زیروپوائنٹ سے گزرا توایک نیانام میرے سامنے آیا کہ اگور اتنہا کلومیٹر دور ہے میں عجب سوچ میں پڑھ گیا کہ ہنگول کا نام شاید غلطی سے اگور لکھاگیا ہےلیکن ایسا نہیں تھا اگور بنیادی طورپرفوجی کیمپ ہے جو ہنگول کے قریب ہے یہ سلسلہ اگر ایسی طرح جاری ہوتو آگئے جاکر ہنگول بھی اگور بن جائے گا.
یمین الاسلام زبیری Mar 31, 2013 09:29pm
بلیدی صاحب، معدبانہ عرض ہے کہ تاریخ کی تمام کتابیں گاندھی جی کو مذہبی تفرقہ کے بیج کے بونے والا پہلا آدمی ٹھراتی ہیں. جناح اور سب مسلمان کانگریس کے رکن ہوتے تھے اور وہ پورے ہندوستان میں ہندوستانیوں کی آزادی اور ترقی کے لیے کام کر رہے تھے. گاندھی کا ان کی جنوبی افریقہ سے امد پر گجرات میں استقبال پڑھنا نہ بھولیے.
وقار احمد وقار Apr 01, 2013 10:27am
منظر، پس ِ منظر، پس ِمنظر پس ِ منظر گر تیری نظر مردِ قلندر کی طرح ہو واہ اختر بھائی واہ....کمال لکھا ہے آپ نے.
Pirbhu Satyani Apr 01, 2013 10:55am
Excellent article Akhtar bhai to explore the facts..it's sound informative!
اقبال حسن خان Apr 22, 2013 06:33am
اس فساد کی خبر جب گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو پہنچی تو انہیں بہت رنج ہوا زاہد چودھری کے مطابق انہوں نے فوراً اسکندر مرزا صاحب سیکریٹری وزارت دفاع کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ فلاں وقت تک مجھے رپورٹ آنی چاہیے کہ شہر میں بالکل امن ہو چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے کسی اور کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنا پڑے گا. محمد علی جںاح ایک سیاسی لیڈر تھے جنہیں ،،مردہ پرست،، مسلمانوں نے ایک اوتار کا درجہ دے دیا ھے۔ اُن کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ ،،پبلک،، کے اۤدمی نہیں تھے اور اس میں اُن کی اُردو یا ھندی زبان سے عدم واقفیت ایک بڑا عنصر تھی۔ وہ ایک ،،اُونچی،، کلاس کے اۤدمی تھے اور اُن کا اُٹھنا بیٹھنا نوابوں، راجوں اور پائے کے کاروباری لوگوں میں تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ سب مسلمانوں کو ،،ویسا،، ھی سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے جس پاکستان کا ڈول ڈالا تھا وہ اُن کے ،،اپنے ،، خوابوں کے مطابق تو ممکن تھا لیکن عام مسلمان کے خوابوں کی تعبیر ھرگز نہ تھا۔ اُن کی مسلمانوں کے حوالے سے کوتاہ نظری ان فسادات سے ظاہر ہوتی ھے جو پاکستان کے حصے والے ،،ھندوستان،، میں شروع ھوئے اور جنہوں نے ھندوستان بھر کے مسلمانوں اور خاص طور پر مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اصل میں پاکستان بنا کر جناح صاحب نے ھندوستان کے مسلمانوں سے ھندوستان چھین لیا اور اُنہیں ایک عظیم تاریخی ورثے سے بھی محروم کردیا۔ یہی نہیں پاکستان بننے کے ساتھ ھی ھندوستان میں ھندووں کی ایک مضبوط ریاست بھی قائم ھو گئی جو غیر منقسم ھندوستان کی صورت میں قطعی ممکن نہیں تھی اور کروڑوں مسلمان بیٹھے بٹھائے ،،دوسرے،، درجے کے شہری بن گئے۔ تبصرہ نگار کے یہ ذاتی خیالات ھیں اور ان سے کسی کا متفق ھونا ضروری نہیں۔
اقبال حسن خان Apr 22, 2013 06:58am
بہت ھی عمدہ مضمون تحریر کیا ھے جناب۔۔۔ویسے میں اکثر سوچتا ھوں کہ اگرمسٹر جناح زندہ ہوتے تو کیاہماری پرانی تاریخی یادگاروں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے؟