فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

جب سے 11 اپریل کو انتخابی مہم کا آغاز ہوا ہے کوئی بھی دن متشدد واقعات سے خالی نہیں گزرا- کالعدم دہشتگرد گروہوں نے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لئے خوف و دہشت کی انتہا کر دی ہے-

نگران حکومت دن بدن بڑھتی ان متشدد کارروائیوں کے خلاف بلخصوص سندھ، بلوچستان، خیبر پختوں خواہ اور فاٹا میں مجبورنظر آتی ہے-

بہت سی اھم شخصیات اور قومی اداروں کے سربراہوں نے پچھلے کچھ دنوں میں، آنے والے انتخابات کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے- ان کے الفاظ میں وزن ہے اور یہ 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کا فیصلہ کر سکتے ہیں- ان میں سے ایک چیف الیکشن کمشنر ہیں جنہوں نے شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کو امن و امان کی صورت حال سے وابستہ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ تحفظ فراہم کرنا حکومت کا کام ہے-

پچھلے تین ہفتوں کے دوران تقریباً پچاس کے قریب متشدد واقعات ہوئے اور یہ جان لیوا رجحان کسی طرح رکتا دکھائی نہیں دیتا- مسلح حملوں اور بم دھماکوں نے 80 جانیں لے لیں جن میں انتخابی امیدوار بھی شامل ہیں، اور 350 زخمی ہوئے ہیں- یہ انتخابات پاکستان کے سب سے زیادہ خونریز اور چیلنجنگ انتخابات ہیں-

سواۓ پنجاب کے، ملک کے تمام دوسرے حصّوں کو انتخابات سے پہلے غیر معمولی دہشتگردی کا سامنا ہے- سندھ میں خصوصاً کراچی کو اس وقت فرینکنسٹیں کی نوعیت کے ایک عفریت کا سامنا ہے جو کہ انتخابی عمل کو تباہ و برباد کر رہی ہے- کالعدم تحریک طالبان نے ان میں سے بہت سے واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے، اندرون سندھ بھی انتخابات کے حوالے سے ایسے ہی حالات درپیش ہیں- دشتگردوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے ایک امیدوار کے قتل سے کیا-

بلوچستان میں انتخابی دفتروں، مظاہروں اور امیدواروں کے گھروں پہ حملے روز کا معمول بن گۓ ہیں- وہاں پر ان کارروائیوں کا آغاز 16 اپریل کو خضدار ڈسٹرکٹ میں مسلم لیگ-نون کے رہنما سردار ثنااللہ ظہری کے انتخابی مظاہرے پر حملے سے ہوا- اس حملے میں دوسروں کے علاوہ ان کے اہل خانہ کے کچھ افراد بھی مارے گۓ-

صوبے میں ان مہلک حملوں کی ذمہ داری پابند بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن آرمی نے قبول کی ہے- ان علاقوں میں ہزاروں اسکول اساتذہ نے ان اشتہاری دہشتگردوں کی دھمکیوں کی وجہ سے 11 مئی کو انتخابی ڈیوٹی دینے سے انکار کر دیا ہے-

بلوچستان کے انتخابی معاملات کا بلوچ نوجوانوں کے اغوا اور قتل کے بعد لاوارثوں کی طرح بھینکے جانے کی روشنی میں بھی جائزہ لینا چاہیے- رپورٹس کے مطابق پچھلے ایک مہینے میں کراچی سے 13 لاوارث لاشیں ملی ہیں- جس کی وجہ سے علیحدگی پسند پابند گروہ، انتخابات میں حصّہ لینے والی بلوچ جماعتوں کو جمہوریت کا راستہ چھوڑ دینے پر اکسا رہے ہیں-

خیبر پختون خواہ اور فاٹا میں بھی انتخابات سے پہلے متشدد کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں- انتخابی دفاتر اور پارٹی ملاقاتوں پر حملوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں وہاں بڑے پیمانے پر کچھ ہی مظاہرے ہوئے ہیں، اور انتخابی مہم پھیکی پڑ گئی ہے-

نگران وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 11 مئی کو انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور پرامن ہوں گے- وہ ایک شریف انسان ہیں لیکن نگرانوں کے چہرے پر الجھن اور تشدد کے لئے معقول اقدامات سے قاصر ہونا صاف نظر آرہا ہے- جب کہ وزیر اطلاعات نے دہشتگردی کے واقعات کی بڑی وجہ 'اندرونی اور بیرونی عناصر' کو قرار دیا ہے، وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ "انتخابی عمل کے دوران سیاسی جماعتوں پر حملوں میں افغانستان سے آنے والے دہشتگرد ملوث ہیں-" یہ الجھن نگران حکومت کی کوئی اچھی عکاسی نہیں کرتی-

اس حوالے سے آرمی چیف نے بھی کچھ کہا ہے اور انکا پیغام زیادہ پراعتماد ہے: جو ہونا ہے ہوجاۓ، انتخابات 11 مئی کو ہی ہوں گے- پرتشدد واقعات سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات، طالبان کی پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کو دی جانے والی دھمکیوں، بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچوں کی انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں اور ہاں بیرونی دشمن عناصر کی سازشوں کے درمیان ان کے اس بیان نے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو نفسیاتی طور پر قوت بخشی ہے کہ وہ ہمت کر کے پولنگ اسٹیشنوں میں جائیں اور اپنا حق راۓ دہی استعمال کریں -

مسلح افواج نے 70،000 فوجی ملک بھر میںانتخابی عمل پورا ہونے تک حفاظتی ڈیوٹی دینے کے لئے تعینات کیے ہیں- خیر سے امن و امان قائم رکھنا اور اس بات کی ضمانت دینا کے انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی ایک بہت بڑا چیلنج ہے- طریقہ کار کے مطابق مسلح افواج پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات نہیں ہونگی بلکہ وہ ایک مستعد اور فوری رد عمل کے لئے چوکس رہیں گی، لڑاکا طیارے بھی ہنگامی حالات میں فوراً مصیبت زدہ علاقے میں پنہنچنے کے لئے مامور ہونگے- بلوچستان میں ان کی تعیناتی کو اہمیت دی گئی ہے خاص طور سے بارہ حسّاس ضلعون میں-

الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں دشتگردی کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں، ممکن ہے کہ محافظ افواج پر خودکش حملے کیے جائیں، دھیان بٹانے کے لئے چھوٹے درجے کے فسادات کیے جائیں تا کہ بڑے پیمانے پر حملہ کیا جا سکے، اور انتشار پسند قوتوں کو کسی حیران کن کارروائی کے لئے ایک لچکدار حکمت عملی کی ضرورت ہوگی-

ہو سکتا ہے مسلح یونٹس کئی پولنگ اسٹیشنوں اور ان کے عملے کی حفاظت کر سکیں- چناچہ تمام تدابیر کی جائیں، پولنگ اسٹیشن جانے والے راستوں پر گشتی افواج کے بڑے دستے موجود ہوں- یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن پاک افواج کو پر تشدد حالات میں تیزی سے بدلتے منظر ناموں سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے-

11 مئی سے پہلے ہمیں انتخابی عمل کے ذمہ دار، کرتا دھرتاؤں کی طرف سے واضح اور فوری طور پر اقدامات کی ضرورت ہے- چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان یہاں لیڈر ہیں- چیف کو چاہیے کہ وہ انتخابات میں مقابل تمام جماعتوں کے سربراہان کو ایک فوری اور اہم میٹنگ کے لئے بلائیں جہاں تمام امیدوارصاف صاف ان پر مسلط کی گئی دہشتگردی کی مذمّت کریں- یہ ضروری ہے کہ وہ جماعتیں جن کو براہ راست خطرہ ہے انھیں برابر کا موقع دیا جاۓ-

محافظ ادارے بشمول فوج اور خفیہ اداروں کو یہ بڑی ذمہ داری اٹھانی چاہیے تا کہ اس اہم اور فیصلہ کن موقع پر ریاست کو کمزور نہ سمجھا جاۓ- لوگوں کی امیدوں کو آرمی چیف کے اس فیصلے سے تقویت ملی ہے کہ وو شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے-

بلوچ قوم پرست جماعتوں کو اعتماد بخشنے کے لئے ضروری ہے کے گمشدہ بلوچ جوانوں کے قتل کی روک تھام کی جاۓ- اس وقت جمہوریت کے حامی بلوچ قوم پرستوں کے لئے کرو یا مرو جیسی کیفیت ہے- ریاست کو انہیں لاوارث نہیں چھوڑنا چاہیے- امید ہے کہ چیف الیکشن کمشنر، نگران وزیر اعظم اور ان کے استعمال کے لئے حاضر پوری ریاست کی مشینری قوم کو مایوس نہیں کرے گی-


ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں