تصویر میں سکول کے بچے مینگرووز کی کاشت کررہے ہیں۔ تصویر حسین افضال
تصویر میں سکول کے بچے مینگرووز کی کاشت کررہے ہیں۔ تصویر حسین افضال

ٹھٹھہ: ماہرینِ ماحولیات، سول سوسائٹی کے اراکین، جنگلات کے تحفظ سے وابستہ ماہرین اور عام افراد نے کیٹی بندر کے ساحل کے قریب کھیڈواڑی جزیرے پر بڑی تعداد میں مینگروز ( تمر) کے درختوں کی شجرکاری کی ۔

یہ تقریب بدھ کے روز حیاتیاتی تنوع کے عالمی دن ( انٹرنیشنل ڈے آف بایوڈائیورسٹی) کے موقع پر منعقد ہوئی۔

اس مقام پر دن کے روشنی ختم ہونے سے قبل، مینگروز کی ایک قسم، 'رائزوفورا مکرونیٹا' کے سینکڑوں پودے لگائے گئے۔ واضح رہے کہ یہ وہی مقام ہے جہاں 2009 میں 451,176 پودے لگاکر ایک نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا گیا تھا ۔ اب محکمہ جنگلات نے ایک دن میں 650,000 پودے لگاکر ہندوستان کا ریکارڈ توڑنے کی منصوبہ بنایا ہے۔

پودے لگانے کی یہ مہم محکمہ جنگلات اور نیشنل بینک کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی ۔

شرکا نے پورے دن مینگروز کی پنیریاں لگائیں اور آس پاس کے دیگر جزائر کا بھی دورہ کیا ۔

سندھ کے محمکہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر ریاض احمد وگن نے جنوبی ایشیا میں آنے والے 2005 کے سونامی میں مینگرووز کی اہمیت اورماحیولیات میں کردار کے بارے میں شرکا کو بتایا کہ اسی تناظر میں سندھ کا یہ ساحلی حصہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیٹی بندر میں ماحولیاتی سیاحت اور مقامی ماہی گیر آبادی کے مفاد میں محمکہ جنگلات سندھ نے کیٹی بندر کے شہر میں 15,000 ہیکٹر پر مینگرووز لگائےہیں اور ساتھ ہی ایک نرسری بھی قائم کی ہے۔

انڈس ڈیلٹا کے مینگرووز کی حفاظت ، تحفظ اور ترقی پر معمور آغا طاہر حسین نے بتایا کہ دریا میں سمندروں کی دراندازی روکنے کیلئے مینگرووز بہت اہم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ 2010 کے سیلاب نے بہت نقصان پہنچایا لیکن ان کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کو اہم زندگی بخش اجزا فراہم ہوئے ۔

ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم سے وابستہ ریاض نواب اور نفیسہ گل نے ماحولیاتی سیاحت کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ کیٹی بندر اور کراچی کے درمیان ایک فیری سروس شروع کی جانی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وائلڈ لائف کی محفوظ پناہ گاہوں کے قیام سے منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کیٹی بندر کے اطراف جزیروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہاں سرخ چاول کی وجہ سے مشہور تھے لیکن اب یہاں کوئی سبزہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ اس کیلئے دریائے سندھ میں کم ازکم 35 ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی کی ضرورت ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

انور امجد May 24, 2013 05:39pm
نیشنل بینک اور وہ تمام لوگ جو اس نیک کام میں شامل ہیں وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ پاکستان میں تجارتی بنیاد پر بھی جنگلات کی کاشت کی ضرورت ہے صرف حکومتی سطح پر جنگلات کے فروغ سے زیادہ کامیابی ممکن نہیں۔ مغربی ممالک میں کاغذ بنانے والی کمپنیاں جہاں درخت کاٹتی اور کاغذ بنانے میں استعمال کرتی ہیں وہاں وہ بڑے بڑے رقبوں پر جنگلات اگاتی بھی ہیں تاکہ لکڑی کی آئندہ ضروریات پوری کرسکیں۔ کرسمس کے موقعہ پر لاکھوں کی تعداد میں صنوبر وغیرہ کے درخت کرسمس ٹری بنانے کے لئے کاٹے جاتے ہیں۔ لیکن بڑی تعداد میں نرسریاں بھی ہیں جو کٹے ہوئے درختوں کی جگہ نئے درخت لگاتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں بھی کاغذ بنانے کے کارخانے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے جنگلات کی کاشت میں حصّہ لیں۔ پاکستان میں کباب تکّے وغیرہ بنانے کے لئے لکڑی کا کوئلہ خوب استعمال کیا جاتا ہے مگر کوئی صحیح انڈسٹری موجود نہیں اور جو تھوڑے بہت درخت باقی ہیں وہ کاٹ کر ختم کئے جا رہے ہیں۔ مینگرووز سے بھی پلپ بنانا ممکن ہوگا اور تجارتی بنیاد پر کاشت اس کے فروغ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ پلپ بہت سی مصنوعات مثلا کاغذ، ہارڈ بورڈ، پیمپر وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