• KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C

منافقت کی دیرینہ روایت

شائع April 15, 2013

munafqat ki dereena riwayat copy
جمود پرست اور ماضی پرست گروہ کے کرتا دھرتا اور اس کے بے شعور پیروکار یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان اس بنا پر ذلت و پستی میں گہرے گڑھے میں پڑے ہیں کہ اُن کے اندر تعمیری ذہن قائم نہیں رہا۔ —۔ اللسٹریشن: جمیل خان

آج کل آئین کی باسٹھویں اور تریسٹھویں شقوں کا تذکرہ بہت زیادہ کیا جارہا ہے، اس لیے کہ اس کی چھلنی سے گزار کر عوام کوانتخابی امیدوار فراہم کیے جارہے ہیں۔آئین کی یہ شقیں خودساختہ امیرالمؤمنین، من پسند اسلام کے داعی اور انتہاپسندی کے ملک میں داغ بیل ڈالنے والے مطلق العنان آمر نے آئین میں زبردستی شامل کی تھیں، چنانچہ آج ان شقوں کی وکالت کرنے والے درحقیقت دورسیاہ میں بینائی سے محروم ہونے والے لوگ ہیں جن کی آنکھیں روشنی بحال ہونے کے بعد بھی دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکی ہیں۔ یہ اسی خودرو امربیل کی شاخیں جس کی جڑ کا کردار ادا کرنے والے افراد 1953ء میں جسٹس منیر کمیشن کے سامنے اسلام، مسلمان اور مومن کی کوئی ایک تعریف پر متفق نہیں ہوسکے تھے، مذکورہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں تحریر ہے کہ :

''تمام علماء کی بیان کردہ تعریف کا جائزہ لیا جائے تو عدالت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اس بنیادی سوال پر دو علماء میں اتفاق نہیں، ہر عالم دین کی بیان کردہ تعریف دوسروں سے مختلف ہے۔ اگر ایک عالم دین کی بیان کردہ تعریف کو عدالت تسلیم کرلے تو دوسرے مکتبہ فکر کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جا تے ہیں، اگر ایک مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو دوسرے تمام علمائے دین کی تعریف کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کافر ہے ۔''

معذرت کے ساتھ ہم یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ کیایہ ملک کافر تخلیق کرنے کے لیے بنایا گیا تھا؟

اس لیے کہ  تمام مسالک کے فتووں کی رو سے پورا ملک ہی کافر ہے!

ان شقوں کے ذریعے اس روئیے کو فروغ دینا اصل مقصد ہے جس کے تحت فرد ظاہری و رسمی عبادات کی ادائیگی اور کچھ دعاؤں کے رٹنے سے کامل مسلمان سمجھا جائے اور اس کی معاشرتی ذمہ داریوں کی بابت اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے ، نہ ہی اس کی کرپشن، حرامخوریوں، ملاوٹ، غبن، دھوکے بازی، جھوٹ ، فریب اور کسی بھی ایسے کام میں ملؤث ہونے پر حرف زنی نہ کی جائے جس سے معاشرے میں فساد کا راستہ نکلتا ہو۔

یہاں ہم اسلامی تاریخ کے ایک درخشاں باب، سلطنت ِعثمانیہ! کی مثال دینا چاہیں گے۔ تیرہویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں عثمان خان اوّل نے جس کی بنیاد رکھی۔ جب اناطولیہ کی چند جاگیروں پر مشتمل اس مملکت کا طول 120 میل اور عرض صرف 60 میل تھا۔اس مختصر سی ریاست کو رفتہ رفتہ اس قدر عروج حاصل ہوتا رہا کہ صرف تین سو سال بعد سلیمان اعظم کے عہد میں بلغاریہ، سربیا، بوسینیا، تھسلی، فوسیس، ڈوریس، لوکرسیس، سالونیسکا، موریا، کرمانیہ، یونانی مجمع الجزائر، کریمیا، ولاچیا، البانیہ، ہرزیگووینا، وینس اوڑانٹو سمیت مغرب کی اور بہت سی ریاستیں۔ مشرق میں دیاربکر، کردستان، شام، مصر اور عرب کا ایک بڑا حصہ جس میں حجاز مقدس کا خطہ بھی شامل تھا سلطنتِ عثمانیہ کے ماتحت آگیا۔سولہویں صدی عیسوی میں سلیمان اعظم کا دورِ حکومت صرف اسلامی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ تاریخِ عالم کا بھی اہم اور سنہری دور ہے۔ جب سلطنت عثمانیہ اپنی وسعت اور خوشحالی کے لحاظ سے حد کمال تک جاپہنچی تھی۔

تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ کی بہت سی ریاستوں پر مشتمل اس سپر پاور سلطنت کا زوال سلیمان اعظم کے جانشین سلیم ثانی کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ یاد رہے اس زوال کی وجوہات بیرونی سے زیادہ داخلی تھیں۔ اس روبہ زوال سلطنت میں اقتدار اعلیٰ کی مالک سلطان کی شخصیت تھی۔ سلطان پرست علماء اور مفتیوں نے سلطان کو تقدیر وتعزیر کا پورا پورا  اختیار دے دیا تھا۔ ارکان سلطنت تین طبقات پر مشتمل تھے۔ پہلے طبقے میں اصحابِ قلم تھے۔ ان کے بھی تین مدارج تھے۔ اوّل رجالؔ جن سے وزراء اور اعیانِ سلطنت مراد تھے۔ دوئم خوجہؔ جو سرکاری دفتروں میں کام کرتے تھے اور سوئم آغا یعنی شاہی محلات کے ملازم ومحافظ۔ دوسرے طبقے میں اصحابِ سیف اور جاں نثار شامل تھے۔ اصحابِ سیف سے مراد صوبوں کے فوجی گورنر اور دیگر فوجی عہدیدار۔ ان لوگوں کو شاہی افواج میں سپاہی فراہم کرنے کے عوض جاگیریں دی جاتی تھیں۔ اور ’’جاں نثار‘‘ یہ شاہی فوج کا نچلا دستہ تھا جس میں اقلیتی علاقوں سے کمسن عیسائی لڑکے بھرتی کیے جاتے۔انہیں زبردستی مسلمان بنایا جاتا۔اور انہیں شادی کرنے کی اجازت بھی نہ تھی اور ان کا کوئی گھربار بھی نہ تھا۔ اڑوس پڑوس کی عیسائی ریاستوں میں فاسق مسلمانوں کے اس ظلم کو اسلام کی روایت سے تعبیر کرکے اسلام کے خلاف خوب زہر آلود پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ عیسائی حکمران اور مذہبی پیشوا خود کو حق بجانب یوں بھی سمجھتے تھے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران کو اس عمل پر مسلمان مذہبی پیشواؤں کی زبردست پشت پناہی جو حاصل تھی۔

تیسرا طبقہ اصحاب مذہب کا تھا۔ اور اس طبقے کی اہمیت دیگر تمام طبقوں سے کہیں زیادہ تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ تمام اختیارات اسی طبقے کے قبضے میں تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ مغر ب میں تھیوکریسی کے فرسودہ نظام کا خاتمہ ہورہا تھا اور علم کی روشنی پھیل رہی تھی لیکن مسلم دنیا میں یہ نظام بھرپور طریقے سے قائم تھا۔ شیخ الاسلام کو صدر اعظم کے مساوی اختیارات حاصل تھے۔ وہ سلطنت کا سب سے بڑا قاضی اور مفتی تھا۔ قاضی العسکر رومالیہ، قاضی العسکرانا طولیہ، قاضی استنبول، مُلا مکہ ومدینہ اور ملا بروسا، قاہرہ ودمشق سب اُس کے ماتحت ہوتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کی تمام مساجد اور اوقاف، تمام عدالتیں اور درسگاہیں شیخ الاسلام کے ہی تابع تھیں۔ گویا وہ بیک وقت وزیر تعلیم، وزیر قانون اور وزیر مذہبی امور بھی تھا۔ اس کے علاوہ وہ عدالتِ عالیہ کا چیف جسٹس بھی تھا، اپنے دور میں دنیا کی واحد سپر پاور میں اصناف اور رعایا کے دو طبقے بھی تھے لیکن انہیں اُمورِ سلطنت میں کوئی حق واختیار نہ تھا۔ اصناف کے طبقے میں وہ لوگ شامل تھے جو تجارت پیشہ تھے اور دکانداری، دستکاری یا کسی صنعت سے وابستہ تھے۔ رعایا سے مراد کاشتکار اور کسان تھے۔

تینوں بالادست طبقات کا فرض سلطان کی طاقت کو مستحکم اور محفوظ کرنا تھا نہ کہ رعایا کی فلاح وبہبود کی تدبیریں کرنا۔ اس سے ان لوگوں کو کوئی سروکار نہ تھا۔

یہی وہ دور ہے جب مغرب نے تھیوکریسی کی فرسودہ روایتوں کی زنجیریں توڑ ڈالی تھیں۔ علم وسائنس میں ایسی ایسی ایجادات اور اختراعات کر ڈالیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی شکل اور لوگوں کا طرز زندگی ہی بدلتا چلاگیا۔ فاصلے سمٹنے لگے۔ سمندر، زمین، آسمان یہاں تک کہ فضا میں پوشیدہ لہروں پر بھی ا نسان کی دسترس قائم ہوتی گئی۔

اس دور میں مسلمان مذہبی علماء اپنے فرائض کی ادائیگی میں سراسر ناکام رہے۔ یہ لوگ اس غلط فہمی میں ہی مبتلا رہے کہ علم وحکمت کی تکمیل دوسری صدی ہجری کے فقہاء نے کردی تھی لہٰذا قیامت تک اب اُن کی تقلید کی جائے گی (آج بھی مذہبی علماء کا بڑا طبقہ اور تمام انتہاپسند اسی غلط فہمی میں مبتلا محسوس ہوتے ہیں)۔

اُس دور کے مذہبی اجارہ داروں نے نئی فکر اور روشنی کو اُبھرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُن کی جب تک اجارہ داری قائم رہی اُنہوں نے اپنی ساری توانائی صرف اس کام پر صرف کردی کہ تدریسی نصاب دوسری صدی ہجری کے ذہن پر قائم رہے۔ لہٰذا جمود بڑھتا چلا گیا۔ علماء وفقہا کی ساری توجہ اقتدار وسیاست پر ہی مرکوز رہی۔ اصلاح اُمت کے دعویداروں کو خود اپنی ہی اصلاح کی جانب توجہ کرنے کی فرصت نہ تھی۔ انیسویں صدی عیسوی میں سلطان سلیم، سلطان محمود اور سلطان عبدالمجید نے اصلاحات کی کوششیں کیں لیکن اولین بالادست مذہبی طبقہ ان کوششوں کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا۔ سلطان سلیم نے انجینئرنگ اسکول اور کالجز قائم کیے۔ ایک انجینئرنگ اسکول میں تو وہ خود لیکچر دیا کرتا تھا۔ سلطان محمود دوئم نے جاں نثار کے نام سے عیسائی اقلیت پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کیا۔ عوام الناس کی فلاح وبہبود کے کام شروع کیے اور بذات خود بھی لوگوں میں گھل مل کر اُن کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ عام لوگ اُس سے بہت خوش تھے اور اُسے پیار سے محمود عدلی کہنے لگے۔ سلطان محمود دوئم نے حکومت کا نیا ڈھانچہ بنایا۔ صدراعظم کا عہدہ ختم کیا۔نظم ونسق کے مختلف شعبوں کو کسی ذاتِ واحد میں مرتکز کرنے کے بجائے مختلف (وکیلوں) وزراء میں تقسیم کردیا۔ شیخ الاسلام کا کردار حکومت وسیاست سے ختم کیا، اور ایک فرمان جاری کیا کہ مذہبی علماء عبادات اور مذہبی رسموں کی ادائیگی کا  کام کریں، سیاست واقتدار میں حصہ نہ لیں۔ جدید طرز کی ملٹری اکیڈمی اور میڈیکل کالج قائم کئے۔ اخبار جاری کیا۔سلطان عبدالمجید نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور ایک فرمان جاری کیا ’’آئندہ ہرشخص کو جان ومال اور عزت وآبرو کا قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ مسلم اور غیر مسلم رعایا قانون کی نظر میں مساوی ہوں گے‘‘۔

توقع کے عین مطابق مذہبی لوگوں نے اس فرمان کو غیر شرعی قرار دیا کہ یہ شیخ الاسلام کی منظوری کے بغیر جاری ہوا تھا۔ مذکورہ تینوں سلطانوں کی اصلاحات سے بالادست طبقات کے مفادات پر ضرب پڑتی تھی اور خصوصاً مذہبی طبقے کی اجارہ داری شدید متاثر ہوئی تھی اس لئے سب سے زیادہ یہی طبقہ حکومت کا دشمن بن گیا۔ فوج، علماء اور اعیان کے باہمی گٹھ جوڑ سے قسطنطنیہ میں بغاوت ہوئی اور سلطان سلیم سوئم کو قتل کردیا گیا۔ میڈیکل کالج میں سرجری کی تعلیم کو غیر شرعی قرار دے کر اُس کی سخت مخالفت کی گئی۔ مظاہروں اور بغاوتوں کے ذریعے شہروں کا نظمِ ونسق تہہ وبالا ہوتا رہا۔ مسلمان مذہبی علماء نے جدید سائنس کے اس نظرئیے کی بھی مخالفت کی کہ زمین گول ہے۔  اس عرصے میں اسلامی دنیا میں یہ بحث بھی جاری رہی کہ وباؤں سے بچنا چاہئے یا تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے وباؤں سے ہلاک ہوجانا چاہئے۔ چیچک کا ٹیکہ جائز ہے یا ناجائز ہے۔

