• KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C

الیکشن اور تقویٰ

شائع April 12, 2013

فائل فوٹو —.
فائل فوٹو —.

میں اگلے ماہ ہونے والے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا: ذرا میری شرمندگی کا تو تصور کیجیے کہ چند پُرجوش ریٹرننگ افسران کے سامنے اسلامیات کا امتحان لیا جارہا ہے، یا پھر یقینی طور پر، ایاز امیر کی طرح میرے کالم بھی میرے نظریات کا بھرم کھول رہے ہوں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق، عرفِ عام میں آصف زرداری کے منہ بولے بھائی اور سندھ میں انتہائی رسوخ کے حامل شخص کی پہچان رکھنے والے اویس مظفر ٹپّی جب کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے پہنچے تو اُن سے اسلامی تاریخ اور رسومات سے متعلق سوالات کیے گئے۔

خوش قسمتی سے وہ تمام سوالوں کے جوابات دے کر انہیں مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئے ورنہ بصورت دیگر آنے والی سندھ اسمبلی ان کی موجودگی کے شرف سے محروم رہ جاتی۔

اگر ٹپّی انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکے تو اس بات سے میری رات کی نیند پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن مجھے اس بات پر سخت اعتراض ہوتا اگر ریٹرننگ افسر جوابات نہ دینے پر ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردیا۔

کیا یہ کسی سرکاری افسر کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ بیٹھ کر کسی امیدوار کی مذہبی معلومات یا لاعلمی پر اپنا فیصلہ صادر کرتا پھرے؟

یقیناً، ہوسکتا ہے کہ یہ کسی امیدوار کے حلقے میں، اُس کے بعض ووٹرز کے لیے تشویش کا سبب ہو لیکن ریٹرننگ افسران کا عقائد سے متعلق اس طرح کا رویہ اور طریقہ کار کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں، وہ بھی ایسے میں کہ جب فخرو بھائی جیسے لبرل اور روشن خیال الیکشن کمیشن کے سربراہ ہوں۔

درحقیقت آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی روشنی میں یہ پوری بحث، پاکستان میں اُس منافقت کو آشکار کررہی ہے، جو اب بہت اچھی طرح پھلتی پھولتی جارہی ہے۔

یہ آئینی شقیں ایک امیدوار کے اخلاقی معیار کا حوالہ ہیں لیکن اس میں 'متقی اور اسلام کی معلومات' کی عجیب منطق شامل ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہم فرشتے نہیں اور نہ ہی اپنی اسمبلیوں کو فرشتوں سے بھرنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک مذہب یا عقیدہ انسان کا قطعی نجی معاملہ ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایک شخص کسی دوسرے کے مذہبی عقائد سے متعلق کس طرح ایسی کوئی رائے قائم کرسکتا ہے جو اُسے بطور عوامی نمائندہ بہتر ثابت کرتی ہو۔

اگر امیدوار کا یہ معیار ووٹرز کا مطالبہ ہے تو پھر اُن کے پاس مذہبی جماعتوں کی بہت بڑی چوائس موجود ہے، وہ انہیں جا کر اپنا ووٹ دے لیں۔

تاہم جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے علما کو اس سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ حقیقی معنوں میں تو وہ پہلی بار سن دو ہزار دو میں انتخابات کے ذریعے اقتدار جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں انہوں نے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں اپنی حکومت قائم کی تھی۔ ویسے یہ اتفاق بھی ان کے لیے مشرف کا تحفہ تھا۔

لہٰذا وہ لوگ جو اپنی تعلیماتِ اسلامی کی اسناد لیے لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں، انہیں بہت ہی کم خریدار مل پائے ہیں۔

آج تک پاکستان میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ہیں، ان میں سے سے کسی ایک میں بھی مذہبی جماعتوں کو کُل ووٹ کا صرف پانچ فیصد ہی مل پایا ہے۔

تو یہ صورتِ حال پاکستانی ووٹرز کے کس رجحان کا پتا دیتی ہے؟ درست ہے کہ یہ بے چارے مذہبی عالموں کو عزت دیتے ہیں لیکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اُن کی رہنمائی اِس جہان کے بجائے اُس جہان میں زیادہ بہتر ثابت ہوسکے گی۔ اب اور یہاں، لوگوں کی توجہ اور تشویش روزگار پر ہے، سڑکوں اور بجلی کی فراہمی جیسی چیزوں پر مرکوز ہے۔

لہٰذا، اس مادی دنیا میں لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ مرکزی دھارے میں شامل جماعتیں ہی اُن کی ضروریات پوری کرسکتی ہیں نا کہ مذہبی جماعتیں، جن کی عمومی توجہ روحانی معاملات پر ہوتی ہے یا کم از کم وہ ایسا ہی کہتے ہیں۔

جب سے ہمارے علما انتخابی سیاست کے میدان میں اُترے ہیں، وہ اس حقیقت کو اب تک نہیں سمجھ پائے۔ وہ بنیادی طور پر درس، تبلیغ اور روحانی رہنمائی کی تربیت لے کر نکلتے ہیں اور جدید دنیا میں منتخب نمائندوں کی جو ذمہ داریاں ہیں، وہ اُن کی تربیت سے یکسر مختلف نوعیت کی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ مدرسہ اپنے طالب علموں کو مسائل، جیسا کہ اقتصادیات یا مینجمنٹ سے نمٹنے کا علم نہیں سکھاتا۔ اس کا مطلب یہ کہنا بھی نہیں کہ ہمارے ایم این ایز یا ایم پی ایز ان امور کے ماہر ہیں۔ افسوس کی بات ہے مگر یہ بھی اس صلاحیت سے بہت دور ہیں۔ بہر حال وہ پھر بھی اپنے رویے اور نظریات میں ایک لچک رکھتے ہیں۔

