فائل فوٹو --.

بعض لوگ جو چٹ پٹی باتیں سننا چاہتے ہیں ان کیلئے غالباً سب سے مزیدار جملہ عمران خان کا تھا جب انہوں نے پی ایم ایل-ن کو اپنی پارٹی کی طرف سے دئے جانے والے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا یہ جنگ "نون" اور "جنون" کے درمیان ہے-

عمران ہی ایسا جملہ کہہ سکتے تھے کیونکہ وہ چیلنجرہیں، تبدیلی کے پیش رو اور نوجوانوں کے رہنما ہیں-

شگفتہ مزاجی اور بزلہ سنجی کے کئی اور بھی مواقع دیکھنے کو ملے لیکن اس بار ماحول میں دانشمندی کی نہیں بلکہ تیزی اور تندی کی گونج ہے- بہترین ---- یا بعض اندازوں کے مطابق بدترین ---- موقع تو ووٹ کے دن ہی دیکھنے میں آئیگا- جبکہ پارٹیاں اپنے مخالفین کے چھکے چھڑانے کے درپے ہونگی- تو آپ نمکو کا اسٹاک جمع کرکے رکھئے اور دیکھنے کیلئے تیار رہئے-

نون بہ مقابلہ جنون یقینا موثر حملہ ثابت ہوا ہے ---- بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی آئی کا نعرہ جس میں پی ایم ایل ن کے انتخابی نشان شیر کو نشانہ بنایا گیا ہے- دیکھو دیکھو کون آیا، شیر کا شکاری آیا.

مجھے گزشتہ ہفتے لاہور میں "بلے" کے حامیوں اور"شیر" کے پرانے اور پرجوش کارکنوں کے درمیان ہلکی پھلکی جھڑپیں دیکھنے کا موقع ملا- انھیں دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ جنون نے لیگ کے ہجوم کو تلملا کر چیخنے پر مجبور کر دیا ہے-

لیگیوں کو بھی مجبورا اپنے رد عمل کا اظہار کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مخالفین کو صرف اپنی آواز سے دبانے کی کوشش کر رہے تھے- وہ آسانی سے تو اس میں کامیاب نہ ہو سکے- اب ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پنجاب میں نون کے غلبے کو جس کا آغاز 1986 میں جماعت اسلامی کی مدد سے ہوا تھا اب جماعت کے اس "خوبصورت" چہرے سے خطرہ لاحق ہے-

شہبازشریف میں جو سیاست دان چھپا ہے وہ اپنے اندر کے فطری گویئے کو دبا نہ سکا اور وزیراعلیٰ نے عمران کے نون-جنون کا جواب اسی لے میں دیا- لیکن شہباز اپنے حاکمانہ اسٹائیل کے باوجود سونامی کا رخ بدلنے میں کامیاب نظر نہ آئے- یہ فرض تو انہیں ان پرانے اداروں کو سونپنا ہوگا جو ہمیشہ سے نوجوانوں کی پہل کاریوں کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں-

عمران جس قدر نوجوانوں پرانحصار کرینگے اغلب یہ ہے کہ وہ اپنی مخالفت میں ان تمام پرانے اداروں کو ان لوگوں کے جھنڈے تلے ایک جگہ اکٹھا کردینگے جن کا دعویٰ ہے کہ تجربے کی بھٹی نے انھیں کندن بنادیا ہے اور یہ کہ وہ جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے- عمران کیلئے یہ ایک پیشہ ورانہ للکار تھی- کیونکہ وہ نوجوانوں پر اپنے اعتماد کو کم کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے تھے-

نوازشریف ابھی نوجوان ہی تھے ---- بیس بائیس سال کے ہونگے --- جب وہ سیاستدان کی حیثیت سے منظر پر آئے- لیکن ان دنوں بھی وہ اپنے بزرگوں کے مشورے پر ہی چلتے تھے- اپنے خاندان میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز، فرمانبردار نوجوان جو اپنے تجربہ کار بزرگوں کی ہدایت پر عمل کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتا تھا- ان بزرگوں میں سے چند آج بھی موجود ہیں، ملک میں اور بیرون ملک بھی، اور پی ایم ایل ن انہیں ذوق و شوق سے یاد دلانا چاہتی ہے کہ آج بھی انہیں قابل اعتماد انتخاب سمجھا جاسکتا ہے-

معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کا مثبت جواب دیا ہے اور مغربی پریس میں جو تبصرے ہو رہے ہیں ان میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نواز اقتدار سنبھالنے کیلئے تیار ہیں- مغربی پریس سے ملنے والی ان اسناد کو مقامی میڈیا میں نمایاں جگہ دیجاتی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ نواز حکومت کا اقتدار میں آنا ناگزیر ہے-

مقامی طور پر، بعض پرانے اداروں کو نوجوانوں کے خطرے کے خلاف دوبارہ متحرک کیا جا رہا ہے- ایک تو برادریاں اور دوسرے کاروباری حلقے-  دیگر تجربہ کار غیر رسمی حلقوں کی بھی ، جن میں سے بیشتر کا تعلق مسجدوں سے ہے ، خدمات حاصل کی جا رہی ہیں تاکہ ان نوجوانوں کو سراسیمہ کیا جا سکے جو گمراہ ہو چکے ہیں-

نوجوانوں کے اس رہنما کی غیراخلاقی باتوں کے شواہد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی گئی اور یقیناً کچھ ایسی باتیں ان کے ہاتھ بھی لگیں جن پر اعتراض ہو سکتا تھا-

تاہم ان پرانے اداروں کیلئے یہ بات بڑی حد تک ماضی کی طرح اتنی آسان نہ تھی- اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود عمران خان کا تعلق اپنی سرزمین سے ہے- جغرافیائی لحاظ سے ہو یا اخلاقی لحاظ سے انھیں اس طرح "غیر" نہیں کہا جا سکتا جیسا کہ ماضی میں بے نظیر کے بارے میں کہا جا تا تھا- اگرچہ کہ ایک بات چیت کے دوران انھیں"پٹھان" بتایا گیا جس کا مقصد پنجاب میں شکوک پیدا کرنا تھا اور ووٹرز اس سے کسی حد تک متاثر بھی ہوئے-

لیکن عمران کے ووٹرز بڑی حد تک اپنے اس موقف پرقائم ہیں کہ وہ یہ مقابلہ انتخابات کے دن تک جاری رکھیں گے اور پی ایم ایل ن کی اس حکمت عملی سے جو مخالفین پر غالب آنے کی ہے ، پسپا نہیں ہونگے-

پی ٹی آئی نے 23 مارچ کو مینار پاکستان پر ہونے والے اپنے جلسہء عام کو ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ ان کی مہم مالیاتی لحاظ سے مضبوط ہے- پارٹی اب تہیہ کر چکی تھی کہ وہ پی ایم ایل ن کے ہر بینر کا جواب اپنے بینر سے دیگی اور ساتھ ہی انکا رہنما یکے بعد دیگرے جلسوں سے خطاب کرتا رہا- حقیقت میں بہت ساری صورتوں میں شریف بھائیوں کو کپتان کے حملوں کا جواب دینا پڑا بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی آئی کے پر جوش کارکنوں نے ان کے جلسوں کو درہم برہم کر دیا تھا -

سب سے دلچسپ منظر تو وہ تھا جب نواز شریف کو اپنے سامعین کو یہ یاد دلانا پڑا کہ وہ بھی کھیلنا جانتے ہیں - عمران کی کرکٹ کی زبان کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ، " کرکٹ ہم نے بھی کھیلی ہے " پی ایم ایل - ن کے رہنما نے ایک ایسے دانشمند بزرگ کے لہجے میں تقریر شروع کی گویا کہ وہ چند نادان اور ناتجربہ کار لوگوں کے سامنے زندگی کا تجربہ بیان کرنے جا رہے ہوں -

جب میدان تیار ہو گیا تو انہوں نے اپنے چیلنجرز کو بتانا شروع کیا کہ کھیل کود میں وقت گزارنے اور کارنامے انجام دینے میں کیا فرق ہے ---- انہوں نے شکاری ، مداری اور زرداری کے ہم قافیہ الفاظ استعمال کئے تاکہ ہجوم میں جوش و خروش پیدا ہو - ہمیشہ - سچ بولنے والے شہباز شریف نے جو ذہین چھوٹے بھائی کی حیثیت سے مشہور ہیں، اس کھیل کی تکنیکی تفصیلات بتائیں- انہوں نے عمران کے ایک پرانے اعتراف کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ کپتان اب انتخابات کو "ٹیمپر" کرنے کی کوشش کر رہا ہے- شہباز کو اس کا منہ توڑ جواب بھی ملا لیکن جیسا کہ تاریخی شواہد بتاتے ہیں یہ چبھتا ہوا جواب کسی کھلاڑی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک تماشبین کی طرف سے آیا یعنی پی پی پی- ایک فوٹیج میں شہباز کو مبینہ طور پر ایک جج کو حکم دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس پر وزیراعلیٰ برہم ہو گئے تھے ---- لیکن چٹ پٹی خبروں کے شائقین نے اس سے بڑالطف اٹھایا-


ترجمہ . سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں