!جمہوریت کی جیت

شکر ہے خدا کا کہ انتخابات ختم ہوئے۔ گزشتہ چند ہفتے سے ہر سمت ایک ہی صدا اٹھ رہی تھی اور ہر شخص کی زبان پر ایک ہی تذکرہ تھا۔ سب سے بلند گونج ان لوگوں کی تھی جو نئے پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے۔
ہم کئی دفعہ اس راگ سے بے زار بھی ہوئے پر چپ رہے کیونکہ خواب دیکھنے پر تو ابھی تک پابندی نہیں لگی ہے۔
عرض ہے کہ عمران خان یا نواز شریف یا الطاف بھائی کے پاس ایسی کوئی گیدڑ سنگھی نہیں ہے کہ چھو منتر کہتے ہی نیا پاکستان بن جائے۔ تبدیلی کے اس طوطے کی جان فی الحال تحریک طالبان اور حکیم اللہ محسود میں ہے، اور ان حضرات سے چھٹکارا پائے بغیر نیا تو ایک طرف پرانا پاکستان بچانا مشکل ہے۔
انتخابات سے بالکل پہلے بہت سے پیغامات وصول ہوئے اور ٹی وی پر اشتہار بھی چلے کہ ووٹ پاکستان کے لیے ڈالا جائے۔ ہم تھوڑا سا چونکے تو ہمارے ایک شریر دوست نے سمجھایا کہ یہ پیغام اس لیے دیا جا رہا ہے کہ کل کہیں کوئی غلطی سے پاکستان کی بجائے رومانیہ یا ہنگری کے لیے ووٹ نہ ڈال آئے اور سب لوگ پاکستان کے لیے ہی ووٹ ڈالیں۔
اس وقت زیادہ تر صوبائی اور وفاقی نشستوں کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔ انتخابی نتائج کی بد ولت ہم چند نکات اخذ کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ عوام نے زیادہ تر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیا اور وفاق میں اب بھٹو پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اگلے پانچ سال انتظار کی سولی پر لٹکنا ہوگا۔ اس دفعہ عوام اور خواص میں ایک منفرد جوش دیکھنے کو ملا جس کی ایک بہت بڑی وجہ عمران خان صاحب بھی ہیں اور اس سلسلے میں وہ مبارک باد کے حقدار ہیں۔ علاوہ ازیں لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، مہنگائی، اور دہشت گردی نے بھی عوام کو متحرک ہونے پر مجبور کیا۔
ان انتخابات کے بعد ہمیں سب سے زیادہ خوشی یہ خبر سن کے ہوئی کہ مذہبی جماعتوں کو بری طرح شکست کا سامنا کر نا پڑا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ دیر کے علاقے میں جماعت اسلامی کے امیدوار کے پاس سے نوے ہزار کے قریب ووٹ پکڑے گئے تھے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کل ملا کو جماعت کو بانوے ہزار کے قریب ووٹ ڈالے گئے۔ اسی خبر کے مطابق جمیعت علمائے اسلام والوں کو ڈھائی لاکھ کے قریب ووٹ پڑے۔ اہل تشیع کے واضح دشمنوں کو بھی جھنگ اور کراچی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اتنی واضح شکست کے بعد ان جماعتوں کو عصر حاضر کے ابوالکلام، وجاہت مسعود صاحب کا یہ مشورہ مان لینا چاہئے کہ ’سیا ست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔
نئے پاکستان کے حامیوں کا یہ دعویٰ کہ جاہلوں کے ووٹوں کے باعث انکی جماعت کو شکست ہوئی، کوئی نیا نظریہ نہیں ہے اور انکی جماعت کے روحانی پیشوا، مودودی صاحب کی بھی اس معاملے میں یہی رائے تھی۔ اس رائے کو مختلف تصاویر کی شکل میں بھی پیش کیا گیا۔
ایک تصویر میں تبدیلی والوں کے نقطہ نگاہ سے پاکستان کا ایک نیا نقشہ پیش کیا گیا تو ایک تصویر میں یہ اشارہ کیا گیا کہ پنجابیوں کو ملکی مفاد سے زیادہ قیمے والے نان پسند ہیں (چند افراد نے نہاری اور سری پائے کو اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا).
ایک تصویر میں پاکستانیوں اور خصوصی طور پر پنجابیوں کو مردہ قوم ہونے کا طعنہ دیا گیا، اسی طرح ایک صاحب نے یہ گلہ کیا کہ انہوں نے ایک پرائیوٹ ادارے سے تعلیم حاصل کی ہے اور اب ان کی جماعت کی شکست کے بعد ان کو ٹیکسی چلانی پڑے گی۔
اسی طرح درجنوں ’نئے پاکستانیوں‘ نے اپنے پاکستانی ہونے پر شرم کا اظہار کیا۔ ایک خبر کے مطابق کراچی کے ایک انتخابی مرکز پر کلفٹن اور ڈیفنس کی قطار علیحدہ اور نیلم کالونی والوں کی قطار علیحدہ تھی۔ اس طرح کے ’نئے پاکستان‘ میں رہنے سے اگر عوام کی کثیر تعداد نے انکار کر دیا ہے تو یہ ان کا جمہوری حق ہے، آپ ان کو جاہل کہہ کر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔
ایک اور بہت اہم حقیقت جس کا اندازہ انتخابات کے بعد ہو جانا چاہئے، وہ یہ ہے کہ صرف جلسے جلوسوں میں بڑی تعداد میں عوام جمع کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ عوام آپ کے لیے ووٹ بھی ڈالے گی۔ مذہبی جماعتیں اس میدان میں بھی عبرت کا نشان ہیں۔
نئے پاکستان والوں سے جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ گدھے کے جسم پر سفید دھاریاں بنا دینے سے وہ زیبرا نہیں بن جاتا، گدھا ہی رہتا ہے۔
میاں حماد اظہر کے والد، میاں محمد اظہر مشرف کے اشارے پر بننے والی پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر رہے۔
اسد عمر کے والد جنرل غلام عمر، حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق جنرل یحیی کے ساتھ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔
ولید اقبال کے والد جاوید اقبال ہیں، جو 70 کے تاریخی انتخابات (جن کا حوالہ دیے بغیر تبدیلی کے علمبرداروں کا ایک فقرہ مکمل نہیں ہوتا) میں اسٹیبلشمنٹ کی جماعت کی جانب سے بھٹو صاحب کے مقابلے میں کھڑے ہوئے یا کیے گئے تھے۔
عارف علوی صاحب جماعت اسلامی کی جانب سے پہلے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔
جاوید ہاشمی صاحب طالب علمی کے دور میں جماعت کی جانب سے انتخاب لڑتے رہے۔ میاں محمود الرشید دو مرتبہ جماعت کے ٹکٹ سے انتخابات جیت چکے ہیں۔
ہمارا مقصد یہ کہنا نہیں کہ انسان غلطی نہیں کر سکتا بلکہ ہماری نظر میں تو جماعتی ہونے کے علاوہ ہر گناہ قابل معافی ہے لیکن تبدیلی لانے کے لیے صرف چہروں کی تبدیلی سے کام نہیں چلتا۔ ہماری اس رائے سے پاکستان کے بیشتر عوام نے اتفاق کیا اور نعروں کی بجائے کارکردگی کو بنیاد بنا کر ووٹ ڈالے۔
انتخابات میں چند افسوس ناک واقعات بھی دیکھنے کو ملے۔ عمومی طور پر امن و امان کی صورت حال ٹھیک رہی لیکن کراچی اور بلوچستان میں تشدد کے واقعات دیکھنے کو ملے۔
بلوچستان کے پختون علاقوں میں حالات ٹھیک رہے البتہ بلوچ علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی دھمکیوں کے باعث ٹرن آوٹ کم رہا۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخز کر سکتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات مقامی انتظامیہ کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور اگلی حکومت کو درپیش مسائل میں سرفہرست یہ مسئلہ ہونا چاہئے۔
کراچی میں مشہور و معروف لسانی جماعت نے وہی کیا جو وہ کئی برس سے کرتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن اس بار کراچی کے چند باسیوں نے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپنایا، جس کے جواب میں لسانی جماعت کے سربراہ نے حسب معمول ایک مضحکہ خیز بیان جاری فرمایا، لیکن وہ یہ بات فراموش کر گئے کہ اب یہ پرانا نہیں بلکہ نیا پاکستان ہے، اور یہاں کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔
اختتام پر یہ کہنا چاہیں گے کہ انتخابات جمہوریت کا کُل نہیں ہوتے بلکہ صرف آغاز ہوتے ہیں اور اصل گیم ابھی باقی ہے میرے دوست۔
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔














لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں