• KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C

یہ کیسے انسان

شائع May 30, 2013

السٹریشن --.
السٹریشن --.

22 مئی کی بات ہے جب لندن کے ایک علاقے وولچ کی ایک سڑ ک پرایک نو مسلم نے ایک 25 سالہ نوجوان انگریز فوجی کو انتہائی بےرحمانہ طریقے سے قتل کر دیا.

اس خبر نے اگرچہ کہ پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا لیکن سارے ملک میں نہایت صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا گیا.

پرائم منسٹر کیمرون نے بھی برطانیہ کے عوام میں اشتعال کو روکنے کے لیے فوری طور پر بیان دیا کہ اس طرح کی وارداتیں ہماری کمیونٹی میں تفرقات پیدا نہیں کر سکتیں بلکہ یہ ہمیں ایک دوسرے سے اور زیادہ قریب کر دیں گی.

زیادہ تر اخبار اور ٹی وی چینل پر اس خبر کے تعلق سے مختلف کمیونٹی کے افراد کے تاثرات جاننے کے لئے انٹرویوز لئے گئے. زیادہ تر عوام، اخبارات اور سیاسی لیڈروں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس طرح کے جرائم سے عام مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں. زیادہ تر مسلمان قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور شر اور ہنگاموں میں ان کا عمل دخل نہیں ہوتا. انتہا پرست اور متعصب مذہب پرستوں کا رویہ بیشک تشدد آمیز ہوتا ہے.

اس بہیمانہ قتل کے ذمّہ دار دو نو مسلم تشدّد پسند اور متعصب مذہب پرست افراد ہیں. ان دونوں قاتلوں کا تعلق نائجیریا سے ہے اور ان کے نام کئی سالوں سے سکیورٹی سروسسز کے شر پسند افراد کی لسٹ میں تھے. ان دو قاتلوں نے کچھ عرصہ جیل میں بھی گزارا تھا.

پچھلے دنوں برطانیہ میں چار مسلمان نوجوانوں کو جن کا تعلق پاکستان سے تھا، مکمل تحقیقات کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا. دنیا میں جو کچھ مسلمان قوموں اور ملکوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی ذمّہ دار طاقتور حکومتیں اورسیاست دان ہیں نہ کہ ان کے عوام.

دہشت گردوں کی فوج تیار کرنے میں جن کا ہاتھ ہے انہیں یہ سوچنا ہوگا کہ اس طرح قتل وغارت کا مظاہرہ کرنا، یا تعلیم دینا ان کے مقاصد کا حل نہیں ہے.

برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں اکثر مسلمانوں کو یہ بات فخریہ طور پر کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں لوگوں کی بڑی تعداد اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہے.

ایک جائزے کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں ہر سال پانچ ہزار دو سو افراد اسلام قبول کرتے ہیں اور نومسلموں کی تعداد اب ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے.

ان میں دو تہائی تعداد عورتوں کی ہے جنہوں نے مسلمان کمیونٹی سے کئی سالوں کے رابطے کے بعد اور ان کے کلچر سے متاثر ہو کر مسلمان مرد سے شادی کرنے کی خاطر اسلام قبول کیا ہے.

بتول السومہ ایک آئرش کیتھولک نو مسلم ہیں جو لیڈز میں 'نومسلم پروجکٹ' چلاتی ہیں. ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسلام کی روحانی گہرائیوں اور مسلمانوں کی آپس میں ہم آہنگی اور پیار و محبت میں گرمجوشی سے متاثر ہو کر ہی اسلام قبول کیا ہے.

لیکن نومسلم مردوں کے بارے ہوم افیرز سلیکٹ کمیٹی کے 2012 کے جائزے کے مطابق برطانیہ کی جیلیں تشدّد پسندوں کے پنپنے کے لیے سازگار ثابت ہوئی ہیں.

جیلوں کے اندر مسلمان قیدیوں کی تعداد گیارہ ہزار ہے جو کہ کل قیدیوں کا 13 فیصد بنتی ہے. ان میں سے دو تہائی نومسلم قیدیوں سے انٹرویو کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جیلوں میں مذہب تبدیل کرنے کی وجہ مذہبی بنیاد پر دی جانے والی مراعات ہیں.

مثال کے طور پر ایک مسلمان قیدی کو عبادت کے لیے اپنی کال کوٹھری سے باہر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور انہیں حلال غذا بھی مہیا کی جاتی ہے جس کی کوالٹی دوسری غیر حلال غذا کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے. رمضان کے مہینے میں انہیں اور قیدیوں کے مقابلے میں بہتر غذا فراہم کی جاتی ہے.

ایک اور وجہ جو ان جائزوں کے بعد سامنے آئی ہے وہ قیدیوں کی آپس میں گروہ بندی بھی ہے. مسلمان قیدی اپنے گروہ کو دوسرے سر پھرے قیدی ساتھیوں سے بچائے رکھنے میں پوری پوری یکتائی دکھاتے ہیں.

ٹریسی دوانا، جوبرمنگھم یونیورسٹی میں 'مسلمان قیدیوں' پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں کہتی ہیں کہ قید سے رہائی پانے کے بعد زیادہ تر رہا یافتہ قیدیوں کو اپنا مسقبل بہتر بنانے میں مسلمان کمیونٹی سے کم ہی مدد ملتی ہے.

قید سے رہا شدہ نومسلم تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں. سوسائٹی میں ان کو وہ درجہ نہیں مل پاتا جو ان کو اپنا کردار بہتر بنائے رکھنے میں مدد گار ثابت ہو. زیادہ تر مساجد اخلاقیات کی آماجگاہ ہیں اور ایسے نومسلموں کو خوش آمدید کہنے سے کتراتی ہیں.

یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد شدّت پسندوں کے جال میں پھنس کر تخریبی کاروائیاں کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے. تاہم چند مساجد ایسی بھی ہیں جو ان نومسلوں کی مدد بھی کرتے ہیں. 'نیو مسلم پروجکٹ' جیسے اداروں نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے.

آج کل ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا چلن عام ہو رہا ہے. یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور نیو زی لینڈ میں مرد حضرات اپنا گھر بار، ماں، بیوی اور بچوں کو گھر چھوڑ کر دور دراز ملکوں میں تبلیغ کے لئے نکل پڑتے ہیں.

ان کے پیچھے گھر والوں اور بچوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ ان کی بیویوں اور خاندان کی دوسری خواتین کو باہر کی دنیا سے اور تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے. اکثر ایسے افراد کی اولادیں ماں باپ کی صحیح رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے گمراہی کے طرف مائل ہو جاتی ہیں.

ان تبلیغ کاروں کا نشانہ زیادہ تر وہ مسلمان گھرانے ہی ہوتے ہیں جو شائد ان سے زیادہ ہی اپنے مذہب کے اصولوں کے پابند ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں؛ اور جن میں اپنی ماؤں کی خدمت، بہنوں اور اولادوں کے بہتر کردار، بہتر مسقبل اور اپنے ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ہے.

تبلیغ کاروں کی اکثریت کے پاس تعلیم کا فقدان ہے. جس ملک میں رہتے ہیں اس کی زبان، قانون اور کلچر سے پوری طرح وافقیت نہیں رکھتے. وہ کس طرح ایک غیر مسلمان کو اپنے مذھب کی طرف راغب کر سکتے ہیں.

اگر مسلمان گھرانوں میں ہی تبلیغی پروگرام چلانا ہو تو انہیں پہلے تو اپنا ہی کردار بلند کرنا ہو گا اوراپنے دائرہ فکرکو وسیع کرنا ہوگا. ابھی حال ہی میں ہمارے ایک قریبی دوست نے جو نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں، بتایا کہ چارعدد تبلیغ کاروں کی ٹولی نے بغیر ملاقات کا وقت لئے اچانک ان کے گھرپہنچ کر یوں تبلیغ کی کہ ثواب کمانے کے لیے وہ بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر ان کے ساتھ تبلیغی کاموں میں شریک ہو جائیں.

تشدد پسند مذہبی اداروں کی تبلیغ اور جہالت کے پرچار کی بات تو ایک طرف، ابھی پچھلے دنوں پاکستان میں انتخابات کے دوران ہم نے سارے سوشل میڈیا پر اور عوام کے بڑے بڑے مجموعوں میں مائیکروفون پر انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے اشتعال انگیز سیاست دانوں کی بدکلامی اور تباہی کی طرف راغب کرنے والی تقاریر اور بیانات سنے تھے جنہوں نے ہم جیسے عام لوگوں کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا تھا.

کون جانتا ہے کہ اس مجموعے میں کتنے لوگوں نے ان تقاریر اور بیانات کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کیا ہو گا اور کتنوں کے دلوں میں نفرت اور بدلے کی آگ نے گھر بنا لیا ہو گا. کون کہہ سکتا ہے یہ آگ کس وقت کس کا گھر جلا کر راکھ کرڈالے گی؟

ایک سیاست دان' ایک مذہبی رہنما، ایک ادیب، ایک ٹیچر پر خاص طور پر، اور ایک عام انسان ہونے کے ناطے ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے بیانات، تحریروں اور مذہبی تعلیمات میں نفرت کی آگ بھڑکانے کی بجائے مسائل کا حل انسانیت کے ساتھ پرامن طریقوں سے کرنے کی تبلیغ کریں.


Shahida profile Picture شاہدہ غنی 1971 سے انگلینڈ میں رہتی ہیں.

شاہدہ غنی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

mahe' talat abidi May 31, 2013 04:39pm
Shahida, you are very right in saying that there are peaceful ways of protests. Why should an innocent person pay with his/her life for the country's foreign policies? I was brought up with a tolerant Islam, my parents taught us that all religions teach you to love humanity. We have to teach our children our Prophet's Islam. I agree with your views and I am sure majority of Muslim people have similar values. Well done!

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025