باسٹھ-تریسٹھ کی چھلنی

شائع April 5, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/86494546" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


انتخابات کی آمد آمد ہے۔ ایک جمہوری حکومت روانہ ہو چکی ہے اور اگلی جمہوری حکومت کے لیے انتخابات، اتفاق رائے کی بنیاد پر قائم شدہ نگران حکومتیں مرکز اور صوبوں میں اختیارات سنبھال چکی ہیں۔

خلاف معمول، افواج پاکستان اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں اور منصف اعلی نے غیر جانبداری کا عندیہ دے رکھا ہے۔ جمہوریت کے سالن کے تمام اجزاء تیار ہیں اور محض انتخابات کا تڑکہ لگنا باقی ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن نے لچ تلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور امیدواروں کو دھڑا دھڑ نا اہل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس قضیے کے عقب میں ایک مردہ فوجی کے کرتوت شامل ہیں اور اس کی روح یہ تماشا دیکھ کر خوب محظوظ ہو رہی ہو گی۔

جناب اس گورکھ دھندے کی بنیاد ہے آئین پاکستان کی شق باسٹھ اور تریسٹھ۔ شق باسٹھ قومی اسمبلی اور سینٹ کے امیدواروں کی اہلیت کا پیمانہ بیان کرتی ہے جبکہ شق تریسٹھ نااہلی کی وجوہات بیان کرتی ہے۔

شق باسٹھ کے مطابق امیدوار کو صادق، امین، صالح اور باکردار ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اسے اسلامی تعلیمات کا علم ہونا چاہیے اور نظریہ پاکستان کی منافی کا مجرم نہیں ہونا چاہیے۔

شق تریسٹھ کی ایک ذیلی شق کے مطابق اگر کوئی نظریہ پاکستان یا پاکستان کی خود ارادیت یا عدلیہ کی آزادی یا فوج کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ شخص پاکستان کی مجلس شوری کا رکن نہیں بن سکتا۔

ہمارے ایک شریر دوست کے مطابق اتنی سخت شرائط تو خاندانی لوگ بیٹی کا رشتہ ڈھونڈتے وقت بھی نہیں رکھتے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ایک تو ان شرائط کو بنیاد بنایا جائے تو شاید کوئی بھی صحافی کبھی مجلس شوری کے لیے اہل نہ ہو، دوسرا یہ کہ ان شرائط پر صحیح عمل درآ مد کے لیے تو کچھ عدد فرشتوں کو ٹھیکہ دینا پڑے گا کیونکہ یہ احسن کام انسانوں کے بس سے تو باہر ہے۔

ہمارے اس صورتحال سے متعلق چند سوالات ہیں؛

- کیا ایوب، ضیا اور مشرف سے یہ سوال جواب کیے گئے تھے؟

- کیا ضیا الحق جس نے ان شقوں کو ان کی موجودہ شکل عطا کی، خود ان پر پورا اترتا تھا؟

(جواب: نہیں۔ اس نے خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولا، لہذا صداقت والا کھاتہ تو خالی رہا)

- صداقت، امانت، دیانت کا تعین کون کرے گا؟ کیا چھے کلمے اور دعائے قنوت یاد کرنے سے انسان صادق اور امین بن جاتا ہے؟ کیا نظریہ پاکستان قرآن و حدیث کا حصہ ہے؟

(جواب: نہیں، بلکہ یہ جماعت اسلامی اور پنجابی شاونسٹوں کے اذہان کی پیداوار ہے) ۔

اس نظریاتی دھینگا مشتی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف سابق وزیر اعلی پنجاب کی ڈاڑھی کی لمبائی پر اعتراض ہو رہا ہے تو ایک جانب ایاز امیر کو اس بنا پر نااہل قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے قرارداد مقاصد پر اعتراض اٹھایا تھا۔

محترم وجاہت مسعود صاحب تفصیل سے اس قرارداد کا پس منظر لکھ چکے ہیں کہ کس طرح شبیر احمد عثمانی اور لیاقت علی خان نے اس قرارداد کو تیار کیا، بجٹ کے لیے بلائے گئے اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی اور اسمبلی کے غیر مسلم ارکان نے کس طرح واضح الفاظ میں اس کی مذمت کی۔

حالات تو اس نہج تک آن پہنچے ہیں کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت کے ارکان کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک امیدوار سے فجر کی آذان سنی گئی اور ایک سے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا نام پوچھا گیا۔ کیا یہ سوالات آئندہ اسمبلی کے امیدواروں کے لیے ہیں یا بچوں کو پڑھانے کے لیے قاری صاحب درکار ہیں؟ یا آئندہ اسمبلی میں کوئز پروگرام ہو ا کریں گے؟

وہ کیا جذبہ ہے کہ جس کے تحت اس قسم کی شقیں وجود میں آتی ہیں؟ چند احباب مودودی صاحب کی تعلیمات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ لفظ بہ لفظ ان کے خیالات کی تعبیر ہے۔ ان کے خیال میں ’اسلامی ریاست‘ کی مجلس شوری کے ارکان کا کردار اسی نوعیت کا ہونا چاہئے جیسا کہ باسٹھ تریسٹھ میں درج ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے بیشتر لوگ مودودی صاحب کے پیروکار نہیں لہذا اس سوچ کا پتہ لگانے کے لیے ہمیں کہیں اور دیکھنا ہو گا۔

تاریخ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ 13 اکتوبر 1948 کو لاہور سے شا ئع ہونے والے پنجابی شاونزم کے علم بردار ایک اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا؛

’یہ دور سلطانیء جمہور کا دور ہے اور عوام ایسے لوگوں کو قیادت و وزارت کے مسند پر بٹھانا چاہتے ہیں جو صالح ہوں، لائق ہوں، دیانت دار ہوں، محنتی ہوں اور عوام میں سے ہوں‘۔

کیا یہ الفاظ کچھ مانوس سے نہیں لگتے؟

اس اداریے پر تبصرہ کرتے ہوئے زاہد چوہدری صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ دراصل یہ اداریہ درمیانے طبقے کے بعض کم فہم اور رجعت پسند عناصر کے اس نظریے کا آئینہ دار تھا کہ افراد کا کردار تاریخی عمل میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔

یہ عناصر کسی ملک میں عوام الناس، ان کی اجتماعی فکر، ان کی تنظیم اور ان کے معاشرتی و معاشی تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور جو لوگ ان باتوں کو اہم نہیں سمجھتے، انہیں ’مادہ پرست‘ اور ’ملحد‘ قرار دے کر واجب القتل تصور کرتے ہیں۔

ان عناصر کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اگر حکمران صالح، دیانتدار، لائق اور محنتی ہو تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان کی ساری عمر ایسے ’مثالی‘ حکمران کے انتظار میں گزر جاتی ہے اور اس دوران جو بھی حکمران آتا ہے، وہ پہلے والے سے برا ہی ہوتا ہے اور یہ اتنا مایوس ہوتے ہیں کہ پوری قوم کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

ان کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آتی کہ ایمان دار قیادت مروجہ سیاسی اور معاشرتی نظام کے خلاف اجتماعی جدوجہد کے دوران پیدا ہوتی ہے، ایسی قیادت کافی ہاؤس میں بحث و تمحیص یا اداریہ نویسی سے پیدا نہیں ہوتی۔ فیصلہ کن کردار بالآخر صحیح نظریے کے تحت منظم شدہ عوام الناس کا ہی ہو سکتا ہے، کوئی اچھی یا بری قیادت تاریخی عمل کو تیز یا سست تو کر سکتی ہے، لیکن اس کو روک نہیں سکتی اور نہ ہی اس کا رخ بنیادی طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔

اجی زیادہ دور کیوں جائیے، ابھی ایک دو روز قبل ہی تو ایک سروے کے مطابق پاکستان کے نوجوان جمہوریت سے زیادہ شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ یہ ہے وہ جذبہ جس کے باعث باسٹھ تریسٹھ جیسی شقیں وجود میں آتی ہیں۔ جمہوریت جائے بھاڑ میں۔


majeed abid 80عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mubeen Apr 05, 2013 07:35pm
itna confuse Article ? ap kehna kiya chah rhy han? are u Anti Islam or not ? please clear your stance.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025