یورپ میں پرنٹنگ پریس 1450 ء میں ایجاد ہوا لیکن عالمِ اسلام میں صدیوں تک اُسے شیطانی مشین کا نام دے کر اِس نعمت کے استفادے سے محروم رکھا گیا۔ یورپ میں دخانی انجن 1764ء میں ایجاد ہوچکا تھا لیکن جائز وناجائز کے مباحثہ کی وجہ سے ابھی تک مسلم دنیا میں اس کا وجود نہ تھا، سلطان محمود نے مذہبی علماء کی مخالفتوں کے باوجود دخانی کشتیوں کو رواج دیا۔ مذہبی لوگوں نے جدید چیزوں کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات اور خوف بھر دیا تھا اس لیے مسلمان ان کشتیوں پر سوار ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے چنانچہ سلطان محمود کو لوگوں کی ہیبت دور کرنے کے لئے کئی ماہ تک خود ان جہازوں میں بیٹھ کر سیرو تفریح کرنی پڑی۔

حکمرانوں کے خلاف مسلسل جاری رہنے والی شورشوں کا بہت بُرا اثر معیشت پر پڑا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب سلطنتِ عثمانیہ ایک طرح کی یورپی کالونی بن گئی جس کا کام محض مغربی ممالک کو سستا خام مال اور مغربی ممالک کی مصنوعات کو وسیع مارکیٹ فراہم کرنا تھا۔

زوال کی آخری چند کڑیوں میں سلطان عبدالحمید کا تذکرہ بھی بے حد اہم ہے۔ اس کے دور میں مذہبی اجارہ داروں نے دوبارہ غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ ان لوگوں نے مخبری کا ایک زبردست نظام قائم کررکھا تھا۔حال یہ تھا کہ لوگ اپنی بیوی تک سے ظلم کے اس نظام کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں وہ مولویوں کی مخبر نہ ہو۔ ان لوگوں کو کسی کے متعلق ذرا سی بھی سن گن ملتی اُسے مرتد، مشرک قرار دے کر جان سے مار دیا جاتا یا جلا وطن کردیا جاتا۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب بحری جہاز جلا وطن کیے جانے والے نوجوانوں کو بھرکر استنبول سے فزان کے ریگستان کی جانب روانہ ہوا کرتے جہاں ان کو صحرا کی تپش میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ بعد میں جن کی ہڈیاں ہی باقی رہ جاتیں اس لیے کہ گدھ گوشت چٹ کرجاتے تھے۔

ظاہر پرستی اور منافقت کو اُس دور میں خوب فروغ ملا۔ نماز باجماعت  کی ادائیگی کے قانون پر بالجبر عمل کرایا جاتا۔ مشاہیر سلطنت کو اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پنچ وقتہ نماز ہاتھ آگئی۔ وہ جہاں جاتے غلام اُن کی جائے نماز بغل میں دبائے پیچھے پیچھے چلتا رہتا۔ حتیٰ کہ وہ امورِ سلطنت کی ادائیگی کے دوران بھی اپنی نمائشی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔

اِدھر منافقانہ روش، نمائشی عبادتوں، جمود، روایت پرستی، اسلاف پرستی، علم وہنر سے دوری کو فروغ ملتا رہا اور نتیجے میں اُدھر اٹھارویں صدی کے آخر تک سلطنت عثمانیہ کے متعدد صوبے ہاتھ سے نکلتے گئے۔ ہنگری، ٹرانسلو نیا، سربیا اور کریمیا کی یورپی ریاستوں سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بحر اسود اور بحر ازف کے شمالی ساحلی علاقے بھی ہاتھ سے گئے۔ شام میں دروزیوں اور لبنان وفلسطین کے قبائلی باشندوں نے تقریباً خودمختاری حاصل کرلی۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ حجاز مقدس بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔

مسلمانوں کے زوال کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اُن میں نفع بخش علوم وفنون کا رواج ختم ہوگیا تھا اور ایسے علوم و فنون نے اُن کی جگہ لے لی جس کا مقصد اہل اقتدار اور دولت مند طبقے کو خوش کرنا تھا۔ دورِ زوال میں اکثر مسلمان اطبّاء کو وبائی امراض اور بچوں کی بیماریوں پر تشویش لاحق نہیں ہوتی تھی اس لئے کہ وہ بادشاہوں، وزیروں، افسروں اور نوابوں کے لئے ’’کشتے‘‘ تیار کرنے میں جو مصروف رہتے تھے۔ اکثر علماء فضلا کا اصل متمع نظر  یہ تھا کہ اپنی علمی دھاک شاہی دربار میں بٹھاکر خلعت فاخرہ حاصل کی جائے۔ غیر منقوط تفسیریں اور تقریریں اُن کا علمی سرمایہ تھیں۔ یعنی علم کا مقصد خلقِ خدا کو نفع پہنچانا ہرگز نہ تھا۔ تعمیرات کے ماہرین کا علم وفن بادشاہوں کے محلات اور اُن کی تفریح گاہوں کے لیے مختص تھا۔ یونیورسٹی، کالج یا ہسپتالوں کی وسیع وعریض قدیم عمارات اسی لیے نہیں ملتیں۔ زراعت وصنعت میں وہی لگے بندھے طریقے رائج تھے۔ عام آدمی کی صحت اور ماحول کو صحت مند رکھنے کے لیے قوانین کی طرف سے غفلت برتی گئی۔ تجارت پیشہ لوگوں کو ایسی معلومات فراہم کرنے کا اجتماعی انتظام نہ تھا کہ وہ برآمدات کو بڑھاسکیں۔ سمندر اور زمین کی تہوں میں پوشیدہ نعمتوں کے حصول کی کوئی جستجو نہ تھی۔ لہٰذا جس خطے کے لوگوں نے نفع بخش علوم کو رائج کیا۔ لوگوں کی فلاح وبہبود کی چیزیں دریافت وایجاد کیں زمین اور سمندر میں پوشیدہ خزانے دریافت کیے، قدرت نے زمین کا اقتدار اُن کے حوالے کردیا۔

آج بھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑا گروہ جس نے عام لوگوں کے ذہنوں پر خود کو خدا کی طرف سے برگزیدہ ثابت کردیا ہے، کی یہی کوشش ہے کہ جمود برقرار رہے اور ترقی کا راستہ کسی صورت کھل نہ سکے۔

جمود پرست اور روایت پرست گروہ کے کرتا دھرتا اور اس کے بے شعور پیروکار یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان اس بنا پر ذلت و پستی میں گہرے گڑھے میں پڑے ہیں کہ اُن کے اندر تعمیری ذہن قائم نہیں رہا۔ اُن کے جمود نے تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں اُنہیں صدیوں پیچھے رکھا ہوا ہے۔ اگر وہ کہیں متحرک ہوتے ہیں تو صرف اس طرزِ فکر کے تحت کہ احتجاج کریں اور شکایات کریں۔ شکایتی ذہن تعمیر کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ اور صرف شور و غل اور منفی سرگرمیوں کی فصل اُگتی ہے۔

موجودہ حالات میں مسلمانان عالم بالعموم اور پاکستان بالخصوص، ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک راستہ نعرے بازی، احتجاج، جلسے، جلوس اور تشدد و عسکریت پسندی کا راستہ ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ تحصیل علم و سائنس، حکمت اور تدبیر کا راستہ ہے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (15) بند ہیں

شانزے Apr 15, 2013 12:55pm
Jamil sb, please change the topic. You have already said enough on this issue.
کاشف Apr 15, 2013 04:19pm
جمیل صاحب علما کرام پر تنقید کرنے سے اتمام حجت نہیں ہو گا. یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے. انتہا ئی معذرت کے ساتھ کے آج کل سب سے اسان کام دوسروں خاص کر علماء پر تنقید کرنا ہے اور یہ ایک فیشن بن چکا ہے. آپ کی بات بجا کہ علما سو بھی ہر زمانے میں رہے ہیں، لیکن تمام لوگوں میں سب سے زیادہ نیک علماء ہی ہیں، اللہ قران میں صاف صاف کہہ چکا ہے کہ تم میں سب سے ذیادہ تقویٰ والے علماء ہی ہیں. اچھا ہو گا کہ علماء پرتنقید کرنے کہ عوام کی اصلاح کی جائے. آج کل ویسے بھی عوام علماء سے دور ہی رہتے ہیں، اس طرح کے کالم سے اور دوریاں پیدا ہوں گی. آللہ پاک ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین
عطا راشد-ٹورانٹو Apr 15, 2013 08:05pm
حقیقت پسندانہ کالم ہے-مسلم امت کی زوال پذیری کے اسباب کی نشاندہی کمال کی ہے-
Bullah Apr 16, 2013 03:19am
Bhai Kashif Sahab! Ulama k gham itna na ghulain aap kee sehat k liye munasib naheen. aap Quran and Hadees par to yaqeen rakhtay hon gay ? agar rakhtay hain to ye mutala karain: اﷲ کے نبی کا ارشا د ہے ۔ عن عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وسلم یَقُول: إِنَّ اﷲ لاَ یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا، یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقبْضِ الْعُلَمَاء ِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالاً، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت د ے کر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (البخاری: کتاب العلم: باب کیف یقبض العلم) أَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍۢ(34) مومنو! بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو(34) يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا۟ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ(35) جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان (بخیلوں) کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو(35)
Bullah Apr 16, 2013 03:21am
موجودہ علمائے سُو کا طرزِ عمل مولانا الطاف حسین حالی یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُداٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں عمل جن کا ہے اس کلامِ متیں پر وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر مدار آدمیت کا ہے اب انہیں پر شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے سمجھتے ہیں گمراہ جن کو مسلمان نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں پس از مرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا حمیم آب و زقوم کھانا ہے جن کا وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں یہ تمغا تھا گویا کہ حصہ انہیں کا کہ حب الوطن ہے نشان مومنیں کا امیروں کی دولت غریبوں کی ہمت ادیبوں کی انشا حکیموں کی حکمت فصیحوں کے خطبے شجاعوں کی جرأت سپاہی کے ہتھیار شاہوں کی طاقت دلوں کی امیدیں امنگوں کی خوشیاں سب اہلِ وطن اور وطن پر ہیں قرباں عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو انہیں بر تر از آسماں دیکھتے ہو یہ ثمرے ہیں ان کی جوانمردیوں کے نتیجے ہیں آپس کی ہمدردیوں کے غنی ہم میں ہیں جو کہ اربابِ ہمت مسلم ہے عالم میں جن کی سخاوت اگر ہے مشائخ سے ان کو عقیدت تو ہے پیرزادوں پہ وقف ان کی دولت نکمے ہیں دن رات واں عیش کرتے پہ نوکر ہیں جتنے وہ بھوکے ہیں مرتے عمل واعظوں کے اگر قول پر ہے تو بخشش کی امید بے صرفِ زر ہے نماز اور روزہ کی عادت اگر ہے تو روزِ حساب ان کو پھر کس کا ڈر ہے اگر شہر میں کوئی مسجد بنا دی تو فردوس میں نیو اپنی جمادی عمارت کی بنیاد ایسی اٹھانی نہ نکلے کہیں ملک میں جس کا ثانی تماشوں میں ثروت بڑوں کی اڑانی نمائش میں دولت خدا کی لُٹانی چھٹی بیاہ مین کرنے لاکھوں کے ساماں یہ ہیں ان کی خوشیاں یہ ہیں انکے ارماں مگر دینِ بر حق کا بوسیدہ ایواں تزلزل مین مدت سے ہیں جس کے ارکاں زمانہ میں ہے جو کوئی دن کا مہماں نہ پائیں گے ڈھونڈا جسے پھر مسلماں عزیزوں نے اس سے توجہ اٹھا لی عمارت کا ہے اس کی اللہ والی پڑی ہیں سب اجڑی ہوئی خانقاہیں وہ درویش و سلطاں کی امید گاہیں کھیلیں تھیں جہاں علمِ باطن کی راہیں فرشتوں کی پڑتی تھیں جن پر نگاہیں کہاں ہیں وہ جذبِ الٰہی کے پھندے کہاں ہیں وہ اللہ کے پاک بندے وہ علمِ شریعت کے ماہر کدھر ہیں وہ اخبار دیں کے مبصر کدھر ہیں اصولی کدھر ہیں ، مناظر کدھر ہیں محدث کہاں ہیں ، مفسر کدھر ہیں وہ مجلس جو کل سر بسر تھی چراغاں چراغ اب کہیں ٹمٹماتا نہیں واں مدارس وہ تعلیم دیں کے کہاں ہیں مراحل وہ علم و یقیں کے کہاں ہیں وہ ارکان شرعِ متیں کے کہاں ہیں وہ وارث رسول امیں کے کہاں ہیں رہا کوئی امت کا ملجا نہ ماویٰ نہ قاضی نہ مفتی نہ صوفی نہ مُلّا کہاں ہیں وہ دینی کتابوں کے دفتر کہاں ہیں وہ علمِ الٰہی کے منظر چلی ایسی اس بزم میں بادِ صرصر بجھیں مشعلیں نورِ حق کی سراسر رہا کوئی ساماں نہ مجلس میں باقی صراحی نہ طنبور، مطرب نہ ساقی بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت سدا گاؤں در گاؤں نوبت بہ نوبت پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر کہ تھے ان کے اسلاف مقبولِ داور کرشمے ہیں جا جا کے جھوٹے دکھاتے مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے یہ ہیں جادہ پیمائے راہِ طریقت مقام ان کا ہے ماورائے شریعت انہیں پر ہے ختم آج کشف و کرامت انہیں کے ہے قبضہ میں بندوں کی قسمت یہی ہیں مراد اور یہی ہیں مرید اب یہی ہیں جنید اور یہی با یزید اب بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی جگر جس سے شق ہوں وہ تحریر کرنی گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ کوئی مسئلہ پوچھنے ان سے جائے تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے تو آنا سلامت ہے دشوار واں سے کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے ستوں چشمِ بد دور ہیں آپ دیں کے نمونہ ہیں خلقِ رسول امیںکے جو چاہے کہ خوش ان سے مل کر ہو انساں تو ہے شرط وہ قوم کا ہو مسلماں نشاں سجدہ کا ہو جبیں پر نمایاں تشرع میں اس کے نہ ہو کوئی نقصاں لبیں بڑھ رہی ہوں نہ ڈاڑھی چڑھی ہو ازار اپنی حد سے نہ آگے بڑھی ہو عقائد میں حضرت کا ہم داستاں ہو ہر اک اصل مین فرع میں ہم زباں ہو حریفوں سے ان کے بہت بد گماں ہو مریدوں کا ان کے بڑا مدح خواں ہو نہیں ہے گر ایسا تو مردود دیں ہے بزرگوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے شریعت کے احکام تھے وہ گوارا کہ شیدا تھے ان پر یہود و نصاریٰ گواہ ان کی نرمی کا قرآن ہے سارا خود اَلدّینُ یُسر نبی نے پکارا مگر یاں کیا ایسا دشوار ان کو کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو نہ کی ان کی اخلاق میں رہنمائی نہ باطن میں کی ان کے پیدا صفائی پہ احکام ظاہر کے لے یہ بڑھائی کہ ہوتی نہیں ان سے دم بھر رہائی وہ دیں جو کہ چشمہ تھا خلقِ نکو کا کیا قلتیں اس کو غسل و وضو کا سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے کتاب اور سنت کا ہے نام باقی خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
Bullah Apr 16, 2013 03:36am
توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدائے واحد کی عبادت ہو اور کسی دوسرے کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے، جب تمہیں اس سے انکار نہیں ہے تو تمہاری عبادت شرک سے پاک ہونی چاہیے۔ اللہ واحد پر ایمان کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنا رب اور فرماں روا تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قانون دینے والا ہے اور اسی کے قانون کو بالادستی حاصل ہے، لیکن تم نے اپنے احبار و رہبان کو قانون سازی کا حق دے رکھا ہے۔ وہ جس چیز کو حلال کہیں وہ تمہارے نزدیک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیں وہ تمہارے لیے حرام ہے۔ اس طرح تم نے احبار و رہبان کو ارباب کا مقام دے رکھا ہے۔ (التوبہ: ۳۱) اپنے اس غلط رویہ کو ترک کر کے تمہیں خدائے واحد کے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرماں بردار اور اس کے احکام کے تابع ہیں۔
منافقت کی دیرینہ روایت | The Muslim Times Apr 16, 2013 12:20pm
[...] for details please click HERE. [...]
ًًمبشر احمد Apr 16, 2013 02:14pm
اچھا مضمون لکھا ھے-
haqfoundation Apr 16, 2013 03:00pm
تمام علماۓ کرام کو تنقید کا نشانہ بنا نا آ سا ن بھی اور کچھ حضرا ت کا پسند یدە مشغلہ بھی ہے ۔یقینی طور پر علماۓ سو کی ایک بڑی تعداد امت کی رہنمائ کا فرض ادا کرنے کے بجاۓ انکو انتشار میں مبتلا کرنے کا سبب بنرہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام علماۓ کرام کو حرف ملا مت بنا یا جاۓ اور انکی خد مات کو نظر انداز کر دیاجاۓ یہ انصاف کے تقا ضوں کے با لکل خلاف ہے ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے یہاں اگر ایک طرف مذھبی انتہا پسندی اور شدت ہے تو دوسری طرف ویسی ہی شدت پسندی اور انتہا پسندی خود کو سیکو لر اور لبرل کہنے والوں میں پائ جاتی ہے ان دو انتہا پسندوں کے بیچ میں اعتدال پسند بہت کنفیوژن کا شکار ہیں اور شائد یہی سبب ہے تمام کو ششو ں کے بعد بھی معا شرے میں اعتدال پسندی قائم نہیں ہو پا ر ہی ہے
محمد بشیر الدین نوید Apr 16, 2013 03:42pm
جمیل خان بہت اچھا لکھتے ہیں اور فکر انگیز مضامیں اس دنیا کی تاریخ مین ایرانی اور رومی تہذیب کی تباہی اور دنیا پر عرب اتدار کی وجہ حیات انسانی جس رجعت کا شکار ہوئی اور جوایجادات ممکنا ۱۵۰۰ سال قبل وجوم میں آجانا تھا تو آج کی انسانی زندگی کیسی ہوتی صرف آپ ہی ادراک کرسکتے اسکا- اب جو انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور بھول چکا اس ماضی کو تو خلافت عثمانیہ کی کیفیات بیان کرنے کا کیا فائدہ ہے میری سمجھ سے بالاتر ہے- ہم جس وقت میں رہتے ہیں وہان تو محمد علی جناح بھی اجنبی ہے کون جانتا اسکو اور فکری آزادی کی ترقی میں نظریہ دو قومی کو- آج کی ترقی سائنس اور منطق کی دنیا مین جب خیالی کیفیات کے علمبردار محمد عربی کو ماننا فکری جمود کی علامت ہو تو جناح جیسا احمق اور کم عقل اور اسکا دو قومی نظریہ کیا معنی رکھتا- انسانون کی دنیا میں وحدت انسانی ہی اصل اور اس ارضی گائون میں سب انسان برابر ہون
یمین الاسلام زبیری Apr 16, 2013 09:29pm
میں نے یوٹیوب ہر - جاہل - کا لفظ لکھا، نتیجے میں ہزاروں علما ایک دوسرے کو جاہل ثابت کرتے ملے. میں تمام علمائے کرام کی بہت عزت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ سب ہی سچ اور صہی کہہ رہے ہیں.جمیل صاحب کا مضمون بہت اچھا اور موقع سے ہےکہ انتخابات ہو رہے ہیں. خاص کر نوجوانوں کو مذہبی جماعتوں سے دور رہنا چاہیے ہے.ملک کا ہر آدمی ایک عظیم سرمایہ ہے، اور کسی طیارہ بردار جہاز سے بھی زیادہ طاقتور ہے. مذہبی جماعتیں ان تمام قوی لوگوں کے پائوں میں لنگر ڈال دیں گی. مضمون کی اردو کی خاص تعریف کروں گا.
Talha Naim Elessar Apr 17, 2013 03:08pm
I think he is truly not a write, in aware of facts. Objective Resolution was the symbol of the unity of Ulam'aye Kara'am. They were all agreed on 22 points and still are!! Is there any example of such type in your Politicians?? Tell me, Mr. Jameel.. I am waiting for your reply. You are true.. You are not a writer.. Un aware of facts.. And Justice Munir.. He is a liar.. He told so many lies and changed the facts. If he were in west, his all books were thrown away from libraries..
Zahid Khan Apr 17, 2013 03:20pm
Jamiel Khan Sb. A very great article to read, hope our nation and specially the nation politician must learn from the past.
زر حمید Apr 19, 2013 01:28am
بہت عمدہ مضمون جمیل صاحب۔بدنیت علماء کچھ نہیں کر سکتے اگر عوام کی عقیدت اندھی نہ ہو۔چودہ سو سال سے اس عقیدت نے ہمیں گونگا اور بہرہ کر رکھا ہے ہم بار بار اپنے دل میں اُٹھنے والے سوالوں کو دباتے ہیں اور آخر کار اپنی حسِ تجسس کو مار ڈالتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حق کے سبھی متلاشی اپنے اپنے سوالات زبان پہ مت لائیں ورنہ ہم انہیں کوئ نہ کوئ فتویٰ لگا کر مار ڈالیں گے
Shahid Irshad Apr 23, 2013 04:59am
Like that! History repeating itself, again and again and again.

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025