حال ہی میں برٹش کونسل نے پانچ ہزار پاکستانی نوجوانوں سے ایک سروے کے دوران سوالات کیے، جن کی عمریں اٹھارہ سے بیس برس کے درمیان تھیں۔ ان میں سے لگ بھگ اُنتیس فیصد جمہوریت کے حق میں تھے۔ بتیس فیصد نے فوجی حکومت کو ترجیح دی جبکہ اڑتیس فیصد نوجوان شرعی طرزِ حکمرانی کے حق میں تھے۔

اگرچہ ایسا نہایت گہری مایوسی کے باعث ہے تاہم حقیقت یہی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران بہت سارے پاکستانی نوجوانوں کی آوازوں میں اسلامی طرزِ حکمرانی کے لیے ایک مبہم تڑپ کا اظہار ہوا ہے۔

اور اب، جب انہیں موقع ملا کہ وہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ چلنے کے لیے انہیں ووٹ دیں، تو وہ اسے مسترد کرچکے۔ لہٰذا چاہے یہ بات ہو کہ وہ ڈلیور کرنے کے لیے اپنے علما پر بھروسا نہیں کرتے یا پھر چاہے ووٹر ان کے بارے میں کچھ اور کہے تاہم ووٹ وہ اپنے حقیقی مفادات کو ہی دیں گے۔

یہ ساری متضاد باتیں ایک بڑی تقسیم اور معاشرے میں تیزی سے بڑھتی منافقت کا پتا دیتی ہیں۔ اگرچہ ہمارے میڈیا کا منہ تقویٰ سے بھرا ہوا ہے تاہم ہمارے ٹاک شوز میں شریک ہونے والے مہمانوں کا رویہ قدرے برعکس ہوتا ہے۔

اگرچہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد شرعی نظام کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان، دنیا کے اُن چند سرِ فہرست ممالک میں شامل ہیں جہاں انٹرنیٹ پر، سب سے زیادہ جنسی فلموں پر مشتمل ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔

اسی طرح، ہم شراب کے معاملے پر زبانی جمع خرچ سے اسلامی تعلیمات کا ذکر کرتے رہتے ہیں مگر ہمارے شہروں کے اکثر گھروں کے ڈرائنگ رومز میں ان کا ذخیرہ رکھا رہتا ہے۔

اگرچہ تکنیکی طور پر گھڑ دوڑ پر شرط لگانا منع ہے تاہم ہر ہفتے گھڑ دوڑ منعقد ہوتی ہے اور اس پر لاکھوں کی شرطیں بھی لگتی ہیں۔ اس رویے سے صرف ریاست ہی متاثر ہوئی ہے۔

دوسرے ملک گھڑ دوڑ پر بھاری ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں بھی ہورہی ہے لیکن پھر بھی ہماری ریاست اس کے ٹیکس سے محروم ہے۔

آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کے پیچھے جو حقیقی روح کارفرما ہے وہ یہ کہ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہونے سے، بدمعاشوں کی راہ روکی جائے۔ اس بیش بہا مقصد سے کسی کو انکار نہیں، لیکن یہ شقیں ایسا کرنے میں ناکام رہی ہیں:

ہم نے دیکھا کہ ڈرگ اسمگلرز اور بینک قرضوں کے بڑے بڑے نادہندہ ماضی میں ہماری اسمبلیوں میں براجمان رہے ہیں۔

حالیہ مشق گھناؤنے ماضی کے حامل امیدواروں کی راہ روکنے کے لیے تھی تو قابلِ تعریف قدم ہے لیکن وہ جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہیں رکھتے، ان کی راہ روکنے کے لیے اسے خوں آشام درندے کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ کسے منتخب ہونا چاہیے، یہ طے کرنا الیکشن کمیشن کا کام نہیں بلکہ ووٹرز کا صوابدیدی اختیار ہے۔

کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل صرف اس حد تک رہنا چاہیے کہ امیدوار نے اپنے ٹیکسز اور یوٹیلٹی بِلز ادا کیے اور وہ کہیں بینکوں کا نادہندہ تو نہیں، اس سے آگے ہرگز نہیں۔

مالیاتی لحاظ سے دیانت داری کے معیار پر پورا اترنا امیدوار کی وہ اہلیت ہے، جس کی خواہش کی جاتی ہے تاہم تقویٰ کو کسی ایک چھڑی سے ہانک کر اس کا تعین کرنا ممکن نہیں۔

اگر یہ معیار اس بات پر ہے کہ کس نے کتنے حج اور عمرے کیے تو پھر اس اعتبار سے پاکستان تمام اسلامی دنیا میں مقدس ترین مقام ہوگا۔

بدقسمتی سے، افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب کی طرف ہمارے تمام تر جوش و جذبے کے باوجود، مسلم ممالک بدستور دنیا کے بدعنوان ملکوں میں شامل ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دنیا کے جو معاشرے سیکولر ہیں، ان کا معیارِ زندگی اور احترام آدمیت میں شمار، سب سے زیادہ بُلند ہے۔ کیا یہاں ان کے درمیان کوئی تعلق ہے؟


[email protected]

ترجمہ: مختار آزاد

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025