نریندر مودی پر امریکی کانگریس میں تنقید

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2013
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندرا مودی۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندرا مودی۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

نئی دہلی: نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے کی دائیں بازو کی امید کو اس وقت نظربد کا اثر ہوتا معلوم ہوا جب منگل کو انہوں نے ایک نوجوان عورت کے ساتھ اپنے اسکینڈل کے حوالے سے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی، تو دوسری جانب امریکی کانگریس نے ان کی مذہبی عدم برداشت پر انہیں سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

امریکی ایوانِ نمائندگان میں اس ہفتے دونوں جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی ایک متفقہ قرار داد میں امریکی حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی گئی ہے، جس کے تحت 2005ء میں گجرات کے وزیراعلیٰ اور ہندوستان میں وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار کو امریکا میں داخلے کا ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔

”دی ہندو“ کے مطابق یہ قرارداد پیر کی شام کو ایوان کی 417ویں قرارداد کے طور پر پیش کی گئی۔ اس میں ہندوستان کی حکومت پر زور دیا گیاہے کہ وہ مذہبی اختلافات کے ذریعے ناجائز فوائد حاصل کرنے کے رویے کی عوامی سطح پر مخالفت کرے، اور مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کرنے کی مذمت کرے، خاص طور پر 2014ء کے دوران ہندوستان میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کے دوران۔

امریکی کانگریس میں ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے اپنی مضبوط حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ”ہندو عقیدے کی رواداری اور اجتماعی روایات کے برعکس، ہندو قوم پرست تحریک نے ایک متنازع اور پرتشدد ایجنڈے کی جانب پیشقدمی کی ہے، جو ہندوستان کے سماجی تانے بانے سخت نقصان دہ ہے۔

اس تناظر میں اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق کو امریکا اور ہندوستان کے دو طرفہ مذاکرات میں شامل کیا جائے۔

اس قرارداد میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ اس طرح کے مسائل کو جب مناسب ہو تو براہ راست وفاقی اور ریاستی حکام کے سامنے اُٹھایا جائے۔

”دی ہندو“ کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد پنسلوانیا سے ریپبلکن پارٹی کے نمائندے جوزف پٹز کی جانب سے پیش کی گئی، اس کو دونوں جماعتوں کے 14 دیگر اراکین کانگریس کی حمایت بھی حاصل تھی، جن میں کیتھ ایلیسن، جان کونیئرز اور ایشیاء اور بحرالکاہل کے لیے ایوان کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے صدر اور ریپبلکن پارٹی کے اسٹیو شابوٹ بھی شامل ہیں۔

اس قرارداد میں فروری 2002ء میں گودھر کے سانحے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں 58 ہندوؤں ایک ٹرین کی بوگی میں زندہ جل کر ہلاک ہوگئے تھے، اس میں امریکا کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی 2003ء کی رپورٹ اور بعد کے سالوں میں امریکی محکمہ خارجہ کی تفتیش کے مطابق ”ہندووں کی جانب سے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف بدترین مذہبی تشدد کیا گیا تھا، جس میں فروری اور مارچ 2002ء کے دوران ایک اندازے کے مطابق دوہزار افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔“

اس قرارداد پر جوزف پٹز کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے ”دی ہندو“ لکھتا ہے: ”ہندوستانی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بڑی کامیابیاں حاصل کرے گی، جبکہ ان گنت ہزاروں لوگوں کو ، جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھودیا ہے، اب تک انصاف میسر نہیں آیا ہے۔“

یہ تو بیرون ملک کا معاملہ تھا، اپنے ملک میں نریندرا مودی کو خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہے، جنہوں نے ان کی ایک کنوارے امیدوار کی حیثیت سے میڈیا میں شہرت کو ایک داغ لگانا شروع کردیا ہے۔ گجرات پولیس کی ایک ٹیپ ریکارڈنگ سامنے آئی ہے، جس میں ان کے ایک اہم ساتھی جو اس وقت جونیئر وزیرِ داخلہ تھے، نے نریندر مودی کی جانب سے ایک نوجوان خاتون کا تعاقب کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں