• KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر

شائع May 2, 2013

فوٹو - مصنف --.
فوٹو - مصنف --.

بہت پہلے کی بات ہے بچپن میں ایک کڑک دار آواز گرمیوں کی سنّاٹی دوپہر میں یوں سنائی دیتی تھی 'یہ فقیر ہے ہاتھ پاؤں سے معزور ہے'، مجھے اس آواز سے بہت ڈر لگتا تھا. کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی.

یہ فقیر گھر گھر جا کر بھیک نہیں مانگتا تھا بلکہ ایک جگہ رک کر چار پانچ بار آواز لگاتا. آواز سن کر جنھیں خیرات یا مدد دینی ہوتی وہ اپنے ملازم کے ہاتھ پیسہ یا کھانا اس کے لئے بھجوا دیتے. کبھی کسی گھر کے دروازے پر اس نے آواز نہیں لگائی تھی. ایک دن ہمت کر کے کھڑکی کو ذرا سا کھول کر اس فقیر کو دیکھ ہی لیا. وہ ایک لولا لنگڑا دبلا پتلا، کالا سا آدمی تھا جس کی جسامت اور آواز میں کوئی مناسبت نہیں تھی.

آج کل کے "امیر" فقیر تو کسی اور ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں. بڑے سجے بنے اور ہاتھ میں سہارے کے لیے لاٹھی کی بجائے جیبوں میں پستول لئے آپ کے گھر یا دکان پہنچ جاتے ہیں اور بچے تو کیا جوان اور بوڑھے سبھی گھبرا کر اپننی جیبیں الٹنے لگتے ہیں.

ان بھکاریوں یا یوں کہیے ڈاکوؤں کی آواز بلکل بھی کڑک دار نہیں ہوتی ہے. وہ تو نہایت نرمی سے آپ کو انکل یا آنٹی سے خطاب کریں گے. ایسا لگے گا جسے کہہ رہے ہوں؛

"ہم امیرکی اولاد ہیں، بہت مجبور ہیں. ہتھیاروں سے لیس ہیں."

ان کی جسارت اور لہجے میں بھی کوئی مناسبت نہیں ہوتی ہے. یہ توعام دنوں کی بات ہے. بقرعید میں تو بکروں کی کھال آپ کی کھال کے عوض مانگتے ہیں. سیاسی لیڈران اور سخت سکیورٹی رکھنے والے افراد کو چھوڑ کر کراچی میں کون سا ایسا گھر ہوگا جس کے سارے کے سارے افراد نہ سہی کم از کم ایک نہ ایک فرد تو ان چوروں اور ڈاکوؤ ں سے ضرور ہی دو چار ہوا ہو گا.

جو واقعی غریب فقیر ہیں ان کے مانگنے کے طور طریقے بھی بالکل ہی بدل چکے ہیں. اب تو فقیروں سے جان چھڑانا بھی جان جوکھوں کا کام ہے. کسی ایک کے ہاتھ آپ نے کچھ تھما دیا اور پوری پلٹن آپ پر حملہ کرنے نہ جانے کس طرف سے آ کر آپ کو گھیر لیتی ہے. آپ کنی کترا کے بچ نکلنا چاہیں تو پھر بد دعاوں کی بوچھاڑ دور تک آپ کا پیچھا کریگی. سنا ہے کہ ان کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مافیا ہے جو اپنی تجوریاں ان سے بھیک منگوا کر بھرتی ہے.

پاکستان کے ان روایتی فقیروں کی طرح دوسرے پسماندہ ممالک میں بھی بھیک مانگنے کے یہی انداز ہیں. پاکستان میں تو مجبور غریبوں کے ہاتھ پاؤں مروڑ کر انہیں اپاہج کر کے انہیں آمدنی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے. چند سال پہلے مصر کے شہر قاہرہ میں میں نے دیکھا تھا کہ عورتیں اپنے ادھ مرے بیمار بلکہ ایک عورت تو اپنے ننھے سے بچے کو جو موت کی نیند سویا ہوا تھا، اپنے قریب لٹا کر پیسہ مانگ رہی تھی. اب اللہ جانے اس کا اپنا بچہ تھا یا کسی مافیا نے اس عورت پر اسے لادہ ہوا تھا.

ہاں سری لنکا کی کیا بات ہے. دو سال پہلے سری لنکا کی سیر کا پروگرام بنا تھا. کئی شہروں اور دیہاتوں میں ہم نے قیام کیا تھا. کئی مصروف بازاروں، ریسٹوراں اور تفریحی مقامات پر ہم رکے تھے.

ایک بار ہم نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور سے فرمائش کی کہ وہ ہمیں کسی ایسے ریسٹوراں لے چلے جہاں عام لوگ مقامی کھانا کھانےکے لیے جاتے ہیں. ٹیکسی ڈرائیور نے ایک چھوٹی سی مصروف سڑک پر ایک چھوٹے سے ریسٹوراں کے سامنے ٹیکسی روکی. ہم نے وہاں کے مزیدار دوسے اور وڑے کھائے اور ریسٹوران سے باہر نکلے. اچانک میری بہن انو نے کہا، "کچھ عجیب نہیں لگ رہا ہے؟ یہاں کوئی فقیر ابھی تک نظر نہیں آیا. نہ تو بچوں کی ٹولی کار کا شیشہ ہی دھونے کے لیے بے قرار ہے".

واقعی انو ٹھیک کہہ رہی تھیں. ہمیں سری لنکا میں سیر کرتے چار دن گزر چکے تھے اوراب تک نہ تو کسی فقیر سے مڈ بھیڑ ہوئی تھی نہ ہم نے بچوں کو میلے کچیلے کپڑوں میں سڑکوں پر بلا وجہ آورہ گردی کرتے دیکھا تھا، نہ ہی کسی چھوٹے موٹے ریسٹوران یا چائے خانے میں ہی کام کرتے دیکھا تھا.

ڈرائیور سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ سری لنکا میں بھیک مانگنا غیر قانونی ہے. اور ہر بچے کا سکول میں تعلیم پانا لازمی قرار دیا گیا ہے. یہ سن کر بے حد طمانیت کا احساس ہوا لیکن ساتھ ساتھ اپنے ملک کے بچوں اور ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک گہری مایوسی اور خالی پن اور شرمندگی کا احساس ہمارے ذہنوں پر ایک کالے سائے کی طرح چھا گیا.

کاش ہمارے ملک کے نگرانوں کو بھی بچوں کی لازمی تعلیم کا خیال آئے. کاش کہ ہمارے ملک میں بھیک مانگنے پر پابندی لگا دی جائے. چار سال پہلے جب ہم چترال گھومنے گئے تھے تو ہمارے ایک مہربان میزبان نے بتایا تھا کہ پورے پاکسان میں شائد چترال ہی ایک واحد علاقہ ہے جہاں آغا خانیوں نے تعلیم کا پرچار اتنا عام کر دیا کہ شائد ہی کوئی بچہ ہوگا جو اسکول نہ جاتا ہو. اگراسی طرح اور مخلص طبقے سارے پاکستان میں سرگرم عمل ہو جائیں تو کیا کہنے.

بھکاری اور فقیر ادھر مغربی ممالک میں بھی بہت ہیں. پیشہ ورانہ بھکاری تو اکثر مشرقی یورپ سے آئے ہوئے مہاجروں میں سے ہی ہوتے تھے. بھیک مانگنے کا بلکل وہی پاکستانی انداز، وہی ٹریفک لائٹ پر جسے ہی گاڑی رکی عورتیں، جی ہاں عورتیں پانی سے بھری بالٹی اور ڈسٹر لے کر کارکا شیشہ صاف کر کے اجرت مانگنے کھڑی ہو جاتیں. خیر یہ سلسلہ یہاں کی پولیس نے بہت جلد ختم کروا دیا.

اس کے علاوہ عورتوں کے چند ایک گروپ ایسے بھی پکڑے گئے جو خاص طور پر ریجنٹس پارک مسجد کے سامنے مسلمان عورتوں کے حجاب والے حلیے میں بھیک مانگتی ہوئی پکڑی گئیں. یہاں کی میڈیا نے ان عورتوں کا پیچھا ان کے ملکوں میں ان کے گھروں تک پہنچ کرکیا اور انہیں بےنقاب کیا.

پراگ میں بھکاریوں کا ایک نیا انداز دیکھنے میں آیا تھا. ہمارا ہوٹل دریائے والٹا کے کنارے تھا. ہم ہر شام سینٹ چارلس پل پر رونقیں دیکھنے پہنچ جایا کرتے تھے. پل پر ٹورسٹوں کا ہجوم غفیر ہوا کرتا تھا. پل کے فٹ پاتھ پر طرح طرح کے تماش بین اپنے اپنے کرتب دکھاتے.

فوٹو - مصنف --.
فوٹو - مصنف --.

ہم نے اسی فٹ پاتھ پر دو یا تین ایسے فقیر دیکھے جنہوں نے ہمارے سامنے ہی اپنے تھیلے سے ایک چھوٹی سی دری اور ایک پیالہ نکالا، دری فٹ پاتھ پر لگائی سرہانے پیالہ رکھ کرسجدے والی پوزیشن میں بلکل خاموشی کے ساتھ گھنٹوں پڑے رہے. آتے جاتے ٹورسٹ ان کے پیالے میں ریزگاری ڈالتے اور ان کے بھیک مانگنے کے انداز سے محظوظ ہو تے ہوئے آگے بڑھ جاتے.

لندن میں مقیم اپنے پاکستانی بھکاریوں کا بھی جواب نہیں. لندن کی سڑکوں، پارکوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر اپنے ہم وطنوں پر عقاب کی سی نظر رکھتے ہیں. خاص طور پر خواتین پر. جہاں کسی اکیلی خاتون کو اے ٹی ایم سے رقم نکالتے ہوئے دیکھا بڑی مسکین شکل بنا کر اپنے لٹ جانے یا جیب کٹ جانے کی جھوٹی داستان سنا کررقم ہتیا لی.

لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے علاقے نائٹس برج کے آس پاس اکثر خواتین کو سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر کے آدمی سے کم از کم ایک بار ضرور واسطہ پڑا ہو گا جو اپنی مجبوریوں اور گھر سے نکالے جانے کی جھوٹی کہانی سنا کر پاکستانی خواتین سے رقم ہتھیانے کے چکر میں رہتا ہے.

لندن میں دوسرے یورپین ممالک سے آئے ہوئےضرورت مند مرد اور عورتیں مصروف شاپنگ مال کے ٹریفک سے مبّرا علاقے میں کوئی نہ کوئی کرتب دکھا کر یا اپنی موسیقی میں تھوڑی بہت مہارت سے تماش بین کو محظوظ کر کے کچھ نہ کچھ کما ہی لیتے ہیں.

فوٹو - مصنف --.
فوٹو - مصنف --.

اسپین کے ایک چھوٹے سے ساحلی علاقے بینل مدینہ میں کیا دیکھا تھا کہ ایک نوجوان جوڑے نے جو خود بھی اپنے حلیے سے ٹورسٹ ہی لگتا تھا، اچانک ایک مجموعے کے درمیان اسپینش ڈانس "فلیمنگو" شروع کردیا. یوروپین اور امریکن ٹورسٹ بڑے دل والے ہوتے ہیں. وہ جوڑا اپنے ہی ڈانس سے نہ صرف خود بھی محظوظ ہورہا تھا بلکہ اس نے سارے مجمعے سے داد اور پیسہ بھی وصول کیا. اس طرح کے مناظر دیکھ کر اپنے ملکوں کی پرانے زمانے کی کرتب دکھانے والی ٹولیاں یاد آجاتی ہیں.

اچانک ہی غنی کی یاد آ گئی. ہمارے بیرون ممالک سفر کے دوران پیسہ مانگنے والوں کے نئے نئے انداز دیکھ کر یہ مصرع ضرور دہراتے تھے؛

"روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر".


Shahida profile Picture شاہدہ غنی 1971 سے انگلینڈ میں رہتی ہیں.

شاہدہ غنی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talat Ali May 02, 2013 04:21pm
Shahida this is sadly true.You have described true picture of beggars.All of us come across these beggars from time to time,especially in India and pakistan.You have observed beggars style and activities all over the world.But in the end as Ghani bhai used to say that "roti to kisi taur Sai kamdani hi hai is true.I only wish that they can choose any other means but begging.As usual you have put a good light on the topic,and made it informative and interesting. Talat

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025